اٹھارہویں قسط۔ ۔ جناتی۔۔۔جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے

اٹھارہویں قسط۔ ۔ جناتی۔۔۔جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے
اٹھارہویں قسط۔ ۔ جناتی۔۔۔جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ماں گرو کے چہرے کی رنگت اور وحشت دیکھ کر گھبرا گئی اور اس کی ممتا نے اسے چیخ کر بولنے پر مجبور کردیا’’ گرو تم کیا کرنا چاہتے ہو۔۔۔‘‘

’’ فاطمہ۔۔۔ ‘‘ گرو کی آواز میں طاغوتیت عود آئی ’’ بھلا اس میں ہے کہ تم اس سمے باہر چلی جاؤ اورخاموشی سے کنڈی چڑھا کر کمرے میں بیٹھ جا ۔میرے ببر کو جو مرض ہے میں اسکو جانتا ہوں ۔اسکا مرض کوئی جسمانی نہیں ۔بس تم چلی جا ۔ میرا سمے بیت نہ جائے ،تم چلی جا ‘‘
ماں ڈر گئی،اسکے ہونٹ پھڑپھڑائے۔اس نے شاید اس سے پہلے گرو کا یہ روپ نہیں دیکھا تھا،اسکی آنکھوں میں سرخ ڈورے دھکنے لگے،ماتھے پر لکیروں کا جال سا پھیل گیااور سانس تیز ترکسی درندے کی خرخراہٹ جیسی ہوگئی تھی۔

جناتی...جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے....17 ویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ماں باہر نکلی تو گرو نے اندر سے دروازے کو کنڈی لگالی۔ماں نے اپنے کمرے میں خود کو چپ چاپ بند کرنے کی بجائے وضو کیا اور مصلٰی بچا کر بیٹھ گئی ۔اس کا اپنے اپنے خدا اور رسولﷺ کے سوا کوئی چارہ گر ، داتااور مسیحا نہیں تھا۔
اُدھر میری حالت دیکھ کر گرو کے چہرے پر کوئی تشویش نہیں اُبھری۔’’ تو میرا جیون ہے ببر ۔میں تجھے مرنے نہیں دوں گا شیر پترا۔۔۔‘‘ اس نے اپنا بایاں ہاتھ میری پیشانی پر رکھا اور آنکھیں بند کرکے کوئی عمل بدبدانے لگا۔ کوئی ایک منٹ کے وقفہ کے بعد اس نے میرے سینے پر پھونک ماری اور ساتھ ہی میرے سارے کپڑے اتار کر مجھے ننگا کردیا ۔مجھے تو کوئی ہوش نہیں تھا البتہ میرا جسم ابھی تاپ سے سلگ رہا تھا ۔ گرو نے میرے کپڑوں کی پوٹلی بناکر انہیں میرے سرہانے رکھا اور جیب سے ماچس نکال کر انہیں آگ دکھا دی ۔ادھرکپڑوں نے آگ پکڑی ،اُدھر گرو نے پھر سے کوئی منتر بدبدانا شروع کردیا اور کافی اونچی اور رعب دار آواز میں پڑھتے ہوئے اس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی کسی شاخ کی ماند ہڈی کا ٹکڑا نکالا اور آگ کے لہکتے شعلے کی جانب اسکا رخ کرکے اب ذرا دھیمے انداز میں غراتے ہوئے بولا ’’ تو جو کوئی بھی ہے سامنے آجا ۔بول تو کون ہے۔اگر تو نے بولنے میں دیر لگائی تو تیرا نشٹ ماردوں گا‘‘
گرو کی آواز میں ایک تحکم اور دہشت تھی کہ بھڑکتا ہوا شعلہ ڈھیلا پڑ گیااور میرے پورا بدن ایک دم سلگنے لگا،اور پھر جیسے بھاپ سی اٹھنے لگی۔
’’ آجا آجا‘‘ گرو دانت جما کر بولا ۔
چند ثانئیے میں میرے بدن سے اٹھنے والی بھاپ میری ناف کے گرد اکٹھی ہونے لگی ۔یوں محسوس ہونے لگا جیسے ناف کے اندر سے کوئی وجود سرک سرک کراس بھاپ میں منتقل ہورہا ہے، یہ دیکھ کر گرو نے پاٹ دار انداز میں پھر پڑھائی شروع کردی ۔۔۔ اب کی بار اسکی آواز میں جوش بھی پیدا ہورہا تھا ۔
پھر یونہی چند ثانئے اور گزرے ہوں گے کہ میری ناف سے نکلنے والا وجود بھاپ میں جذب ہونے کے بعد ایک بالشت بھر وجود میں متشکل ہوگیا۔ذرا نحیف اور لرزتا ہوا۔۔۔
’’ باپو میں حاضر ہوں گنگو ‘‘ بالشت بھر وجود منمنا کر بولا۔
’’ اچھا تو یہ تو ہے ۔۔۔ چل اچھا ہوا کہ یہ تو ہے گنگو ۔۔۔ ‘‘ گرو کے چہرے پر جیسے اطمینان عود آیا ۔اس نے گنگو کو اپنے ہاتھ میں اٹھایا ،اس کا وجود جیسے بے وزن تھا ،دھویں یا ہوا کی طرح ۔۔۔ گرو نے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے کرکے کہا ’’ تو جانتا ہے ایک ہمزاد اور موکل کی طرح تو نے ساری عمر میرے ببر کے ساتھ بیتانی ہے۔ببر کی پیدائش سے بھی پہلے سے میں نے اپنے گرو سے یہ وچن لیا تھا کہ وہ میری نسل کی رکھشا کے واسطے کوئی ایسا موکل اسکے مونڈھے سے باندھ دے جو اسکو راہ سے ہٹنے نہ دے ،اس کے دل اور دماغ میں ہمیشہ اس بات کی کشش پیدا کرتا رہے گااور یہ میرے گرو جی کی کرپا سے وچن پورا ہورہا ہے۔گروجی نے مجھے بتایا تھا اور تیرا روپ سروپ دکھا دیا اور تیری آواز بھی مجھے سنادی تھی کہ تو جلد مجھ سے ملے گا۔ لگتا ہے وہ سمے آگیا ہے۔اب تو مجھے وچن دے کہ تو میرے ببر کو ساری دیویوں کی تسخیرات سکھانے پر مجبور رکھے گا۔‘‘
’’ میں وچن دیتا ہوں گرو ، تمہارا ببر میرا ببر ہے اور میں ساری حیاتی اسکی رکھشا کروں گا‘‘ گنگو نے باریک انداز میں جواب دیا ۔
’’ اور ہاں تو جانتا ہے کہ اسکی ماں یہ پسند نہیں کرتی کہ میں اسکو اپنے عملوں میں ماہر بنا دوں ۔۔۔ تو ایسا کر کہ اب یہ جب ہوش میں آئے تو اسکو ماں سے ذرا دور کردے۔یہ ماں کا دیوانہ ہے۔میں نے پچھپا دیوی اور ہنومان کی لوری اسکو سکھا دی ہے ۔اب تو اس لوری کے اگلے منتر سکھانے تک اسکو اسکی ماں سے دور کردے۔۔۔‘‘
’’ میں یہ کام کروں گا تو ببر ہمارے کام کا بن سکے گا ،لیکن گرو اسکی ماں کو روکنا مشکل کام ہے ۔تم جانتے ہو یہ آگ اور پانی ،نور اور سیاہی کا ملاپ نہیں ہوسکتا ۔وہ اپنے رب کو مانتی ہے اور تو اپنے خداوّں کو یہ سمبندھ عجیب ہے۔۔۔ تو اسکو چھوڑ کیوں نہیں دیتا؟‘‘
گنگو بالشتیے کی بات سن کر گرو بولا’’ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ گرو جی کو معلوم ہے کہ میں فاطمہ کو نہیں چھوڑ سکتا ۔وہ اللہ کی بندی ہوکر بھی میری بیوی ہے اور میں اسکو آسانی سے نہیں چھوڑ سکتا ۔ کبھی سمے آیا تو اس بھید سے تجھے آگاہ کروں گا ۔بس میرا پتر آج سے تو اپنا کام شروع کردے اور میرے ببر کو کالیا بنانے میں جو ہوسکتا ہے کردے‘‘
اس اثناء میں قریب کی مسجد سے تہجد کی آذان آنے لگی۔ میری ماں اس مؤذن کی آواز سن کر جاگتی تھی اور تہجد پڑھنے کے بعد فجر تک اپنے سوہنے ربّ کو یاد کرتی تھی۔ آذان سنتے ہی گنگو کا پورا بدن لہرایااور اسکی مہین و نحیف آواز پر رعشہ سا طاری ہوا’’ میں چلتا ہوں اب گرو ۔۔۔۔۔۔‘‘ اس سے قبل کہ میر اباپ اسکو وداع کرنے کے لئے اسکی واپسی کا منتر شروع کرتا،دروازے پر دستک ہوئی اور ساتھ ہی میری ماں کی آواز آئی ’’ بابر حسین ،بابر حسین ۔گرو بابر کا کیا بنا ۔میرے لال تو اٹھا کہ نہیں ۔اے میرے اللہ میرے بابر حسین کی مدد فرما ۔۔۔۔۔۔اے میرے مالک میرے بچے کی حفاظت فرما ‘‘ ماں سسکیاں لیکر گڑ گڑا رہی تھی اور اس نے ساتھ ساتھ درود خضری پڑھنا شروع کردیا ۔
گروکے لئے ماں کی دروازے پرآمد اور اپنے ربّ اور شافع محشر ﷺ کے حضور گڑگڑانا کسی آفت سے کم ثابت نہ ہوا ۔اس سے زیادہ گنگو کی حالت دیکھنے کے لائق تھی۔ گرو کا یہ کلام جو گنگو کو واپس بھاپ میں تحلیل کرنے میں مدد دے سکتا اور اسکو میرے مساموں میں واپس جانے میں لطافت دے سکتا تھا ، اب دشوار ہوسکتا تھا اور پھر ایسا ہی ہوا۔خالق کائنات کا کہا حق ہے ۔نماز تہجد میں سوہنا رب اپنے بندوں کے بہت قریب آجاتا ہے۔ملائکہ پوری زمین پر پھیل جاتے اور رات کے اس پہر اپنے اللہ سے رازو نیاز کرتے اور گریہ زاری کرتے ہوئے تسبیحات پڑھتے بندوں کی شفاعت کا فضل لیکر آتے ہیں ۔اس سمے شیطانی بلائیں سمٹنے اور دوڑنے لگتی ہیں ۔نور اور ظلمت کا مقابلہ شروع ہوجاتا ہے ۔بندہ بشر اگرچہ یہ مجادلہ نہیں دیکھ پاتا لیکن اسرار کے پردوں میں لپٹی مخلوق میں خیر و شر کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔بس دعا گو ،ملتجی میں اخلاص ہونا چاہئے کہ اس کا ربّ اس پر شفقت فرماسکے۔میری ماں کی دعاؤں اور درود کی برکت سے گرو کے لئے منتر پڑھنا مشکل ہوگیاتو گنگو پرجیسے عالم سکرات نازل ہوگیا، گرو ہڑبڑا گیا۔وہ جانتا تھا اگر گنگو مرگیا ،جل گیا تو ببر ہمیشہ سے اسکے ہاتھوں سے دور ہوجائے گا ۔اسکی رگوں میں اسکی صادقہ اور مومنہ ماں کا دودھ اپنا اثر دکھانے لگ پڑے گا ۔گنگو شیطان کی طرح میرے خون میں دوڑنا بند کردے گا تو پھر میرے ذہن و قلب شیطانی وساوس سے آزاد ہوجائے گا۔میں ایک نیکو کار اور اچھائی کا عالم بن جاؤں گا۔لیکن گرو کو یہ گوارا نہیں تھا۔وہ ہارنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔ اس نے ایک لمحے میں فیصلہ کیا اور مجھے جھٹ اپنی چادر میں لپیٹ کر گود میں اٹھایا اور گنگو سے بولا ’’ گنگو پتر ذرا دم رکھنا ‘‘ یہ کہتے ہی اس نے دروازہ کھولا اور سامنے کھڑی میری ماں کو دھکا دیکر اس نے پیچھے کیا اور مجھے اٹھا کر گھر سے باہر نکل گیا۔
(جاری ہے ۔ انیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

مزید :

جناتی -