عمران خان کا عروج و زوال
اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کی تشکیل کی تو نظام شمسی بھی قائم کیا اور زمین، آسمان و سیاروں، ستاروں کا ایک مربوت نظام بنایا جس میں سورج کو توانائی کا منبا بنایا جس کے اردگرد سیاروں کا ایک نظام رواں دواں ہے روئے زمین پر حضرت آدم سے لے کر ہمارے پیارے نبی تک انسانیت کو ایک مربوت نظام میں پرونے کی جدوجہد کی گئی اور ازل سے سرداری و بادشاہت کا نظام قائم کیا گیا تاکہ انسان ایک مرکزی نظام کے تحط اپنے شب و روز احسن طریقے سے گزارے اس نظام نے ترقی کرتے کرتے جمہوریت و آمریت کی شکل اختیار کر لی اسلام نے چودہ سو سال پہلے خلافت میں جمہوریت کا نمونہ پیش کیا گیا تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں جمہوریت و آمریت کے دورانیئے آتے جاتے رہے اور سیاسی پارٹیاں بنتی رہیں جن میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نمایاں حیثیت رکھتی ہیں لیکن بدقسمتی سے نواز شریف کے خاندان نے مسلم لیگ (ن) پر قبضہ کیا ہوا ہے پیپلزپارٹی پر بھٹو خاندان کا قبضہ ہے پاکستان تحریک انصاف پر عمران خان کا قبضہ ہے۔ کسی بھی پارٹی میں جمہوری نظام قائم نہیں ہے کئی دہائیوں کے بعد پاکستانی عوام نے عمران خان کی شخصیت سے بہت ساری امیدیں لگائیں جن میں اکثریت نوجوانوں اور خواتین کی ہے شروع میں عمران خان سے بہت زیادہ جذباتی لگاؤ رہا لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی، کرپشن و بے روزگاری نے ان کے جذبے سرد کر دیئے مہنگائی و بے روز گاری نے اپوزیشن کو عوام کے جذبات سے کھیلنے کا موقع دیا اپوزیشن نے حکومت کے پہلے سال سے ہی عدم اعتماد مناسب وقت پر لانے کا اعلان کیا۔ عمران خان نے عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ لگا کر اپنی قائدانہ صلاحیت کا لوہا منوایا اور عثمان بزدار کی قابلیت کی وجہ ہسے اپنے دیرینہ ساتھی جہانگیر ترین و علیم خان سے ہاتھ دھوئے ہر چھ ماہ میں آئی جی سیکٹریز و دیگر افسران کو تبدیل کر کے اپنی دھاک بٹھائی اس دھاک کی وجہ سے حکومتی ڈھانچہ کھوکھلا ہوا اور خاص کر پنجاب میں کرپشن، مہنگائی و بیروزگاری اپنے عروج پر پہنچ گئی مرکز میں امپورٹیڈ مشیروں، وزیروں کی فوج بھرتی کی جن کا دھیان اپنی دوہری قومیت کی طرف زیادہ رہا کرپشن سے بڑے بڑے کیس بنائے گئے لیکن کسی سیاسی ڈاکو سے ایک روپیہ نہ وصول ہو سکا ان عوامل کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی اے اور ایم این اے پارٹی چھوڑ کر اپوزیشن کی طرف مائل ہو گئے عمران خان کی سیاسی غلطیوں کی وجہ سے فوج نے حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اپوزیشن نے جب سے عدم اعتماد کا اعلان کیا عمران خان نے سیاسی فیصلے گھبراہٹ میں کئے چودھری صاحبان نے پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کیا تو ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے عجلت میں عثمان بزدار کا استعفٰی لے کر پرویز الٰہی کو چار نشستوں کے بدلے پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے کا اعلان کر دیا اس کے بعد ایم کیو ایم، باپ پارٹی و دیگر نے بڑی بڑی مراعات کا تقاضہ کیا جن کو پورا کرنا ایک مشکل کام تھا اور وہ اتحاد سے نکل کر اپوزیشن میں شامل ہو گئیں پرویز الٰہی کو وزارت دینے سے پاکستان تحریک انصاف علیم خان و ترین کے 20 سے زائد ایم این اے اور 25 سے زائد ایم پی ایز نے اپنی پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیا جو ایک بہت بڑا دھچکا تھا جس سے عمران خان کا حکومت میں رہنا نا ممکن ہو گیا ساڑھے تین سال تک جب بھی عثمان بزدار کو ہٹانے کا مطالبہ ہوا عمران خان نے سختی سے اسے رد کیا روحانی طور پر انہیں یہ یقین تھا کہ عثمان بزدار کو ہٹانے سے ان کی کرسی گر جائے گی اور ایسا ہی ہوا ماہ رمضان میں روحانی علم کے موکل قید کر دیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس علم کے اثرات نہیں ہو پاتے جس کا نقصان عمران خان کو ہوا اور ماہ رمضان میں ان کی حکومت ختم ہوئی عمران خان کا غیر مناسب وقت میں دورہ روس عالمی طور پر تنہائی کا سبب بنا نازک وقت پر گورنر پنجاب کا استعفا ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ قومی اسمبلی کو غیر احسن طریقہ سے چلانا عدلیہ و فوج سے ٹکراؤ آئین شکنی کی کوشش جیسے فیصلوں نے حکومت گرنے کی بھی وجوہ بنی عوام کی بھاری تعداد نے عمران کی حکومت گرنے پر احتجاج کیا جو ان کی مقبولیت کا پتہ دیتی ہے عمران خان آئندہ کے لئے علی محمد خان اسد عمر اور دیگر وفادار ساتھیوں کی ٹیم تشکیل دے کر آئندہ کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔