جمالِ صورت، کمالِ سیرت!

جمالِ صورت، کمالِ سیرت!
جمالِ صورت، کمالِ سیرت!
کیپشن: hafiz muhammad adrees

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

[بچوں کے لیے لکھی گئی کہانی جس میں بڑوں کے لیے بھی دعوتِ فکر ہے، اس لیے وہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔]
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین کا جو مذہب، عقیدہ اور خیال و نظریہ ہو، وہ اس نومولود بچے کو اسی کے مطابق ڈھال دیتے ہیں۔ فطرت کے مطابق ہونے سے مراد یہ ہے کہ پیدا ہونے والا ہر بچہ پیدائشی طور پر مسلمان ہوتا ہے، کیونکہ فطرتِ الٰہی یہ ہے کہ ساری مخلوق اپنے اصلی اور حقیقی خالق کو پہچانے اور اس کے احکام کے تابع رہے۔ نبی پاک نے یہ بھی فرمایا کہ والدین اپنے اپنے مذہب کے مطابق بچوں کو آتش پرست، یہودی، عیسائی اور دیگر باطل مذاہب کا پیروکار بنا دیتے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ نے ہم لوگوں کو مسلم گھرانوں میں اور مسلمان والدین کے ہاں پیدا فرمایا۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر ہم خدانخواستہ مسلم گھرانوں کی بجائے غیر مسلموں کے ہاں جنم لیتے تو ہماری حالت کیا ہوتی؟ اب اللہ نے ہمارے اوپر یہ رحم فرمایا ہے تو ہم سب کو اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور شکر محض زبان سے نہیں ہو، بلکہ انسان کا عمل ثابت کرتا ہے کہ وہ شکر گزار بندہ ہے۔ شکر گزاری میں اطاعت و وفاداری لازمی ہے اور نافرمانی و بغاوت سے بچنے کی ہمیشہ فکر کرنا ضروری ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندوں میں سے تھوڑے ہی شکر گزار بن کر زندگی گزارتے ہیں۔ یہی اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔
اسلام نے والدین کو تاکید کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اچھے نام رکھیں، انہیں اخلاقی و دینی تعلیم سے آراستہ کریں اور اسلامی احکام پر عمل پیرا رہنے کے لئے مسلسل ان کی نگرانی اور تربیت کرتے رہا کریں۔ بچے کی شکل صورت اچھی ہو تو والدین بہت خوش ہوتے ہیں ،مگر بچہ خوب صورت نہ بھی ہو تو والدین کو پھر بھی پیارا لگتا ہے۔ اللہ مہربان و کریم نے والدین کے دلوں میں اپنے بچوں کی محبت بہت پختہ اور راسخ کر دی ہے۔ بچے کی صورت تو اللہ کی طرف سے پیدا کردہ ہوتی ہے، مگر اس کی سیرت میں اس کے والدین، اساتذہ اور خود اس کا اپنا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ صورت اچھی نہ بھی ہو تو یہ بچے کا عیب نہیں ،مگر سیرت اور اخلاق اچھے نہ ہوں تو یہ بہت بڑا نقص ہے۔ جو بچے خوب صورت بھی ہوں اور خوب سیرت بھی، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے سونے پر سہاگہ۔ ہمارے نبی پاک بہت محبت کرنے والے اور ساری مخلوق کے لئے سراپا رحمت تھے۔ آپ تمام بچوں سے محبت کرتے تھے۔ آپ اپنے نواسوں حضرت حسنؓ اور حسینؓ کو اپنے بازوﺅں میں اٹھا کر پیار کرتے، کبھی کندھے پر بٹھا لیتے، کبھی بستر پر لیٹے ہوتے تو ان کو پیٹ مبارک کے اوپر بٹھاتے اور لٹاتے۔ ان کو چومتے اور ان کی تعریف فرماتے تھے۔
ایک مرتبہ آپ نے حضرت حسن سے پیار کرتے ہوئے فرمایا: ”میرا بیٹا حسن شکل و صورت میں بھی مجھ جیسا ہے اور اخلاق میں بھی مجھ جیسا ہے“ ۔یہ حضرت حسنؓ کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ وہ نبی پاک کی طرح حد سے زیادہ حسین و جمیل تھے ، پھر ان کے اخلاقِ عالیہ بھی اسوہ¿ حسنہ کا پر تو تھے۔ نبی پاک نے جب بھی اور جو کچھ بھی فرمایا، وہ بالکل درست اور سچ ثابت ہوا۔ حضرت حسنؓ جب جوان ہوئے تو وہ صحابہ کرام، جنہوں نے نبی پاک کی بارہا زیارت کی تھی اور حسنِ مصطفی سے آنکھیں ٹھنڈی کی تھیں، ان کو دیکھ کر آنحضور کو یاد کرتے تھے۔ حضرت حسنؓ کے اخلاق و سیرت کو بھی صحابہ کرامؓ حضور پاک کے مشابہ پاتے اور خوش ہوتے تھے۔ حضرت حسنؓ کی سیرت میں ایسے بے شمار واقعات ہیں ،جن سے ان کی یہ خوبیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ ہم یہاں ایک واقعہ ان کی سدا بہار سیرت سے نقل کرتے ہیں۔

حضرت حسنؓ بہت مہمان نواز تھے۔ ان کا دستر خوان وسیع تھا اور لوگ ان کی مہمان نوازی سے اکثر لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کا دسترخوان بچھا تھا، مہمان بیٹھ گئے تھے اور خود حضرت حسنؓ بھی ان کے درمیان تشریف فرما تھے۔ ان کا ایک غلام کھانا لا کر دسترخوان پر رکھ رہا تھا۔ وہ شوربے کا ایک پیالہ لے کر آیا۔ سوئے اتفاق وہ پیالہ حضرت حسنؓ کے سامنے دسترخوان پر رکھتے ہوئے، غلام کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرا اور ٹوٹ گیا۔ شوربہ دسترخوان پر بہہ گیااور کچھ چھینٹے حضرت حسنؓ کے شفاف لباس پر بھی پڑ گئے۔ حضرت حسنؓ نے زبان سے تو کچھ نہ کہا ،مگر غلام کی طرف دیکھا۔ اس معاشرے میں غلام و آقا سبھی دین سے واقف تھے اور قرآن و سنت پر سب کی گہری نظر تھی، غلام سخت پریشان تھا، اس نے ندامت کے ساتھ دبے لفظوں میں قرآن مجید کی ایک آیت کا چھوٹا سا ٹکڑا پڑھا.... ”والکاظمین الغیظ“ ....یعنی اللہ کے پسندیدہ بندے غصہ پی جاتے ہیں۔
یہ سن کر حضرت حسنؓ نے فوراً کہا.... ”کَظَم±تُ غَی±ظِی±“ ....یعنی مَیں نے اپنا غصہ پی لیا ہے۔ غلام نے آیت کا اگلا ٹکڑا پڑھا ....”والعافین عن الناس“ ....(لوگوں کی غلطیاں معاف کر دینے والے)۔ یہ سنتے ہی حضرت حسنؓ نے جواب دیا ....”قَد± عَفَو±تُ عَن±کَ“ ....یعنی مَیں نے تجھے معاف کر دیا۔ غلام نے اسی آیت کا تیسرا ٹکڑا پڑھ دیا ....”واللہ یحب المحسنین“ ....یعنی اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ اب امام حسنؓ نے مسکراتے ہوئے فرمایا : ”اِذ±ھَب± فَا¿َن±تَ حُرّµ“ یعنی اے غلام جا اب تو آزاد ہے۔
نبی پاک نے اپنے پیارے نواسے کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا ،وہ اس فرمانِ نبوی کے عین مطابق تھے۔ ہمارے لئے بھی اس میں درس ہے۔ بطور والدین اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرنا، ان کی خوبیوں کا احساس و ادراک رکھنا اور ان کو مزید نکھارنے کی کوشش کرنا، بڑوں کی ذمہ داری ہے۔ بطور اولاد والدین کی پند و نصیحت کو پلّے باندھنا اور موقع آنے پر اپنے بزرگوں کی توقعات اور تمناﺅں کا پاس لحاظ رکھنا چھوٹوں کا قرض ہے۔ قرآن و سنت سے گہرا تعلق قائم کرنا اور اس کے آگے ہر حال میں سرِ تسلیم خم کر دینا، ہم سب کے لئے سعادت ہے۔ اسی میں کمال ہے اور اسی میں جمال۔ اس سے روگردانی کرنے میں ذلت و رسوائی ہے اور پستی و زوال!

مزید :

کالم -