ہماری سوچ کا محور:پاکستا ن!

ہماری سوچ کا محور:پاکستا ن!
ہماری سوچ کا محور:پاکستا ن!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ےہ خےال اچانک مےر ے ذہن مےں ہو ا کے جھو نکے کی مانند نمو دار ہوااور پھر اسی طرح غائب ہو گےا، مگر اےک چےز مےر ے ذہن کی دےواروں سے ٹکرا کر واپس آتی اور پھر ٹکر اتی۔ ےہ سلسلہ اسی طرح کچھ دےر چلتا رہا ۔ جتنا اس خےال کو بھولنے کی کوشش کرتا، اس مےں اتنی ہی شد ت آ جاتی۔ اسی حالت مےں خود سے با ت کی کوشش کی، مگر ندارد!پھر ذہن مےں خےال آےا کےو ں نہ اسی کو قلمبند کر لےا جائے، مگر اسی لمحے مزےد خےا ل آےا کہ اس کو قلمبند کر نے سے کےا حا صل ہو گا ۔ زما نے نے اس کو قےاس آرائی سمجھ کر تنقےد کرنی ہے ، جبکہ اہل علم ےا عام الفاظ مےں خود کو بڑ ے لوگ سمجھنے والو ں کے پا س اس کو پڑ ھنے کا وقت کہا ں؟ اسی کشمکش مےں قلم جےت گےا ، کا غذ پر قلم رکھا اور تحرےر بنتی چلی گئی :”کہ پا کستا ن آخر ہے کےا “؟ہر نو جو ان کی اےک رائے ہے ، مگر مےر ے لئے اےک معمہ ہے جو کہ حل ہو نے کا نا م نہےں لےتا ۔ عقل بھی اےک مخصو س مقام تک آکر جو اب دے جاتی ہے کہ مےرے بس کا روگ نہےں ہے ۔ حضور ! اس معمے مےں اگر اےک گرہ کو سلجھا ﺅ تو دوسری سامنے آجا تی ہے ۔ اگر اس کے تا رےخی پس منظر مےں جا ئےں توکئی معجزات آپ کا احا طہ کر لےں گے ۔ کس طر ح فرنگےو ں نے اس خطے کو اپنے قبضہ مےں رکھنے کی کو شش کی، مگر اپنی بے انتہا طاقت اور اعلیٰ سےاسی مہارت کے با وجو د اس خطے کے لوگو ں کے جذبہ اےما نی اور بلند حوصلے کے آگے گھنٹے ٹےکنے پر مجبو ر ہو گےا ۔ ہند و بنئے نے بھی خو ب کو شش کی، مگر اس کی شا طر چالو ں کا بھی وہ نتےجہ بر آمد نہ ہوا اور آخر کا راس روئے زمےن پر اےک مملکت خدا دار معرض وجود مےں آئی، مگر اس کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ لاکھو ں جا نو ں کی قر با نی ، بہنو ں، بےٹےوں کی عصمت رےزی ، بےو او¿ں کے سہاگ، ےتےمو ں کے با پ اور ماو¿ں کے بےٹو ں کی لا شےں !تارےخ انسا نی کی سب سے بڑی ہجرت اور بے انتہا قربا نےا ں ....اس قےمت پر بھی ےہا ں پر بسنے والوں کے لئے ےہ سودا مہنگا نہےں تھا ، مگر ابھی طفل مملکت کا امتحا ن شر و ع ہو اتھا ۔ چالاک ہندو بنےاء تو ابھی بھی اس طاق مےں تھا۔کہ ان بھوکے ننگے لوگو ں کے پاس ہے کےا، اےک سا ل ےا چند سال بعد روتے کر لاتے واپس ہند وستا ن میں شامل ہو جائیں گے ، مگر عےا ر دشمن کو اس قوم کے جذ بہ اےما نی کا قطعاً اندا زہ نہ تھا ، جو اس اجڑی قوم کی کل دولت تھی ۔ پا کستا ن کا اس طرح وجو د مےں آنا اےک معجزے سے کم نہیں تھا۔ اس کو پہلا معجزہ ہی ما ن لےں۔ اس کی تارےخ مےں جا ئےں تو بہت دُور تک با ت محمد بن قا سم تک جا ئے گی ۔ آزادی کے بعد دن گز رے ، مہےنے، سال گزرتے گز رتے اےک دھا ئی ہوگئی ۔ 1947ءکی بے سروپا نو زائےد ہ مملکت اور 1962ءکی رےاست اس عر صہ حےات مےں کافی معجز ات ہو تے رہے، پھر اس (پاکستا ن ) کا شمار بہترےن ملکو ں مےںہو نے لگا ۔ صنعت وحرفت، ترقی و تعلےم، کھےل کے مےد انو ںاور بہترےن مصنوعات دنےا بھر مےں مشہور ہو تی چلی گئےں ۔ بھا رت سے ےہ بر داشت نہ ہوا اور 1965ءکی اےک شب اس قوم پر شب خون مارنے کی ٹھا نی اور بد مست ہاتھی کی ما نند وہ پا کستا ن کو چےونٹی سمجھنے کی غلطی کر بےٹھا ! پھر معجز ات کی اےک لمبی داستا ن شروع ہوگئی ، اخباروں کے کالم ان معجز ا ت بھری خبرو ں سے بھر گئے ۔ دشمن بھی معترف ہوا۔ لوگ ان کو سنتے، پڑ ھتے اور اس مےں کھو جا تے ۔
اےک محا ذکے بھارتی قےد ی کا بےا ن تھا ....”سفےد پےر اہن والی پاکستا نی فوج بھا رےتو ں کو تہس نہےں کر رہی تھی اور اُن کی تلو اروں سے شعلے نکل رہے تھے ۔ دوسرے محا ذ کے بھارتی قےدی کا بےا ن تھا کہ سرخ ٹو پےو ں اور چھو ٹے قد والے پاکستا نی فوجےو ں نے بھارتی سےنا کا نا طقہ بند کر رکھا تھا ۔ بھارتی تو پچی نے کہا کہ گو لے پھینکنا بےکا ر تھا ۔ اےک سفید رےش بوڑھا مےر ے گولے کےچ کرکے پرے پھےنک دےتا تھا“ ان تما م باتو ںکو عقل تسلےم کرنے سے انکار کر دےتی ہے، مگر اےک با ت واضح ہے کہ اُس وقت بھارت اےک بڑی جنگی طاقت تھی، جبکہ پا کستا ن اس کے مقابلے مےں بہت کم طاقت اور وسا ئل رکھتا تھا،ایسی حالت مےں جنگ جےتنا اللہ کی غےبی مددبھی ہو سکتی تھی، واللہ اعلم.... 1971ءمےں اس ملک کو دولخت کےا گےا اور جن لوگو ں کا اس مےں کر دار تھا، وہ سب عبر ت کا نشانہ بنے۔ مَےں کسی کو الزام نہےں دے رہا، مگر تارےخ کبھی جھو ٹ نہےں بولتی اور سچ کو چھپا ےا نہےں جا سکتا ۔ آزادی سے اب تک کے واقعات کا جا ئزہ لےا جائے جو پا کستان کے وجو د کے حوالے سے ہو ں تو حےر انی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہےں آتا ۔ اس خطے کے ساتھ کتنی نا انصافےاں ہوئےں، کتنے حکمران آئے اور کرپشن کی نئی نئی داستانےں رقم کر تے رہے کہ لکھار ی لکھتے رہے اور عوام کے رونگٹے کھڑے ہوتے رہے، مگر مےر اسبز ہلا لی پر چم ہمےشہ سر بلند رہا اور تا قےامت رہے گا ۔ ملک کو اندرونی اور بےر ونی خطر ات کا سامنا رہا ، مگر ےہ تو ہمےشہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے ۔ اس پر خصوصی نظر ہے اور اس خصو صی نظر کو غےبی مد د سے تشبےہہ دی جا سکتی ہے ، مگر آج کے نوجوان کو تو صرف وہ چےزہی نظر آتی ہے، جو وجو د رکھتی ہو، جس کو دنےا وی آنکھو ں سے دےکھا جا سکے، کےو نکہ آج ہم نے ہر چےز کو سائنس کے زاوئےے سے پرکھنا شر وع کر دےا ہے ۔ سائنس ےا جدےد علوم سےکھنا اچھی بات ہے، مگر قدرت کی اےک مسلم حےثےت ہے اور اس مٹی کے خمےر سے ےہاں تک پہنچنے کے سفر کو پش پشت ڈال دےنا کہاں کی وفاداری ہے ....؟ مَیں ےہ نہےں کہتا کہ ہم کو ہر وقت ےہ سوچنا چاہئے کہ اس وطن کا کےا ہوگااور شائد ےہ سوچنا مےر اکا م بھی نہےں ہے، کےونکہ مےر ے پےد ا ہونے سے پہلے بھی یہ قائم دائم تھا اور مےری آنے والی نسلو ں کے وجود پربھی ہمےشہ قائم رہے گا۔ بس مجھے ےہ سوچنا ہے کہ کےا مَےں کوئی اےسا کام تو نہےں کرنے جا رہا جو مےر ے ملک کے مفاد کے خلاف ہو۔ بس مےر اتو اتنا کام ہے کہ اپنے ملک کے مفا د کے بارے میں سوچوں، بس اتنا سوچ لےا تو اس ملک کو ناقابل تسخےر بننے سے کوئی نہےں رُوک سکتا ۔صرف مجھے ہی نہےں، اس مےں بسنے والے ہر شہری بالخصو ص ہر نوجوان کو سوچنا ہوگا اور ہمارے ملک کے مسائل حل ہوتے ہوئے نظر آنے لگےں گے ۔ےہ فےصلہ آپ کو کرناہے کہ ”پاکستان !اےک مملکت خد ادادےا افسانہ“ !  ٭

مزید :

کالم -