دولت اور ضمیر کے پلڑے

   دولت اور ضمیر کے پلڑے
   دولت اور ضمیر کے پلڑے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 معروف دانشور فرخ سہیل گوئندی نے چند روز پہلے سوشل میڈیا پر ایک سوال اٹھایا کہ ایک ہی شعبے میں ایک ہی پوسٹ پر کام کرنے والے دو افراد میں ایک چھوٹا سا مکان تک نہیں بنا پاتا اور دوسرا کئی بنگلوں اور فارم ہاؤسوں کا مالک بن جاتا ہے۔اس کے پس ِ پردہ آخر سائنس کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو جگہ جگہ ایسی مثالوں کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں ابھرتا ہے۔اصل میں ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اُس میں حیرت کے دروازے قدم قدم پر کھلتے ہیں۔بات صرف اتنی ہے جب آپ یہ طے کر لیتے ہیں کہ ہر قیمت پر امیر بننا ہے تو پھر اسی قسم کے راستے تلاش کرتے ہیں،جو ہمارے ہاں موجود بھی ہیں،ابھی دو روز پہلے مجھے ایک سرکاری افسر کے ذاتی فارم ہاؤس میں جانے کا اتفاق ہوا،تین ایکڑ پر مشتمل اس فارم ہاؤس کو دیکھ کر میرے ذہن میں پہلا سوال ہی یہ اُبھرا کہ اس شخص نے یہ کیسے بنا لیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ میں اُس کے خاندان کو اچھی طرح جانتا تھا اور بارہ سال پہلے جب اُس نے سی ایس ایس کیا تھا تو اُس وقت اُس کے خاندان کی زندگی میرے سامنے تھی،وہ خود ایک سوزوکی موٹر سائیکل پر پھرتا تھا۔ذہن بَلا کا تھا، محنت بھی بہت کی، اچھے نمبروں میں سی ایس ایس کرنے کے بعد اُسے ڈی ایم جی گروپ مل گیا۔اُس نے بارہ برسوں میں ایسا کیا جادو کیا کہ سب کچھ بدل کے رکھ دیا۔ فارم ہاؤس پر آنے کی دعوت اُس کے والد نے دی تھی،جو وہاں اپنے پوتے کی سالگرہ کر رہے تھے،میرے چونکہ پرانے واقف تھے،اس لئے مجھے بھی بُلا لیا،اب میں اُن سے کیا پوچھتا کہ حضرت جی آپ تو ساری عمر ایک دفتر میں کلرکی کر کے گذارا کرتے رہے وہ پانچ مرلے کا مکان اب بھی لال کرتی میں موجود ہے،جہاں ہم بھی چلے جاتے تھے،یہ کیسا ہن برسا ہے کہ مرلے ایکڑوں میں بدل گئے ہیں اور موٹر سائیکلوں کی جگہ مہنگی گاڑیوں نے لے لی ہے۔ یہ جو سرکار نے تنخواہ رکھی ہوئی ہے، وہ تو بس اتنی ہے کہ زندگی کی دال روٹی چلتی رہے۔یہ محل تو اس میں نہیں بن سکتے،پھر یہ کون سا روزن ہے جہاں سے نقب لگا کر روڑی کو توڑی بنایا جاتا ہے اور کل کے سادہ پوش آج کے اعلیٰ پوش بن جاتے ہیں،مجھے ایسی باتوں سے حیرانی نہیں ہوتی۔ہاں حیرانی اُس وقت ضرور ہوتی ہے جب کسی بااختیار کو سادہ پوش دیکھتا ہوں۔ میرے ذہن میں ایک جج صاحب آ رہے ہیں، کمال کی شخصیت ہیں،نامور افسانہ نگار اور ناول نویس بھی ہیں، انہیں جب بھی دیکھا سکوٹر پر آتے جاتے نظر آئے۔ سادہ سے مکان میں سادہ سی زندگی گزارتے رہے۔ چاہتے تو راتوں رات اپنی زندگی بدل سکتے تھے،کسی ایک کیس کے فیصلے ہی میں حالات بدلنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ایک بار مجھے خود بتایا قتل کے کیسوں میں ملزم کی طرف سے جتنی بڑی آفر ہوتی ہے،اگر آپ سن لیں تو حیران رہ جائیں، لیکن مجھے لہو بیچنا نہیں آتا۔پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب ہمیں یہ خبر ملی کہ انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ میں اُن کے پاس پہنچا اور عرض کیا حضور آپ مکمل سیشن جج بننے والے تھے، پھر یہ فیصلہ کیوں؟ کہنے لگے، جس قدر غلط فیصلوں کے لئے دباؤ ہوتا ہے، میرے اعصاب اُس کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لئے ناانصافی سے بچنے کے لئے یہ راستہ اختیار کیا ہے۔میں اُس کا گھر دیکھ کر حیران رہ گیا۔یہ حیرانی وہ نہیں تھی جو اسی بیورو کریٹس کا فارم ہاؤس دیکھ کر ہوئی تھی،بلکہ یہ حیرانی اِس لئے تھی کہ کیسا جج ہے، جس کے گھر میں آسائش نام کی کوئی شے نہیں۔

یہ فیصلہ ہم آپ کرتے ہیں کہ ہم نے کس سمت کو جانا ہے۔پھولوں والا راستہ بھی ہمارے سامنے ہوتا ہے اور کانٹوں بھری شاہراہ بھی ہمارے پاس سے گزرتی ہے۔ہم مزاجاً چونکہ سہل پسند ہو چکے ہیں اِس لئے کانٹوں کی طرف تو جاتے ہی نہیں۔ہمیں فارم ہاؤسوں،بڑی گاڑیوں، بنگلوں، بنک بیلنسوں اور انواع و اقسام کے اشتباہ انگیز کھانوں میں زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے۔اب اس کے لئے وسائل تو درکار ہوتے ہیں،غریب گھرانوں کے نوجوان جب تعلیم حاصل کر کے مقابلے یا کسی دوسرے بڑے امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اُنہیں وہ کانٹوں بھرا راستہ تو بھول جاتا ہے،جس پر چل کر وہ کامیابی کی منزل پر پہنچے،انہیں صرف وہ پھولوں والا راستہ یاد رہتا ہے جو اُن کے سامنے یہ نظام مخمل کی طرح بچھا دیتا ہے۔پھر وہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے،کیونکہ وہ دیکھنا بھی نہیں چاہتے، اُنہیں پانچ مرلے کا گھر یاد رہتا ہے اور نہ وہ سسکتی بلکتی زندگی۔اس کایا کلپ سے پہلے اُنہیں محلے کے عام گھرانے سے بھی رشتہ نہیں ملتا،لیکن سی ایس ایس کا تمغہ لگنے کے بعد اُن کے اردگرد اعلیٰ گھرانوں کے رشتوں کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ہم یہ سوچتے ہیں یہ عام گھرانے کا نوجوان اس ظالم نظام کو سیدھا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا،مگر اس نظام کی غلام گردشیں اُسے ایسا اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں کہ وہ اس کا کل پرزہ بن کر اُس عذاب کو مزید تیز کر دیتا ہے جو اِس معاشرے پر خونخوار درندے کی طرح مسلط ہے۔اب جب تک یہ شیطانی چکر موجود ہے،کوئی بتائے کہ تبدیلی کہاں سے آ سکتی ہے۔

ہم وہ قوم ہیں، جس نے اپنے کرنسی نوٹوں پر بھی لکھوا کے دیکھ لیا،”رزق حلال عین عبادت ہے“ مگر کسی کو یہ جملہ سمجھ ہی نہیں آیا،پھر یہ جملے بھی معاشرے میں عام ہوئے کہ حلال کمائی میں تو دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہوتی،اوپر کی آمدنی نہ ہو تو بھوکوں مر جائیں۔یہ وہ مرحلہ تھا جب ہم نے کرپشن کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے،مگر اِس کے باوجود ایسے سر پھرے بھی موجود تھے، جنہوں نے کہا اپنی آمدنی سے گزارا کریں گے، بھوکوں مر جائیں گے،لیکن حرام کا پیسہ نہیں کمائیں گے۔ایک زمانہ تھا حیرانی یہ جان  کر ہوتی تھی کہ کوئی شخص بہت رشوت لیتا ہے،اب یہ زمانہ ہے کہ رشوت نہ لینے والے پر حیرانی ہوتی ہے۔یہ جو ایک ہی شعبے کے دو افراد کی زندگی میں اُونچ نیچ کا تفاوت نظر آتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی بڑی راکٹ سائنس نہیں،بلکہ یہ سادہ سی سائنس ہے کہ اُن میں سے ایک نے اپنے ضمیر، ایمان اور اخلاقی اقدار کو سُلا کر دنیا کمانے کا راستہ اختیار کیا،جبکہ دوسرا وہ تھا جس نے کہا زندگی اپنے اندر کی تاریکی بڑھا کر باہر کی دنیا روشن کرنے کا نام نہیں،اب ایک سوال یہ بھی ہے اس سارے عمل میں اِن دونوں کی بابت معاشرے کا رویہ کیا ہوتا ہے۔میں نے کئی بار دیکھا ہے کسی سکول کا بزرگ استاد اپنی سائیکل یا موٹر سائیکل پر کسی محفل میں جاتا ہے تو اسی کی طرف چند ایک لوگ لپکتے ہیں،مگر اسی محفل میں جب کوئی دولت والا اپنی بڑی سی لینڈ کروزر میں آتا ہے تو اُس طرف دیوانہ وار دوڑنے والے درجنوں ہوتے ہیں۔ عزت کا معیار بڑی گاڑی اور بڑے بنگلے کو بنانے والا معاشرہ جب یہ چاہتا ہے کہ ایمانداری کا دور دورہ ہو تو یوں لگتا ہے وہ کسی اور سے نہیں خود اپنے سے بھیانک مذاق کر رہا ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -