ڈمپر دہشت گردی جاری۔۔دہشت گردی ختم؟

پاکستان کے سیاسی ماحول میں جب کسی وزیراعظم، وزیراعلیٰ کا کوئی بلند بانگ دعوؤں بھرا بیان سامنے آتا ہے تو لگتا ہے کہ ایک بار پھر ہمیں دھوکہ دیا جا رہا ہے، جھوٹ بولا جا رہا ہے، کیونکہ 78 سال میں تو سچ کبھی ہمارے حکمرانوں کے منہ سے نکل ہی نہیں سکا۔ ”خاکی حکمران ہوں یا جمہوری سفید پوش“ سچ بولنا تو ایسے لگتا ہے ان پر حرام ہے۔ یہ ہمیں بے وقوف بنانے کے لئے جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ تازہ بیان وزیراعلیٰ سندھ جناب سید مراد علی شاہ کا ہے کہ جن کی پارٹی گزشتہ 17 - 18 برسوں سے صوبہ سندھ کے اقتدار کی بلا شرکت غیرے ”مالک و مختار“ ہے، مگر کراچی اور سندھ میں کوئی معاملہ سیدھا نہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ وہ شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا۔ وہ اک شہر جو پاکستان کی پہچان تھا۔ وہ اک شہر جہاں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں۔ جہاں دنیا بھر سے بحری جہازوں کے ذریعے ”ملاح“ کراچی پہنچتے ہیں، نگر نگر پھرنے والے یہ ملاح ہماری جو ”تصویر“ دیکھ کر جائیں گے۔ یہ واپس جا کر ہماری کیا ”تصویر“ دنیا کو دکھائیں گے۔ وہ یہاں سے کیا پیغام لے کر جائیں گے کہ انہوں نے ایک ادھڑا ہوا شہر، ایک تباہ و برباد شہر دیکھا ہے۔ جس کی کوئی سڑک (ڈیفنس، کلفٹن اور کینٹ کے سو ا) سلامت نہیں ہے۔ رہی سہی سڑکیں سوئی گیس کی ”تازہ لائنوں کے نام“ پر ادھیڑ دی گئی ہیں۔ اسی شہر اور صوبے کے اعلی ترین حکمران سید مراد علی شاہ نے جن کا خاندان سندھ کا ایک ”بیحد معزز خاندان“ ہے۔ دعوی فرمایا ہے کہ ہم نے صوبے سے دہشت گردی ختم کر دی ہے۔ دہشت گردی پر کنٹرول کر لیا ہے اور ایسا ہماری ”موثر پالیسیوں“ کی بدولت ہوا ہے۔ منشیات فروشی اور جرائم کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ اپریشن کیے جا رہے ہیں۔چلیں ہم نے یہ مان لیا کہ ”رینجرز کی تلوار“ کے ذریعے ہونے والے آپریشن ”سندھ حکومت“ کر رہی ہے۔ سندھ کی ”باوردی پولیس“ کر رہی ہے۔ سندھ میں کوئی ڈاکہ نہیں پڑ رہا۔ سندھ میں لوگ سڑکوں پر ایک موبائل یا چند ہزار روپے جیب سے نکالنے میں تاخیر پر خون میں نہلائے نہیں جا رہے۔ چلو ہم آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ کچھ غلط نہیں ہو رہا سندھ میں سب اچھا ہے، لیکن رواں سال کے پہلے سو دِنوں سے کراچی میں جو ڈمپر دہشت گردی جاری ہے اس کو کیا کہیں گے۔ اس دہشت گردی نے کراچی میں اب تک دو بڑے چینلز کے مطابق تقریباً ڈھائی سو جانیں لے لی ہیں سب سے بڑا چینل ہونے کے ”دعویدار“ کا یہ کہنا ہے کہ 100دِنوں میں 256 افراد ٹریفک حادثات میں اس جہاں سے رخصت ہوئے ہیں۔ انہوں نے البتہ ایک ”الگ فگر“ بھی دی ہے کہ ان میں سے 99 افراد بڑی گاڑیوں (ہیوی گاڑیوں) کے نیچے آکر جان سے گئے ہیں،جبکہ کراچی ہی کے ایک دوسرے بڑے چینل کا دعوی ہے کہ ایک سو دن میں 230 افراد مارے گئے ہیں اور ان مرنے والوں میں 172 مرد، 25 عورتیں، 30 بچے شامل ہیں۔ ان مرنے والوں کے علاوہ تین ہزار لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ صرف مارچ میں 78 افراد کی جان گئی۔ یہ بھی یاد رہے کہ سال کے پہلے 40 دِنوں میں 107 افراد مارے گئے تھے۔ یہ ہے اصلی دہشت گردی ”ڈمپر دہشت گردی“۔ اس کو کیوں نہیں ”کچلا جا رہا“۔ کیا یہ دہشت گردی جناب بلاول بھٹو زرداری، جناب سید مراد علی شاہ، جناب شرجیل میمن، جناب سعید غنی، جناب ضیاء النجار، گورنر جناب کامران ٹیسوری کو نظر نہیں آتی،یقینا ”اب آتی ہے“ اور اس لئے آتی ہے کہ اب ”کچھ اور طاقتور لوگوں“ نے حادثے کا باعث بنانے والے ڈمپرز کو آگ لگانے کا بیان دیا ہے۔ اس بیان کے بعد واقعی آگ لگ گئی ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک ڈمپر جو گاڑیوں کو ٹکریں مارتا آ رہا تھا اس نے ایک نوجوان کو ٹکر مار کر زخمی کیا تو تعاقب کرنے لوگوں نے اس کے ڈرائیور کو قابو کرکے ٹھکائی کر ڈالی، جس کے بعد مشتعل لوگوں نے ڈمپروں، واٹر ٹینکروں، ٹریلروں، ٹرکوں کو آگ لگانا شروع کی اور پھر اس رات تین مختلف جگہوں پر 10 ڈمپر، واٹر ٹینکر اور دیگر بڑی گاڑیاں مشتعل ہجوم نے نظر آتش کر دیں۔ 100 دن میں ”ڈمپر گردی“ سے مرنے والے 256 افراد تو ہمارے حکمرانوں کو نظر نہیں آئے مگر حکومت کی ”بند آنکھوں“ سے تنگ آئے مشتعل ہجوم کی یہ ”دہشت گردی“ اسے ضرور نظر آگئی۔شاید ہمارے ”ارب پتی حکمرانوں“ کے لئے انسانوں کو گاڑیوں کے نیچے کچل کر مارنا دہشت گردی نہیں ہے، مگر کراچی کے مظلوم، بے بس عوام کو پہیوں تلے کچلنے والے ٹرکوں، ٹریلروں، ڈمپروں، واٹر ٹینکروں کو غصے اور طیش میں آکر آگ لگانا دہشت گردی ٹھہری۔ اس حوالے سے جو بیان داغے گئے ان کو سُن کے یہی کہا جا سکتا ہے ”سبحان اللہ، ماشااللہ، انا للہ وانا علیہ راجعون“۔ ہمارے حکمرانوں نے ٹینکروں کو آگ لگانے پہ جو ”آگ اگلی“ وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے شاہی سید کا کہنا تھا کہ ڈمپروں کو جلانے کے واقعات دراصل کراچی میں لسانی فسادات کرانے کی کوشش ہے۔ ٹریفک حادثات کو لسانی رنگ نہ دیا جائے۔یہ درحقیقت انتظامی نااہلی ہے۔ کراچی کا امن کسی کو تباہ نہیں کرنے دیں گے۔ گورنر سندھ جناب کامران ٹیسوری نے فرمایا جو بھی شہر کا امن خراب کرے اسے فورا گرفتار کیا جائے، بڑی گاڑیاں جلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ بھائی کو بھائی سے لڑانے کی سازش ہے۔ اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے آئی جی سندھ سے رپورٹ بھی طلب کر لی۔ جناب شرجیل میمن (جو کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ”حقیقی ترجمان“ ہیں) نے فرمایا کہ کسی کو ڈمپر، ٹرک، ٹینکر، ٹریلر کو آگ لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سختی سے نپٹا جائے گا۔ (دہشت گردوں سے تو آپ نبٹ نہیں سکے، ڈاکوؤں سے آپ نبٹ نہیں سکے، احتجاج کرنے والوں سے سختی سے نبٹیں گے)۔ سب سے بڑی بات سندھ حکومت کے وزیر داخلہ ضیاء الحسن نجار نے کی جن کے ماتحت سندھ کی پوری پولیس ہے ان کا فرمانا تھا کہ ہم کسی کو ڈمپر اور بڑی گاڑیاں جلانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ حادثات میں ملوث ڈرائیورز کو گرفتار کرنے کے احکامات پہلے ہی دیئے ہوئے ہیں،جو شخص اس شہر کا امن خراب کرے گا اور ”دہشت پھیلائے“ گا اسے گرفتار کیا جائے گا۔ پولیس کو گاڑیاں جلانے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ یعنی جناب ضیاء الحسن نجار نے ”اپنے جیسے کسی شہری“ کو ٹرک ڈمپر کے نیچے کچلا دیکھ کر طیش میں آ کر احتجاج کرنے والوں، ٹرک کے شیشے توڑنے والے کو سیدھا سیدھا دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ (مبارک ہو کراچی کے شہریوں کو)۔
سندھ پولیس نے ”دھول جھاڑنے“ کے لئے 70 گاڑیاں ”قبضے“ میں لیکر معائنہ کروایا تو 12 (ان فٹ) یعنی سڑکوں پر چلنے کے قابل نہ نکلیں۔
٭٭٭٭٭