مسئلہ فلسطین کا دیرپا حل
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کی سربراہی میں جماعت اسلامی لاہور کے زیر اہتمام یکجہتی غزہ مارچ کا انعقاد کیا گیا جس سے اُن کے علاوہ مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔ امیرِ جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ اسرائیل مسلمان بچوں کو قتل کر رہا ہے، حملوں کے دوران بچے ہوا میں اُچھلتے اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں، اسرائیلی وزیر اعظم سُن لیں اُمت مسلمہ ایک ایک بچے کے خون کا بدلہ لے گی۔اُنہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل جہادیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا وہ صرف بمباری سے بچوں خواتین، صحافیوں کو قتل کر سکتا ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو شکست ہوئی تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یہودی لابی نے اِس شکست کو قبول کرنے کے بجائے دوبارہ فلسطینیوں پر بمباری شروع کر دی، مغرب چاہتا ہے کہ مسلم حکمران اسرائیل کو تسلیم کر لیں لیکن ایسا نہیں ہو گا، پاکستان، ایران، ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیاء، سعودی عرب اور قطر کو مل کر لائحہ عمل بنانا ہوگا، غزہ کے بعد لبنان اور اب ایران کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں،اصل ہدف پاکستان ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مجلس وحدت مسلمین نے بھی غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج کیا اور ریلیاں نکالیں۔
یاد رہے کہ جمعرات کو اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں جمعتہ المبارک کو یوم مظلوم و محصورین ِ فلسطین کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا اور اِسی کے تحت ملک بھر میں احتجاج ہوا اور ریلیاں نکالی گئیں۔ قومی فلسطین کانفرنس کے متفقہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ماضی قریب میں غزہ جیسے ظلم کی مثال نہیں ملتی، صہیونی مظالم میں اب تک 55 ہزار فلسطینی شہید جبکہ دو لاکھ سے زائد زخمی ہوئے، غزہ میں شہری نظام، ہسپتال اور سکول سمیت رفاہی ادارے تباہ ہو چکے، یہ محض جنگ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی کھلی نسل کشی ہے۔ اعلامیے کے مطابق اقوامِ متحدہ اورسلامتی کونسل غیر مؤثر ہو چکی ہے،غزہ سے متعلق قراردادوں کو امریکہ غیر مشروط طور پر ویٹو کر رہا ہے،عالمی عدالت انصاف سمیت تمام عالمی ادارے مفلوج اور بے بس ہیں، ایسے میں شرعاً تمام مسلمانوں پر جہاد واجب ہو چکا ہے۔اِس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی نے اسرائیل اور اُس کے حامیوں کے مکمل بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے فتویٰ دیا تھا کہ تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہوچکا ہے، اِن کی افواج اور اسلحہ مسلمانوں کو اِس ظلم وستم سے نجات نہیں دِلا سکتے تو کس کام کے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اُمت ِ مسلمہ قبلہ اوّل کی حفاظت کے لئے لڑنے والے مجاہدین کی کوئی مدد نہیں کرسکی،وہ قراردادوں اور کانفرنسوں تک محدود رہی حالانکہ اُسے جہاد کا اعلان کرنا چاہئے تھا،زبانی جمع خرچ سے مسلمان حکمران اپنے فرض سے پہلو تہی نہیں کرسکتے، اہل ِ فلسطین کی عملی، جانی اور مالی مدد اُمت مسلمہ پر فرض ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جہاد کے بہت سے راستے ہیں، یہ اجتماع حکمرانوں کو پیغام دے رہا ہے کہ اپنی ذمہ داری ادا کریں، اسرائیل اور اُس کے حامیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں لیکن کسی کو جانی اور مالی نقصان نہ پہنچائیں۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ پاکستان کا اسرائیل سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہوگا، پاکستان بننے سے پہلے قائداعظمؒ نے اسرائیل کو ناجائز بچہ قرار دیا تھا اور پاکستان کی ریاست آج بھی اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے مؤقف پر قائم ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی سے قبل مفتی منیب الرحمن نے بھی صراحت کے ساتھ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ میدان جنگ میں شامل ہونے کا فتویٰ جاری کیا تھا جو صرف پاکستان کے مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ عالم ِ اسلام کے لیے تھا۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست پوری دنیا کے مسلمانوں کی جنگ لڑنے کی ذمہ دار ہے، اگر پاکستان فلسطین کی جنگ نہیں لڑتا تو وہ قیامِ پاکستان کے مقصد کی نفی کررہا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ فلسطین کے معاملے میں مسلمان ممالک سمیت پوری دنیا مجبور نظر آتی ہے، اسرائیل اور اُس کے اتحادی ممالک کسی کی بھی بات سننے کو تیار نہیں ہیں، اسرائیل کے اپنے لوگ سراپا احتجاج ہیں، یرغمالیوں کی رہائی کے لئے جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ غزہ میں جاری جنگ سے تنگ آ کر ہفتے کے روز اسرائیلی فضائیہ کے ایک ہزار سے زائد ریزرو فوجیوں نے اپنی حکومت کو ایک احتجاجی خط بھی لکھا جس میں انہوں جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ خط میں فوجیوں نے وزیر دفاع، آرمی چیف اور میڈیکل چیف کو مخاطب کرتے ہوئے موجودہ پالیسیوں پر سوال اٹھایا اور لکھا کہ نیتن یاہو حکومت یہ جنگ ملکی مفاد کے بجائے سیاسی بقاء کے لئے لڑ رہی ہے۔اِس خط کو اسرائیلی انٹیلی جنس یونٹ کے 250 سے زائد سابق اہلکاروں کی بھی حمایت حاصل ہے۔یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ اسرائیلی جنگی پالیسیوں کے خلاف پہلے ہی اُس کے ایک اعلیٰ وزیر استعفیٰ دے چکے ہیں لیکن نیتن یاہو حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی کیونکہ جیسے ہی اِس نے جنگ بندی پر عملے شروع کیا تو انتہائی دائیں بازو کی ایک جماعت کے تمام افراد حکومت سے علیحدہ ہو گئے تھے جس کے باعث نیتن یاہو حکومت ڈگمگانا شروع ہو گئی تھی اور جنگ دوبارہ شروع ہوتے ہی انہوں نے اپنے استعفے واپس لے لئے،بعض ماہرین کے نزدیک بغیر کسی وجہ کے جنگ بندی ختم کرنے کے پیچھے یہی وجہ تھی،اِسی لئے اسے اسرائیلی حکومت کی سیاسی بقاء قرار دیا جا رہا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آزادیئ اظہار کے سب سے بڑے علمبردار ہونے کے دعویدار ملک میں فلسطین کے حق میں آواز اُٹھانے کی پاداش میں لوگوں کو ملک بدر کیا جا رہا ہے، کئی طالب علموں کے ویزے منسوخ کر دئیے گئے ہیں، کولمبیا یونیورسٹی کے گریجوایٹ محمود خلیل کو امریکہ کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے کر ملک سے نکالنے کے حکم پر امیگریشن عدالت کا فیصلہ بھی سامنے آگیا ہے جس کے مطابق حکومت ویزہ منسوخ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ مسلم ممالک کے علاوہ بھی امریکہ اور بعض یورپی ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے، برطانیہ میں سب سے بڑا ملین مارچ ہوا،پوری دنیا کے عوام اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنا فیصلہ دے چکے ہیں لیکن اسرائیلی حملوں میں کمی بجائے مزید شدت آتی جا رہی ہے۔یہ بات درست ہے کہ اب تک فلسطین پر اسرائیلی حملے روکنے کی کوئی بھی ترکیب کارگر ثابت نہیں ہو سکی، عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اور اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی اس کے قدم نہیں روک سکیں لیکن یہ بات سمجھنی بھی لازم ہے کہ یہ مسئلہ انفرادی سطح پر فتوے دینے یا کسی ایک ملک کی کوششوں سے سلجھایا نہیں جا سکتا، بلکہ اِس کے دیرپا اور پائیدار حل کے تلاش کی ذمہ داری اقوامِ متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ سمیت فلسطین کی حمایت کرنے والے تمام ممالک پر برابر عائد ہوتی ہے۔