وطن واپسی کیلئے نواز شریف نے تمام حربوں اور دباؤں کر رد کر دیا

وطن واپسی کیلئے نواز شریف نے تمام حربوں اور دباؤں کر رد کر دیا
وطن واپسی کیلئے نواز شریف نے تمام حربوں اور دباؤں کر رد کر دیا

  

تجزیہ سہیل چوہدری

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے شاید جمعہ کے دن کی بد شگونی کے تاثر کو زائل کرنے کی غرض سے واپسی کے لیئے جمعہ کے روز کا ہی انتخاب کیا ہے۔ کیونکہ ملکی سیاست میں نواز شریف کی قسمت کے حوالے سے جمعہ کے دن کی غیر معمولی اہمیت کے حوالے سے ایک خاص تاثر موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے لئے جمعہ کا روز نحس ہے ۔ اُنکی نا اہلی سے لیکر انہیں نیب عدالت کی جانب سے سزا سنانے تک کے تمام بڑے فیصلے جمعہ کے روز ہی سنائے گئے اب یہ حسن اتفاق ہے یا پھر نواز شریف جمعہ کے دن کی بد شگونی کے تاثر کی نفی کرنے کے لیئے تلے ہوئے ہیں اسی بنا پر انہوں نے ملکی سیاسی گرداب میں واپسی کے لیئے جمعہ کے دن کا ہی انتخاب کیا ۔ یہاں تک کہ سابق وزیر اعظم جمعہ کے روز ہی اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیئے لندن پہنچے تھے اور جمعہ کے روز ہی واپس آرہے ہیں ۔ نیک شگونی اور بد شگونی کی گفتگو تو اپنی جگہ لیکن ایک بات واضح ہے کہ نواز شریف نے وطن واپسی سے روکنے کے تمام مشوروں ،حربوں اور دباؤ کو یکسر رد کردیا اور اپنے مزاحمتی بیانیے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اور گرداب میں گھری اپنی جماعت ن لیگ کو بچانے کی غرض سے انہوں نے مشکل راستے کے انتخاب کا دلیرانہ فیصلہ کیا۔ نواز شریف کی اپنی بیوی کی علالت اور تشویش ناک حالت کے پیش نظر تقریباً مہینہ بھر کی غیر حاضری میں ن لیگ کی ملک کے سیاسی مد و جذر میں ڈولتی ہوئی ناؤ کو انکے بھائی اور پارٹی کے صدر شہباز شریف باوجود تمام تر کوششوں کے اپنے مفاہمتی اسلوب کے ساتھ سنبھالا دینے میں ناکام رہے ، شہباز شریف کامفاہمتی بیانیہ ن لیگ کی بقا کے لیئے ٹھس ثابت ہوا ۔ شہباز شریف کو آزادانہ انداز میں پارٹی کو گہرے بھنور سے نکالنے کا موقع ملا تھا لیکن لگتا ہے انہوں نے بیشتر وقت غیر سیاسی سرگرمیوں میں گزارا۔ جس کی بنا پر ن لیگ کی انتخابی مہم تقریباً بیٹھ گئی تھی۔ ن لیگ کا ووٹر اور سپورٹر پریشان حال تھا اس بنا پر پنجاب کے دیگر حصوں کی مانند راولپنڈی،اسلام آباد میں بھی ن لیگ کے لیے دیگر جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی کے برابر برتاؤ نہ ہونے کے باعث جنرل مشرف کے زیر اہتمام 2002کے الیکشن کی طرز پر ایک یک طرفہ انتخابی مہم ہی چلتی ہوئی نظر آرہی تھی ۔ نواز شریف جو اپنا رتبہ اور عہدہ پہلے ہی کھو چکے تھے کے لیئے شاید یہ آخری موقع تھا کہ وہ اپنی سیاسی ساکھ اور پارٹی کو بچانے کے لیئے اپنے قائدانہ کردار کو آزمائش میں ڈال سکیں، اب یا کبھی نہیں، ان کے پاس یہ دوہی آپشنز تھیں۔ اگرچہ انہوں نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ کے ہوش میں آتے ہی وطن واپس آجائیں گے۔ لیکن گھمبیر حالات کے پیش نظر انہوں نے اہلیہ کے ہوش میں آنے کے انتظار کا فیصلہ منسوخ کرکے طبل واپسی بجا دیا۔ تاہم یہ شاید اُن کی خوش بختی تھی کہ اُنکی اہلیہ نے بھی اُنکی واپسی سے قبل آنکھیں کھول دیں۔ بطور قومی سیاستدان ’’لائن آف ڈیوٹی‘‘ کے تقاضے کے پیش نظر وہ آج سیاسی محاذ جنگ کے فرنٹ لائن مورچہ پر پہنچ رہے ہیں اور سیاسی جنگ کیا گل کھلائے گی اور اس کے کیا نتائج ہوں گے اس سے لا پرواہ ہو کر نواز شریف نے انتخابی سیاست کا طبل جنگ بجا دیا ہے۔ دوسری طرف نوازشریف کی آمد سے ایک روز قبل کپتان عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کی متنازعہ کتاب نے شدو مد سے ملکی سیاست کو گہنا دیا ہے جس کا ازالہ ممکن نظر نہیں آتا۔اس کتاب میں ہونیوالے انکشافات ہمارے سماج اورسیاست دونوں کیلئے شرمندگی کا باعث بنے ہیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ ن لیگ عمومی طور پر مڈل کلاس اور تاجر برادری کی جماعت ہونے کے ناطے ہمیشہ احتجاجی سیاست سے اجتناب برتتی رہی ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ ن لیگ کا ووٹر بھی خطرناک حالات میں ووٹ ڈالنے سے بھی بدک جاتا ہے کیونکہ جنرل مشرف کے سخت ترین دور آمریت میں بھی ن لیگ سڑکوں جلاؤ گھیراؤ اور احتجاجی سیاست میں پی پی پی کے ورکروں کی مانند پیش پیش نہیں رہی لیکن اس کے ووٹروں اور سپورٹروں نے ن لیگ کیلئے اپنی حمایت کبھی ترک نہیں کی ،مسلسل زیر عتاب رہنے کے باوجود جب تک نوازشریف پاکستان میں تھے ن لیگ کا ووٹر اور سپورٹر نہ صرف ٹوٹا نہیں بلکہ ن لیگ کو تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود کسی بڑی شکست سے دوچار کرنے کا تصور بھی پنپنے میں کامیاب نہ ہوسکا ، تاہم نوازشریف کی 27دن کی عدم موجودگی سے ن لیگ کا ووٹر سپورٹر اور حتیٰ کہ امیدوار بھی دل شکستہ اور دل گرفتہ ہورہا تھا ، ایسے حالات میں نوازشریف کی واپسی سے ن لیگ کی انتخابی مہم کو لائف لائن مل جائے گی ، دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک نام نہاد جمہوری انتقال اقتدار کے عمل کے تحت نگران حکومت بھی ن لیگ کے ۔چلو۔ چلو۔ لاہور چلو۔ سے گھبرا کر غیر جمہوری ہتھکنڈے اپناتی ہوئی نظر آرہی ہے راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی گزشتہ 48گھنٹوں سے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے ، انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے نظر آرہے ہیں ، موٹر وے سمیت لاہور کو جانے والے تمام اہم راستوں کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ، نوازشریف از خود گرفتاری دینے آرہاہے اور اسے گرفتار کر کے جیل ڈال دینا ہے تاہم یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر انتظامیہ کیوں اتنی زیادہ بوکھلائی ہوئی ہے ، ایسا لگتاہے کہ اگر انتظامیہ نے ن لیگ کے ورکروں ،سپورٹروں اور رہنماؤں کو نوازشریف کے استقبال کیلئے ائیر پورٹ پہنچنے کی کوششوں کو نا کام بنانے کے یہی حربے جاری رکھے تو عین ممکن ہے کہ پاکستان کے سیاسی کیلنڈر میں 25جولائی کی ٹائم لائن اپنی اہمیت کھو بیٹھے ، لگتاہے کہ نوازشریف کی آمد اوراس پر نگران حکومت کا غیر معمولی رد عمل ن لیگ کے مزاحمتی بیانئے کو عملی سیاست میں ڈھال دے گا جس سے ملک میں مزاحمتی سیاست کے ایک ایسے نئے دور کا آغاز ہوگا جس پر 25جولائی بند نہیں باندھ سکے گا ۔
کیپیٹل واچ

مزید :

تجزیہ -