پھر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟
پارلیمان کے اندر جو کچھ ہوا وہ اطمینان بخش تو ہے کہ مبینہ طور پر پارلیمان کے اندر سے تحریک انصاف کے اراکین کی گرفتاریوں، ریمانڈ اور 8ستمبر کے جلسہ کے حوالے سے درج مقدمات پر احتجاج کے بعد حالات میں کچھ سکون کا وقفہ آ گیا۔ سپیکر ایاز صادق کی تجویز پر ایک بڑی پارلیمانی کمیٹی بھی بن گئی جس کے اراکین کی نامزدگی متفقہ طور پر ہوئی۔ سپیکر نے اپیل کی تھی کہ اگر پارلیمان کے باہر سیاسی راہنما اور جماعتیں مل کر نہیں بیٹھتے تو پارلیمان کے اندر موجود اراکین بیٹھ جائیں، پارلیمانی کارروائی اور پارلیمان کے تقدس کے لئے مل کر میثاق پارلیمان کر لیں اس عمل کو مجموعی طور پر خوش آمدید کہا گیا،پارلیمان کے تقدس کے حوالے سے ایوان کے اندر جو جذبہ یا خیالات سامنے آئے وہ سب اضطراب کی نشان دہی کر رہے تھے۔ ہر سیاسی مکتبہ فکر کے اراکین کی طرف سے اس مبینہ حادثے کی مذمت کی گئی اور سپیکر پر زور دیا گیا کہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس کا ازالہ کریں۔
ایوان میں موجود تمام جماعتوں کے اراکین نے اظہار خیال کیا اور سب کا موقف ایک جیسا ہی تھا ایسے میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی خطاب کیا۔ ان کی تقریر کو غیر معمولی طور پر سراہا گیا کہ بیان میں محترمہ شہید کا عکس نظر آ رہا تھا، بلاول بھٹو نے جہاں پارلیمان کے تقدس پر زور دیا اور اپیل کی کہ اس پر کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے۔ اسی دوران انہوں نے تحریک انصاف والوں کو بھی مخاطب کیا اور ان کو پارلیمان کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ وہ ایوان کو نہ چھوڑیں، بلاول بھٹو کے بارے میں مبصرین یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ انہوں نے سیاست میں آنے کے بعد اب تک بہت تجربہ حاصل کر لیا، اردو پر خاصا عبور حاصل کرنے کے علاوہ بڑوں والی گفتگو بھی کر رہے ہیں۔ جیالے منتظر ہیں کہ بلاول کب آزادانہ طور پر جماعت کی قیادت کرتے ہوئے خود مختار طور پر سیاست کریں گے، ابھی تو صدر مملکت آصف علی زرداری نے اس اہم عہدے کے باوجود پارٹی کے سیاسی امور کے لئے بلاول پر مکمل بھروسہ نہیں کیا۔
یہ تو باپ، بیٹے کا اپنا مسئلہ ہے لیکن خود پیپلزپارٹی کے اندر اب یہ بات ہونے لگی ہے۔ حال ہی میں صدر مملکت کی طرف سے پیپلزپارٹی کے اراکین پارلیمان کے اعزاز میں دعوت اور ان کو بلانے پر بھی جماعت کے اندر بہت سی باتیں ہونے لگی ہیں۔
بہر حال بلاول کی ایوان میں تقریر کو سراہا گیا اور ان کے اس موقف کی بھی تائید کی گئی کہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو اپنے رویئے میں تبدیلی لانا چاہئے کہ ان کے اقدامات سے جمہوریت متاثر ہوتی ہے۔بلاول بھٹو کی تحریک پر پارلیمانی میثاق کی قرارداد بھی منظور کی گئی۔ پارلیمانی تقدس کے حوالے سے تو وفاقی وزیر قانون نذیر تارڑ نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا جو ایوان کی ترجمانی کرتے تھے۔
ایک طرف یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف خود عمران خان نے کئی دروازے بند کر دیئے اس سے ان کے اپنے سنجیدہ راہنماؤں کے اندر مایوسی ہوئی ہے لیکن انتہا پسند مطمئن ہیں اور ان سب نے بھی عمران خان کے بعد علی امین گنڈا پور کی حمایت کر دی ہے، لیکن علی امین گنڈا پور کے ایجنڈے کا کسی کو علم نہیں اور نہ ہی ان کی طرف سے لمحہ بہ لمحہ تبدیل کرتے موقف سے وہ مانوس ہو پا رہے ہیں۔ 8 ستمبر کو قریباً 8 گھنٹے تک لاپتہ رہنے کے بعد وہ پشاور میں رونما ہوئے اور ایک روز تک خاموشی اختیار کی،اس عرصہ میں عام لوگوں اور خود ان کی جماعت کے اندر ان کے اس غیاب پر چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔ یوں بھی وہ بولتے ہیں تو کفن پھاڑ کر ہی بولتے ہیں، ایک روز کے وقفہ کے بعد بولے تو ان کا لہجہ پہلے سے بھی زیادہ اشتعال انگیز اور جارحانہ تھا، ان کی 8 گھنٹے کی روپوشی کے حوالے سے جماعت کے اکابرین کو یہ بتا کر مطمئن کیا گیا کہ علی امین نے اس عرصہ میں اسلام آباد میں حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں کے افراد سے امن و امان کے حوالے سے مذاکرات کئے اور وہ اپنے موقف پر قائم ہیں، اب خود وہ بولے تو پھر سے چھپڑ پھاڑ دیا انہوں نے انہی افواہوں اور اطلاعات کے حوالے سے کہا کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں، معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر انہوں نے کسی ادارے یا افراد کا نام لئے بغیر کہا کہ وہ بولیں گے، ان کو بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور نہ ہی ان کو کوئی پنجاب اور سندھ جانے سے روک سکتا، اگر کسی میں جرأت ہے تو وہ ان کو گرفتار کر کے دکھائے یہ سب ان کی طرف سے اس چیلنج کا جواب ہے جو ان کی طرف سے لاہور پر مبینہ چڑھائی کے حوالے سے دیا گیا اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کہا گیا کہ وہ یہ ارادے لے کر پنجاب آئیں ان کو مزہ چکھا دیا جائے گا۔ میں نے اپنے گزشتہ ہفتے کے دوران اپنے ایک کالم میں یہ عرض کر دیا تھا کہ موصوف اشتعال دلانے اور حالات خراب کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جن کو یہ ذمہ داری تفویض کی جائے۔ اب تو وہ ایک قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں اور اب یہ اعلان کر دیا ہے کہ افغانستان سے وہ خود بات کریں گے۔ اگرچہ پاکستان کے کسی اہم رہنما کا افغانستان جانا یا افغان حکومت کے افراد سے ملنا عام بات ہے لیکن خصوصی طور پر کسی صوبائی وزیر اعلیٰ کی طرف سے از خود جا کر طالبان عبوری حکومت سے مذاکرات کا اعلان وفاق کا منہ چڑانے والی بات ہے کہ ایسے عمل کا تعلق خارجہ امور سے بنتا ہے اور خارجہ امور کی نگہداشت وفاق کے پاس ہے، کوئی صوبہ اگر اس طرف پیش قدمی کرتا ہے تووہ عملی طور پر ”بغاوت“ کا ارتکاب کرتا ہے اگرچہ ایسا کیا نہیں گیا۔
علی امین گنڈا پور کو بانی جماعت کی مکمل حمایت حاصل ہو چکی اور وہ اب اپنے ارادوں کو مزید ظاہر کرتے چلے جا رہے ہیں، ایسے میں ان کی مخالفت ہو تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔
پاکستان کا ہر شخص مضطرب ہے، اب تو بلوچستان کے حالات کے بعد علی امین گنڈا پور کی طرف سے خودمختاری جیسے اعلانات اور اقدامات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مقتدر حضرات کو اپنی حکمت عملی پر پھر سے غور کرنا ہوگا کہ حالات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں، کسی نے سچ کہا ہے کہ ان دنوں ایسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے جو باتیں ہو رہی یا کہی جا رہی ہیں ماضی میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا حتیٰ کہ فرزند راولپنڈی اور لال حویلی کے مکین ڈپلومیٹک الزام لگاتے ہیں کہ چالیس دن کا چلہ کاٹ لینے کے باوجود دوستوں نے معاف نہیں کیا، انہوں نے ایک بار پھر نئی تاریخ بھی دے دی ہے۔ لیکن اس امر کا بھی کوئی لحاظ نہیں کیا کہ وہ خود گیٹ نمبر 4 (ایسٹیبلشمنٹ) سے اپنے عمر بھر کے تعلق کی بات کر رہے ہیں، عوام پریشان ہیں کہ عوام کے درد کا سہارا لینے والے خود ہی اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ کیا اور کہاں سے ہیں اور کب سے چلے آ رہے ہیں، یہی ہمارے ملک کی معروضی حالت کے ذمہ دار ہیں۔