کلام اقبال (شرح بال جبریل)غزل نمبر: 7
دگر گوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دل ہر ذرہ میں غوغائے رستاخیز ہے ساقی
متاعِ دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی؟
وہی دیرینہ بیماری! وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی
حرم کے دل میں سوز آرزو پیدا نہیں ہوتا
کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
فقیر راہ کو بخشے گئے اسرار سلطانی
بہا میری نوا کی دولت پرویز ہے ساقی
بال جبریل 1935ء میں شائع ہوئی تھی یعنی علامہ اقبال کی وفات سے تین سال قبل۔ یہ وہ دور تھا جب واقعات عالم میں تیزی کے ساتھ تبدیلی رونما ہو رہی تھی۔ برطانوی اقتدارتنزل کا شکار تھا اور دھیرے دھیرے غروب کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دوسری عالمی جنگ نے دنیا کو عالمی سطح پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
پورے خطہ ارضی پر حالات بڑی تیزی سے بدل رہے تھے۔علامہ اقبال حساس دل کے مالک تھے، حالات کی تبدیلی پر تو ان کا یارا نہ تھا تاہم ان ادلتے بدلتے حالات پر ان کی فکری گرفت خوب مضبوط اور گہری تھی۔ علامہ گہری نظر رکھتے تھے اور ان بدلتے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔
مذکورہ نظم نما غزل یا غزل نما نظم کے الفاظ میں بھی یہ کیفیت نمایاں ہے۔ اسی لیے پروفیسر یوسف سلیم چشتی جیسے شارح کلام اقبال نے اپنی تشریحات میں انہی باتوں کو مدِ نظر رکھاہے۔
وہ تشریح کے آغاز میں یہ لکھتے ہیں:’’مطلب یہ ہے کہ اے خدا! یہ بڑا نازک دور ہے جس میں سے میں گزر رہاہوں، حالات روزگار بڑی تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں اور ہر شخص کے دل میں قیامت کا سا ہنگامہ بپا ہو رہا ہے۔‘‘(شرح بال جبریل، یوسف سلیم چشتی)
ظاہری الفاظ کے تناظر میں یہ مطلب اخذ کرنا بڑا بدیہی امر ہے۔ لیکن ہماری دانست میں اقبال اصلاً قرآن ہی سے روشنی حاصل کرتے ہیں جس کا تذکرہ ہم اپنی تحریروں میں واضح طور پر کرتے آئے ہیں۔ قرآن مجید میں ان اشعار کی اصل تلاش کیجئے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ‘‘(الانبیاء، 1/21)
’’لوگوں کے حساب کی گھڑی قریب آ گئی ہے اور وہ ہیں کہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ‘‘(القمر، 1/54)
’’نزدیک آ لگی قیامت اور پھٹ گیا چاند۔‘‘
قیامت کی گھڑی نزدیک آ لگی ہے، چاند بھی پھٹ گیا اور وہ ہیں کہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
سورۃ الاعراف میں اسی طرح کا مضمون اقرب الی الاشعار ہے۔ فرمایا:
’’یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا‘‘(الاعراف، 54/7)
’’اوڑھاتا ہے رات پر دن کو وہ اس کے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا۔‘‘
سورج، چاند ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہوئے تیزی سے چلے آتے ہیں۔
الفاظ کے تفاوت سے معانی کے اعتبار سے سب تراجم مشترک المعانی ہیں۔مراد یہ کہ نظام شمسی کی تیز رفتاری جو قیامت کی گھڑی کو قریب سے قریب تر کر رہی ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ رسول اکرمﷺکی تشریف آوری قرب قیامت کی خبر دے رہی ہے۔
نیز یہ بات ختم نبوت کی دلیل بھی ہے۔کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ جناب رسالت مآبﷺنے اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے بتلایا کہ میرے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا جبکہ میرے بعد اب بس قیامت ہی آئے گی۔
قرآن مجید کی مذکورہ آیات اور تراجم کی روشنی میں علامہ اقبال کے ان اشعار کا جائزہ لیجئے ہمارے دعوے کی مماثلت عیاں ہو جائے گی۔قیامت کا قرب اور زمین پر آفاقی تبدیلیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ پہلے شعرمیں فرماتے ہیں:
دگر گوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دل ہر ذرہ میں غوغائے رستاخیز ہے ساقی
ساقی سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اے اللہ! تاروں کی گردش بہت تیز ہے اور کائنات کاسفر بڑی جلدی طے ہو رہا ہے جو وقوع قیامت کو جلدی جلدی قریب سے قریب تر کر رہا ہے لیکن انسان اپنی عاقبت سے نااندیش ہے۔
قرب قیامت کے واقعات جلدازجلد رونما ہو رہے ہیں اور انسان غفلت کی زندگی گزار رہا ہے۔ ہر شخص کے دل میں قیامت کا سا ہنگامہ بپاہو رہا ہے۔ ہر شخص اپنی دنیاوی مصروفیات میں اس قدر منہمک ہے کہ اسے دنیا کے سوا کسی دوسری چیز کی قطعاً پرواہ نہیں۔
دوسرے شعر میں فرمایا:
متاعِ دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی؟
اس شعر میں اللہ والوں سے مراد پوری دنیا کے مسلمان ہیں، صرف نیک اور پارسا مسلمان ہی نہیں بلکہمن حیث القوم تمام مسلمان مراد ہیں۔مطلب یہ کہ مسلمانوں کے پاس جو ایمان و یقین کی دولت تھی جو اصل میں ان کی متاع عزیز تھی جس پر سارے مسلمان دل کی گہرائی کے ساتھ یقین و ایمان کی دولت سے مالا مال تھے۔
مسلمان اب دینی احکام پر عمل پیرا بھی نہیں رہے اور نہ ہی عقل و دانش، فہم و فراست کی اعلیٰ اقدار ان کے پاس ہیں۔ مغرب کی نقالی نے ان کی اعلیٰ صفات کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔
مغربی علوم نے تشکیک کے دبیز پردے ڈال دئیے ہیں اور مسلمانوں کے بڑے لوگ بھی یورپی اقوام سے مرعوب ہو چکے ہیں۔ مغرب کا کفریہ نظام اپنی ظاہری چمک دمک سے اس طرح ذہنوں پر چھا چکا ہے کہ اس نے مسلمانوں کے دلوں سے اعتقاد و یقین کی اعلیٰ اقدار کی دولت ہی ختم کر کے رکھ دی ہے۔
تیسرے شعر میں فرمایا:
وہی دیرینہ بیماری! وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی
آج سے ساڑھے چودہ صدیاں قبل یعنی اسلام کی آمد سے قبل جس بیماری نے انسانوں کے دلوں کو زنگ آلود کر دیا تھا مراد یہ کہ جس طرح دلوں پر غیر یقینی کی کیفیت پیدا ہو چکی تھی اصل توحید کا نظریہ بالکل ماند پڑ چکا تھا، ایمان بالآخرۃ سے لوگ بے بہرہ ہو چکے تھے۔
مالی منفعت،لوٹ کھسوٹ، دنیا پر اقتدار کی ہوس اور دوسری اقوام کو زیر کرنے کا جذبہ کفر کی اجتماعی سوچ کا محور تھا۔ تقریباً وہی صورت حال آج پھر عود کر آئی۔ مسلمانوں کی حیثیت بھی تقریباً یہی ہے۔
عقیدہ آخرت زبان پر تو ہے لیکن دل عقیدہ آخرت سے تقریباً بے بہرہ ہیں۔ اگر ایمان بالآخرۃ ذہنوں میں ہو اور اللہ کے سامنے اعمال کی جواب دہی کا تصور ذہنوں میں غالب ہو تو ساری برائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ اس لیے علامہ فرماتے ہیں ذہنوں پر وہی بیماری شرک، بدعملی اور دیگر تاریکیوں نے دلوں کو سیاہ کر رکھا ہے۔
اس ساری بدعملیوں کا علاج اسی شراباً طھوراًکے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انبیاء کی لائی ہوئی تعلیمات پر عمل اور تبلیغ ہی سے معاشرہ میں بہتری آ سکتی ہے خصوصاً وہ شریعت جو نبی آخر الزماں جناب رسالت مآب حضرت محمدﷺدنیا میں لے کر تشریف لائے تھے۔
علامہ اسی کو آب نشاط یعنی بیماری کی دوا سے تشبیہ دے رہے ہیں یعنی وہی آب حیات جو دلوں میں فرحت و انبساط پیدا کرتا ہے۔آج بھی اسی کے ذریعہ دنیا کے تمام روگ اور بیماریاں دور ہو سکتی ہیں۔ ان کے سوا کوئی اور ذریعہ اصلاح کا نہیں ہے۔(جاری ہے)
چوتھے شعر میں علامہ اسی شعر کو دوسرے پیرائے میں بیان کرتے ہیں:
حرم کے دل میں سوز آرزو پیدا نہیں ہوتا
کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی
حرم سے مراد یہاں پر مقام حرم نہیں نہ مکین حرم مراد ہیں بلکہ اس جگہ حرم سے مراد کل دنیا میں بسنے والے مسلمان ہیں کہ وہ حرم کے وارث ہیں۔ حرم ہی ان کا نگہبان ہے اور وہ خود حرم کے امین ہیں، حرم کے رکھوالے ہیں۔
علامہ فرماتے ہیں کہ اے اللہ! پوری دنیاکے مسلمانوں میں اسلام کی وہ تڑپ، وہ آرزو اور اسلامی شعائر کی وہ پابندی اب موجود نہیں ہے جس کا تقاضا اسلام مسلمانوں سے کرتا ہے حالانکہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ تیری کبریائی کی گواہی دے رہا ہے اور تیری ذات ہر ہر چیز میں جلوہ گر ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ان شواہد کی روشنی میں ہر مسلمان کے اندر اسلامی شعائر کی پابندی کے جذبات پیدا ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اے اللہ! کائنات کے ذرہ ذرہ میں جلوہ ریز ہونے کے باوجود تو نے خود کو پردے میں رکھا ہوا ہے۔
اسی وجہ سے تیرا وہ خوف، تیرا وہ ڈر مسلمانوں کے دلوں میں موجود نہیں ہے۔اس شعر میں قرآن مجید کی اس آیت کی نشاندہی موجود ہے:
’’ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّ�آ اَنْ یَّاْتِیَھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلآءِکَۃُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ‘‘(البقرۃ، 210/2)
’’کیا لوگ اب اس بات کے انتظار میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود بادلوں کے سائے میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہو کر آ جائے جسے یہ لوگ اپنی کھلی آنکھوں دیکھ سکیں۔ ‘‘
فرمایا: کہ یہ تو قیامت کے وقت ہی ممکن ہو گا۔ قیامت سے پہلے ایسا ممکن ہی نہیں۔
پانچویں شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی
علامہ فرماتے ہیں کہ اسلام کا مرکز عرب ہے۔ رسول اللہﷺمکہ میں تشریف لائے پھر مدینہ منورہ ہجرت کر گئے۔ اسلام کی روشنی صرف خطہ عرب ہی میں نہیں پھیلی بلکہ اسلام کی روشنی دنیا کے دور دراز کے علاقوں کو بھی روشن کر گئی اور پورے عجم کو بھی منور کر گئی یہی وجہ ہے عرب کے علاوہ عجم کے علاقوں میں بھی بڑے عظیم مصلح پیدا ہوئے۔
یہاں خاص طور پر علامہ اپنے فکری مرشد مولانا رومیؒ کا تذکرہ بطور خاص کرتے ہیں کیونکہ آپ مولانا رومؒ کے افکار اور ان کے فلسفیانہ انداز ابلاغ سے بہت متاثر ہیں۔ فرماتے ہیں اسلامی تعلیمات اور ان تعلیمات کی روشنی اتنی عظیم ہے کہ خطہ عرب کے علاوہ دور دراز کے عجمی علاقوں میں بھی بڑے بڑے عظیم فلاسفر، مفکر، دانش ور پیدا ہوئے جن کے افکار سے دنیا میں اجالا ہوا۔
لیکن چونکہ صدیاں بیت گئی ہیں۔ اب ایسے مفکر اور شریعت کی تڑپ رکھنے والے مولانا روم جیسے لوگ پیدا نہیں ہوتے حالانکہ اے اللہ! تیری ذات بھی وہی ہے، دین اسلام بھی وہی ہے، حرم کعبہ بھی وہی ہے، وہی بیت اللہ بھی ہے۔
مسجد نبوی بھی وہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سب کچھ وہی ہونے کے باوجود بدلے ہیں تو مسلمان بدل چکے ہیں۔ ان میں اسلام کی وہ پرانی سی طلب اور تڑپ ماند پڑ چکی ہے۔ اب انحطاط کا زمانہ ہے۔ اس شعر میں اشارہ رسول اکرمﷺکے فرمان کی جانب ہے جس میں آپﷺنے فرمایا تھا:
’’خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم‘‘
’’سب سے اچھا دور میرا دور ہے، پھر اس کے بعد پھر اس کے بعد۔‘‘
گویا رسول اکرمﷺکے نورانی وجود کے سبب دنیا میں ہدایت کی روشنی آقامحمدﷺکے دور میں پھیلی۔ پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ روشنی مدھم ہوتی رہی۔ اسی لیے سب سے اچھا زمانہ رسول اللہﷺکا زمانہ ہے پھر صحابہؓ کا، ان کے بعد تابعین کا پھر تبع تابعین کا دور ہے لیکن آج کا دور انحطاط کا دور ہے۔ اب عرب و عجم میں کوئی رومی، کوئی صدیق، فاروق و عمر پیدا نہیں ہونا۔
چھٹے شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اس مذکورہ تمام دور انحطاط کے باوجود علامہ مایوس نہیں ہیں اور وہ مسلمانوں کو بیدار ہونے اور بیدار رہنے کا پیام دیتے ہیں۔ آپ دراصل قرآنی آیات ہی سے تحریک پکڑتے ہیں:
’’وَھُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْم بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ‘‘(الشوریٰ، 28/42)
’’قَالُوْا بَشَّرْنٰکَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْقَانِطِیْنَ‘‘(الحجر، 55/15)
اور مسلمانوں کی ڈھارس بندھاتے ہیں۔
اقبال اس انحطاط کے باوجود اس بنجر زمین سے ناامید ہرگز نہیں۔اس مٹی کو ذرا نمی کی ضرورت ہے۔اگر یہ نمی حاصل ہو جائے اور مسلمان قوم کو فکری حوصلہ ملے تو ان شاء اللہ اسی مٹی سے لعل و گہر پیدا ہو سکتے ہیں اور مسلمان قوم اپنی عظمت رفتہ حاصل کر سکتی ہے۔
ساتویں شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
فقیر راہ کو بخشے گئے اسرار سلطانی
بہا میری نوا کی دولت پرویز ہے ساقی
یہ ساتویں نظم کا آخری شعر ہے جس میں علامہ اللہ کے حضور بانداز شکرانہ کہتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کا بہت شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے علم عطا فرمایا اور مجھے مخفی علم کے پھولوں سے سرفراز کیا۔ ایسے علوم جن سے میرا سینہ کھل گیا۔
جبکہ میرے دور کے ہزاروں، لاکھوں لوگ ان علوم سے بے بہرہ ہیں۔ میں اپنے اشعار و الفاظ کے ذریعے بہت سے اسرار و رموز سے لوگوں کو آگاہ کر رہا ہوں۔
یہ خیالات کی عظیم دولت جو مجھے عطا ہوئی اور ان کے ابلاغ کی جو توفیق مجھے اللہ کی طرف سے ملی ہے سلطنت پردیز سے کہیں زیادہ ہے بلکہ کل دنیا کی دولت ایک طرف اور خیالات اور فکر سلیم کی یہ نعمت پوری دنیا سے کہیں بہتر ہے۔ میں اس عظیم نعمت پر اللہ کا شکر گزار ہوں۔