امریکہ ایران بالواسطہ مذاکرات

امریکہ ایران بالواسطہ مذاکرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خلیجی ریاست عمان میں امریکہ اور ایران کے مابین بالواسطہ جوہری مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہو گیا، دونوں فریقوں نے اس کو تعمیر ی قرار دیا۔ دو گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اِس نشست میں مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانے پر اتفاق ہوا، مزید بات چیت آئندہ ہفتے کی جائے گی۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں ممالک کے وفود مذاکرات کے دوران الگ،الگ کمروں میں بیٹھے رہے اور عمانی وزیر خارجہ اِن بالواسطہ مذاکرات کے دوران دونوں فریقوں کے درمیان پیغام رسانی کرتے رہے۔ایرانی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق ایرانی وفد کی قیادت کرنے والے وزیر خارجہ عباس عراقچی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے اختتام کے بعد عمانی وزیر خارجہ کی موجودگی میں چند منٹ بات چیت بھی ہوئی۔صدر ٹرمپ کی خواہش تو یہ تھی کہ براہِ راست مذاکرات کئے جائیں لیکن ایرانی وزیر خارجہ نے بالواسطہ مذاکرات پر زور دیا،اُن کا کہنا تھا کہ ایران امریکہ کے ساتھ بات چیت کے لئے تیار ہے لیکن ٹرمپ کو پہلے اِس بات پر اتفاق کرنا چاہئے کہ کوئی فوجی آپشن نہیں ہو سکتا۔ عباس عراقچی کا اپنے ملک کے سرکاری میڈیا سے بات چیت میں کہنا تھا کہ وفود مل کر کام کرتے رہیں گے،امریکہ اگر برابری کی بنیاد پر مذاکرات میں شامل ہو تو ابتدائی مفاہمت کا امکان موجود ہے تاہم مذاکرات کے دورانیے سے متعلق ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، ابھی پہلی ملاقات ہوئی ہے جس میں کئی بنیادی اور ابتدائی امور کو واضح کیا گیا ہے، ابھی تو یہ بھی دیکھا جانا ہے کہ دونوں فریق مذاکرات کے حوالے سے کتنے سنجیدہ ہیں؟اُن کے کیا ارادے ہیں؟ اِن سب باتوں کے طے ہو جانے کے بعد ہی ٹائم لائن کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ برطانوی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عباس عراقچی کو مذاکرات کے لئے مکمل اختیار دے رکھا ہے۔ عمانی وزیر خارجہ بدرالبوسعیدی کا کہنا تھا کہ مذاکرات دوستانہ فضاء میں ہوئے جبکہ ایرانی وزارتِ خارجہ کے مطابق بات چیت تعمیری تھی اور باہمی احترام کے ماحول میں ہوئی۔اعلامیے کے مطابق امریکی نمائندے وِٹکوف نے ایرانی وزیر خارجہ کو بتایا کہ صدر ٹرمپ نے ہدایت کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات بات چیت اور سفارتکاری کے ذریعے حل کر لئے جائیں۔ یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکی دے رکھی ہے، جس پر پاسدارانِ انقلاب اسلامی کے سربراہ حسین سلامی نے کہا تھا کہ اُن کا ملک جنگ کے لئے تیار ہے،اُنہیں جنگ کی کوئی فکر نہیں ہے، وہ پہل نہیں کریں گے تاہم کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیں گے۔امریکی صدر کی طرف سے ایران پر حملے کی دھمکی کے جواب میں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریبی مشیر علی لاریجانی نے چند روز قبل خبردار کیا تھا کہ ایران اگرچہ جوہری ہتھیار تیار نہیں کرنا چاہتا تاہم اِس پر اگر حملہ کیا گیا تو اُس کے پاس جواباً ایسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ 

امریکہ، کئی مغربی ممالک قیادت اور جوہری شعبے پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کئی دہائیوں سے تہران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگا رہی ہے۔ایران کے ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات نے اُس وقت جنم لیا جب 2002ء میں وہاں خفیہ جوہری تنصیبات کی دریافت ہوئی، لیکن اِس حوالے سے ایران کا موقف ہے کہ اُس کی جوہری سرگرمیاں صرف سویلین مقاصد کے لئے ہیں۔ ایران نے 2015ء میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان یعنی امریکہ، فرانس، چین، روس، اور برطانیہ کے علاوہ جرمنی کے ساتھ اپنی جوہری سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لئے ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا جسے ”مشترکہ جامع ایکشن پلان“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اِس سے نہ صرف ایرانی جوہری پروگرام کو محدود کیا گیا بلکہ آئی اے ای اے کو ایران کی جوہری تنصیبات تک رسائی ملی تاکہ مشتبہ مقامات کا جائزہ لیا جاسکے،بدلے میں ایران پر اقتصادی پابندیوں میں نرمی کر دی گئی، یہ 15سالہ معاہدہ تھا جس کے بعد دیگر سختیوں کی میعاد ختم ہو جاتی، لیکن 2018ء میں صدر ٹرمپ نے منصب سنبھالتے ہی اِس معاہدے کو ختم کر دیا،ان کے نزدیک یہ ایک برا معاہدہ تھا کیونکہ یہ مستقل نہیں تھااور اِس میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر بات نہیں کی گئی تھی۔صدر ٹرمپ نے دوبارہ ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں،اِس سارے عمل میں امریکہ کے اتحادی اور اسرائیل بھی شامل تھے۔جب امریکی صدر نے دوبارہ اقتدار سنبھالا تو انہوں نے دنیا بھر میں جاری جنگیں ختم کرانے کا اعلان کیا تھا،انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں بھی یہی دعوے کئے تھے، انہوں نے اپنے پہلے صدارتی خطاب میں امریکہ کو دوبارہ گریٹ بنانے اور دنیا میں امن قائم کرنے کا نعرہ بلند کیا تھا۔اب تک یوکرائن اور روس کے درمیان ہی معاملات آگے بڑھے ہیں، فلسطین کے معاملے پر تو امریکہ اسرائیل کا حامی ہے حالانکہ اس نے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوبارہ جنگ شروع کر دی اور امریکہ نے یمن پر بمباری سے بھی گریز نہیں کیا۔ بہرحال اچھی بات یہ ہے کہ ایران کے معاملے پر مذاکرات کا آغاز ہوا ہے،بالواسطہ ہی سہی لیکن دونوں ممالک ایک میز پر بیٹھ گئے ہیں گو کہ اسرائیل امریکہ کے اِس قدم پر خاص خوش نہیں ہے لیکن صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے معاہدے سے بہتر معاہدہ کر کے دکھائیں گے۔ایسا ہو سکتا ہے اگر نیک نیتی کے ساتھ بات چیت جاری رہی،دونوں ممالک مذاکرات پر جمے رہے تو براہِ راست مذاکرات کا دروازہ بھی کھل جائے گا، بہتر یہی ہے کہ اس مسئلے کا منطقی حل ڈھونڈ لیا جائے۔ یہ بظاہر آسان کام نہیں ہے، دھونس اور دھمکی سے کوئی معاملہ حل نہیں ہوتا،گفتگو تو برابری کی سطح پر ہی ہوتی ہے، صدر ٹرمپ بھی فوجی کارروائی کی تلوار سر پر لٹکائے بغیر بات چیت کو آگے بڑھنے دیں۔یہ بات تو طے ہے کہ جنگ کسی بھی ملک کے لئے فائدہ مند نہیں ہو سکتی، چاہے کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ہر حال میں نقصان ہی اُٹھاتا ہے۔جو بھی تنازعات اور جنگیں آج دنیا میں جاری ہیں اس کا خمیازہ پوری دنیا بھگت رہی ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -