ہمارے زیر زمین خزانے

پوری دنیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ”ٹرمپوسیوں“ کی زد میں ہے،صبح ایک اعلان ہو رہا ہے،شام دوسرا،کبھی ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جاتا ہے، کبھی دوسرا،ایک ترمیم کی جاتی ہے کبھی دوسری،عالمی معیشت بے یقینی کا شکار ہے۔ہر جھٹکے کے بعد وائٹ ہاؤس کے مکین اعلان کرتے ہیں کہ حالات قابو میں ہیں، جو کچھ ہو رہا ہے، غیر متوقع نہیں ہے۔ یقین دلایا جاتا ہے جھٹکوں سے نہ گھبرایے، امریکہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت بحال کر رہا ہے،جلد وہ وقت آئے گا کہ ساری دنیا گھٹنے ٹھیک دے گی۔امریکہ ضرورت کی ہر شے خود بنائے گا اور اپنے عالمی حریفوں کو چاروں شانے چت کر دے گا۔چین بھی خم ٹھونک کر میدان میں ہے، اس کا خیال ہے امریکی صدر امریکہ کے ساتھ وہ کچھ کر گذریں گے جو اس کے حریف نہیں کر پا رہے تھے۔عالمی تجارتی نظام ڈانواں ڈول ہے، امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی خسارے کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔ دو سو ارب ڈالر کو دو ٹریلین بنا دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ امریکی معاشی ماہرین بھی تلملا رہے ہیں،کساد بازاری اور افراطِ زر کے بادل منڈلاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں،لیکن صدر ٹرمپ کی دنیا اپنی ہے۔وہ کس وقت کیا کر گذریں گے،اس بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ان کو یہی لگن لگی ہوئی ہے کہ ہر ملک سے تجارت ”برابر“ ہونی چاہئے،جتنی برآمد، اتنی درآمد، بات چیت کے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں،لیکن انہیں بند کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ چینی صدر ان سے براہِ راست بات کر کے بھیک مانگیں گے۔ان کے قریبی حلقے چینی حکام کو قائل کرنے میں لگے ہیں کہ چینی صدرر امریکی ہم منصب کو ٹیلی فون کر یں لیکن چینی صدرایک نہیں سن رہے، وہ صدر ٹرمپ کی ”ٹیرف بازی“ کا مقابلہ کرنے کی تدبیروں میں لگے ہیں۔یہ درست ہے کہ امریکہ کو دنیا کے متعدد ممالک کے ساتھ تجارت میں خسارہ ہو رہا ہے۔برآمدات کے مقابلے میں درآمدت زیادہ ہیں،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی عوام کو سستی اشیاء دستیاب ہو رہی ہیں، متعدد امریکی کمپنیاں بیرون ملک سے اشیاء تیار کر کے اپنے ملک میں ”درآمد“ کر رہی ہیں،پھر یہ بھی ہے کہ عالمی تجارت ڈالر کی مرہون منت ہے۔چین، جاپان اور متعدد دوسرے ممالک کے ذخائر ڈالروں کی صورت ہیں، اور امریکی خزانے کی رونق انہی کے دم سے ہے۔ امریکہ میں جو بیرونی سرمایہ کاری آ رہی ہے،وہ اس کی معیشت کو بڑھاوا دے رہی ہے،عالمی معیشت نے حریفوں کو بھی ایک دوسرے کی ضرورت بنا دیا ہے۔ چین کی معیشت کو امریکہ نے آگے بڑھایا تھا تو چین امریکی معیشت کا سہارا بنا ہوا ہے۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے شوق میں سب نیچے ہو سکتے ہیں،دنیا کساد بازاری اور پسماندگی کے نرغے میں آ سکتی ہے۔ ٹرمپ اور ان کے حریف ایک دوسرے کے ساتھ بالآخر کیا کریں گے،اور ان کے اپنے ساتھ کیا ہو گا،اِس بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں ہے، ٹرمپ کے یو ٹرن معاملات کو سنبھال بھی سکتے ہیں۔ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا بزنس پارٹنر ہے کہ پانچ سے چھ ارب ڈالر کے درمیان برآمدات یہاں سے ہوتی ہیں۔ امریکی درآمدات کی مقدار کم ہے،لیکن پاکستان خم ٹھونک کر کھڑا نہیں ہوا،اس نے بات چیت کا راستہ اپنایا ہے،ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد امریکہ جانے کے لیے پَر تول رہا ہے تاکہ ”ٹیرف وار“ میں اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے،امریکہ سے درآمدات میں اضافہ کرنے کی تدبیریں سوچی جا رہی ہیں۔
پاکستانی ریاست ماشاء اللہ نفع نقصان سے بے نیاز بگٹٹ دوڑتی رہی ہے۔ برسوں سے برآمدات درآمدات سے کم ہیں۔لائیو سٹاک پر توجہ ہوئی نہ ڈیری کو فروغ دیا جا سکا،نہ صنعتوں کو جدید بنایا گیا۔ کوئی ایک پراڈکٹ بھی تو ایسی تیار نہیں کی جا سکی جسے پوری دنیا میں فخریہ پیش کیاجا سکے۔چھوٹے چھوٹے ممالک اربوں ڈالر کی برآمدات کر رہے ہیں۔ایک زمانے میں فن لینڈ جیسا ملک اپنا موبائل (نوکیا) برآمد کر کے پچاس ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ کما رہا تھا۔پاکستانی حکمرانوں نے غیر ملکی امداد پر تکیہ کرنے کی عادت اپنائی اور اپنے جغرافیے کو حصولِ زر کے لیے استعمال کیا۔اگر یہ عاقبت نااندیش خارجی ماحول سے فائدہ اُٹھا کر ایسے منصوبوں کی طرف توجہ دیتے جو برآمدات کے لیے مصنوعات تیار کر سکتے تو آج پاکستان خدا معلوم کن بلندیوں پر ہوتا۔کوتاہ اندیشوں نے پاکستان کو جنگوں میں دھکیلا۔ ناخن ِ تدبیر سے گرہیں کھولی جاتیں تو 1965ء کی جنگ ہم پر مسلط ہوتی، نہ 1971ء کی لیکن اندھا دھند خواہشات نے ہمیں اندھے کنوئیں میں گرا دیا۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن کر ”نافذ“ ہوئے تو ہماری صنعتوں پر ڈاکہ ڈالا۔ صنعتکاروں اور ہنر مند سرمایہ کاروں کی برسوں کی محنت اور کمائی لوٹ کر اپنے کارندوں پر نچھاور کر دی، پاکستان آج تک اس صدمے سے عہدہ برآ نہیں ہو سکا۔اگر انہیں اقتدار سے نکال باہر کرنے والے جنرل ضیاء ضبط شدہ کارخانوں کی چابیاں ان کے مالکوں کی خدمت میں بصد معذرت پیش کر دیتے تو بھی نقصان کا کچھ نہ کچھ مداوا ہو سکتا تھا لیکن بپھرے ہوئے مزدوروں کا سامنا کرنے کی ہمت ان میں نہیں تھی، اس طرح سیاسی اغراض و خواہشات کو صدمہ پہنچ سکتا تھا، نتیجتاً ہم ابھی تک سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔پاکستان نہ کوئی ٹریکٹر تیار کر سکا، نہ ٹرک،نہ کاریں، نہ بسیں، نہ موبائل۔
پاکستانی حکومتوں نے آنکھیں بند کر کے فری ٹریڈ کے ایسے معاہدے کیے کہ اپنی ہی صنعتوں کا گلا گھونٹ ڈالا۔ ٹیرف سے آزاد غیر ملکی مصنوعات سے بازاروں کو بھر دیا،اور پاکستانی صنعتکار دہائی دیتے رہ گئے۔دوستی کے نام پر آزاد تجارت کا جو شوق چرایا، اس کا نتیجہ سامنے ہے، اربوں ڈالر کی امپورٹ کے مقابلے میں برآمدات اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں۔ بھارت سے تجارت کرنے کو نظریہ پاکستان سے بے وفائی قرار دینے والے بھی دھما چوکڑی مچاتے رہے۔ چین امریکہ سے تجارت بڑھاتا رہا،تائیوان سے اس کے رواط برقرار رہے،روس اور امریکہ کے درمیان بھی تجارت بند نہیں ہوئی لیکن نعرہ بازوں نے تجارت کو سیاست سے آلودہ کر دیا۔ دروازوں کی چٹخنی چڑھا دی۔
اب ہم انگڑائی لے کر اٹھے ہیں، اور معدنیات کی طرف دنیا کو متوجہ کر رہے ہیں۔ایک بین الاقوامی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی ہے جس میں عالمی طاقتوں سمیت متعدد ممالک کے حکام اور ماہرین شریک ہوئے۔ پاکستان کے زیر زمین خزانوں کی بازیابی کے لیے تجاویز پیش کی گئیں۔ایم او یوز پر دستخط ہوئے۔ بتایا گیا بلوچستان کی سرزمین سونے اور تانبے سے مالا مال ہے، دوسرے صوبوں میں بھی بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ نوید سنائی گئی کہ پاکستان اپنے معدنی وسائل کی بدولت اپنے قرضے بآسانی اتار دے گا۔بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بدامنی اسلام آباد کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ لاہور پہنچ کر سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملے تو ان کا مطالبہ یہی تھا کہ پاکستان کے سینئر ترین سیاستدان آگے بڑھیں،بلوچستان آئیں اور دِلوں پر ہاتھ رکھیں۔بہت سے لوگ برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ عمرن خان بھی حالات کو سنبھالنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں،ان کے ساتھ بھی معاملات کو سدھارنے اور سنوارنے کی فیصلہ کن کوشش کرنی چاہیے کہ پاکستان کے مفاد کو ہر ذاتی، گروہی اور اداراتی مفاد سے اوپر رکھا جائے گا، تو سب فائدے میں رہیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اورروزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)