ہنگامہ پرور جنوری، ہنگامہ پرور جمہوریت

ہنگامہ پرور جنوری، ہنگامہ پرور جمہوریت
ہنگامہ پرور جنوری، ہنگامہ پرور جمہوریت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

2018ء کے پہلے دن ایسے گذرے کہ جیسے یہ سال ہنگامہ پرور سال ہو، جنوری نے تو ثابت کردیا ہے کہ وہ ہنگامہ پرور مہینہ ہے، بلوچستان میں وزیراعلیٰ گھر چلے گئے، قصور میں زینب کیس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا، طاہر القادری نے جنوری ہی میں طبل جنگ بجانے کا اعلان کردیا، گویا سب کچھ ایک ایسے مستقبل کا پتہ دے رہا ہے، جس پر کوئی بھی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا۔

اب تو سب یہ پوچھ رہے ہیں کہ ملک کیسے چل رہا ہے اور کون چلا رہا ہے، جہاں خادم اعلیٰ کو زینب کے ورثاء سے تعزیت کے لئے رات کے اندھیرے میں اس کے گھر جانا پڑے کیونکہ دن کے وقت مشتعل لوگوں کی طرف سے رد عمل کا کھٹکا ہو، وہاں یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر صوبے کا حاکم کون ہے؟ اگر حاکم ہی خوفزدہ ہوگیا ہے تو باقیوں کا کیا بنے گا۔

میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ حکومتوں کا چاہے پہلا سال ہو یا آخری، ہنگاموں کی صورت ایک سی رہتی ہے، کوئی ایسی گنجائش ہی پیدا نہیں ہوتی جس میں عام آدمی کی بات بھی کی جائے، اس کے بارے میں بھی سوچا جائے، یہ کیسی عجیب و غریب جمہوریت ہے جس میں جمہور کے نمائندے اس سے خوفزدہ ہوکر گھروں میں چھپ جاتے ہیں، قصور میں ارکانِ اسمبلی کے گھروں پر حملے ہوئے ہیں تو علم ہوا ہے کہ وہاں ارکانِ اسمبلی کے گھر بھی ہیں وگرنہ تو یہی لگتا ہے کہ جیسے وہ کسی اور دیس بستے ہیں کیونکہ وہ اس سارے ہنگامے میں کہیں نظر نہیں آئے حتیٰ کہ انہوں نے معصوم زینب کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کی، سوال یہ ہے کہ انہوں نے از خود یہ کیسے سمجھ لیا کہ لوگ ان کے خلاف رد عمل ظاہر کریں گے۔

آخر کیا خوف تھا جس کی وجہ سے پندرہ کے قریب ارکانِ اسمبلی گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے، کیا ان کے دل میں یہ چور تھا کہ وہ چونکہ جرائم پیشہ لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں، ان کے ذریعے لوگوں پر ظلم ڈھاتے ہیں، اس لئے اگر عوام کے درمیان گئے تو وہ ان پر غصہ نکالیں گے ممکن ہے انہیں زد و کوب بھی کریں، اس لئے گھروں میں چھپ کر بیٹھنا ہی مناسب ہے، ایک لمحے کے لئے غور کیجئے کہ اگر قصور کے عوامی نمائندے فعال ہوتے، عوام کے ساتھ کھڑے رہتے تو کیا لوگوں کو اپنے رد عمل کو ٹھنڈا کرنے کے لئے وہ کچھ کرنا پڑتا جو انہوں نے کیا، سنا ہے ایک ایم این اے کا گھر زینب کے گھر کے ساتھ والی گلی میں ہے، حیرت ہے کہ اس نے چار دن تک لڑکی کی تلاش میں کوئی مدد نہ کی، نہ ہی پولیس افسران کو فون کیا۔


نئے سال کی یہ ہنگامہ پروری بہت سے سبق لئے ہوئے ہے، بلوچستان میں حکومتی جماعت کے وزیراعلیٰ کا از خود استعفا دے کر اقتدار چھوڑ دینا اس سال کی بدلی ہوئی فضا کو ظاہر کرتا ہے، کیا یہ انوکھا واقعہ نہیں کہ وزیراعظم خود جا کر بھی ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک کو ختم نہ کراسکے۔

وگرنہ تو وفاق کی مداخلت سے ہر بات ممکن ہوتی رہی ہے۔ پھر نئے وزیراعلیٰ کے لئے ایک ایسے نوجوان پر اعتماد جس کی سیاسی ساکھ بھی اتنی مضبوط نہیں، اور جس کا تعلق بھی ایک ایسی جماعت سے ہے جو بلوچستان اسمبلی میں صرف ایک سیٹ رکھتی ہے۔

اس سے تو یہی سبق ملتا ہے کہ اب اسلام آباد میں بیٹھ کر بلوچستان حکومت کو نہیں چلایا جاسکتا۔ اب سب کچھ بلوچستان میں ہوگا اور ارکانِ اسمبلی پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر فیصلے کریں گے، بلوچستان کے ممبران اسمبلی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ مٹی کے مادھو نہیں، اپنے فیصلے آپ کرسکتے ہیں، یہ جمہوریت کی اصل روح ہے جس میں مکھی پر مکھی مارنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اسی طرح آپ قصور میں دیکھیں تو عوام نے جمہوریت کی اس روح کو اپنے رد عمل میں ظاہر کیا ہے، عوامی نمائندے عوام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یا نہیں ہوتے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ عوام سے لا تعلق ہوکر بیٹھ جائیں جیسا کہ قصور کے عوامی نمائندوں نے کیا ہے، عوام نے اگر مشتعل ہوکر ارکان اسمبلی کے گھروں پر حملے کئے ہیں تو اس رد عمل کی وجہ سے ہیں، عوام پر جب کوئی مشکل آتی ہے تو ان کا پہلا دھیان اپنے منتخب ممبر اسمبلی کی طرف جاتا ہے کہ وہ ان کی مدد کرے گا، کیونکہ اسے انہوں نے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے۔ مگر جب صورتحال یہ ہو کہ زندہ تو ایک طرف مرجانے والوں کے جنازے میں بھی وہ شریک نہ ہوں تو ان کے خلاف عوام کے دلوں میں نفرت کی آگ کا بھڑکنا عین منطقی بات ہے۔


جنوری کا پہلا عشرہ ہی ہنگامہ پرور گذرا ہے تو آگے کیا ہوگا۔ سترہ جنوری سے مشرکہ جماعتوں کا احتجاج شروع ہونے جارہا ہے، مال روڈ پر ہنگامہ پرور جنوری کیا رنگ دکھائے گا۔

اس کا اندازہ رانا ثناء اللہ کے اس بیان سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مال روڈ پر کسی قسم کے احتجاج یا دھرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

یہ صورت حال بذات خود ایک بڑی خرابی کی نشاندہی کررہی ہے۔ جب کوئی احتجاج پر تلا بیٹھا ہو، اسے آپ اس قسم کی باتوں سے کیسے روک سکتے ہیں، کیا اس احتجاج کو طاقت کے زور پر روکا جائے گا۔ جنوری کی یہ حشر سا مانیاں ایسے ہی رہیں تو کیا کیا ستم ڈھائیں گی۔

جنوری کے تیسرے ہفتے میں لاہور پر کیا گذرتی ہے اس کا پتہ تو وقت آنے پر ہی چلے گا۔ دونوں اطراف ڈیڈ لاک اتنا شدید ہے کہ ٹوٹنے کا کوئی امکان ہی نہیں، ایک طرف حکومت کا خاتمہ مانگا جارہا ہے اور دوسری طرف حکومت کی طرف سے انگوٹھا، ایسے میں جو ہونا ہے سڑکوں پر ہونا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ زینب کیس نے پنجاب حکومت پر دباؤ بڑھا دیا ہے، اس کی گڈ گورننس کی چولیں ہلا دی ہیں ایسے میں وہ کسی نئے خون خرابے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

لیکن یہ بھی اس کی مجبوری ہے کہ لاہور کو بند نہ ہونے دے، ایسے میں اسے کیا کرنا ہے، یہ تو حکومت کے شہ دماغ ہی جانتے ہوں گے، لیکن جو کچھ نظر آتا ہے وہ ایک بڑے سانحے کی نشاندہی کے مترادف ہے۔


جب حکومت کے پروردہ خود کہہ رہے ہیں کہ طاہر القادری کو اپنی تحریک کیلئے لاشیں چاہئیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حالات کو کس ذہنی تناؤ کے تحت دیکھا جارہا ہے۔ حالات دگرگوں ہوں تو ایک ایک دن بڑی مشکل سے گذرتا ہے، اس طرح یہ جنوری بھی گذررہا ہے، آغاز ہی سے ہنگاموں کی خبر دینے والا یہ ماہ انتشار آگے چل کر نجانے کیا کیا دکھائے گا، ابھی تو یہ الیکشن کا سال بھی ہے، وہاں تک پہنچتے پہنچتے اس کے کیا رنگ ڈھنگ ہوں۔

یہ تو کوئی نجومی ہی بتا سکتا ہے۔ مگر جس طرح صورتحال گھمبیر تر ہوتی چلی جارہی ہے، اس نے ہر شخص کو تشویش میں ضرور مبتلا کردیا ہے، ہم بحیثیت قوم عجیب سفر کی زد میں ہیں، ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں، سیاست کو ابھی تک چوہے بلی کا کھیل سمجھے ہوئے ہیں۔ راستہ وہی ہے جو بلوچستان اسمبلی نے اختیار کیا کہ آپ اکٹھے ہوکر ایوان کے اندر سے تبدیلی لے آئیں۔

مگر اس کی بجائے مہم جوئی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اسمبلیوں سے باہر شروع ہوجاتا ہے، دوسری طرف انصاف کو بھی ہم نے پنجرے میں بند کررکھا ہے، لوگ پیاروں کی لاشیں اٹھا کر انصاف مانگتے ہیں مگر ہم انصاف کو آزاد ہی نہیں کرتے، وہ نہیں ملتا تو لوگ سڑکوں پر آتے ہیں اور پھر کوئی سانحہ ہوجاتا ہے۔

چاہئے تو یہ تھا کہ ہم نئے سال کا آغاز نئے عزائم کے ساتھ کرتے، پرانی باتوں، رنجشوں اور غلطیوں کو نہ دہراتے، جمہوریت کو تختہ مشن نہ بناتے بلکہ اسے اچھی حکمرانی کا ذریعہ ثابت کرتے لیکن ہم ایسا نہ کرسکے، نئے سال کا آغاز بتاتا ہے ہم ہنگامہ پرور جمہوریت کے زیر اثر ہیں، جو کچھ بھی کراسکتی ہے، حتیٰ کہ وہ جو کچھ بھی، جو خود جمہوریت کے لئے زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -