مسئلہ سیاست کا نہیں معاشرتی بے حسی کا ہے

پروفیسر اعجاز رسول چشتی کی عمر85 سال کے لگ بھگ ہے، مگر زندہ دِلی اور شگفتہ مزاجی آج بھی اُن میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ایک روشن خیال ذہن کے مالک ہیں اور ہمیشہ رجائیت کے قریب رہتے ہیں۔ان85 برسوں میں انہوں نے پاکستان کو بنتے بھی دیکھا اور پھر جو کچھ ہوتا رہا اُس کے بھی شاہد رہے۔وہ میرے کالموں کے قاری بھی ہیں اور ناقد بھی،بلکہ کالموں کا مواد تو انہی کی باتوں سے ملتا ہے۔کل اُن سے ملاقات ہوئی،دنیا جہان کے موضوعات پر گفتگو کا دور چلا،اچانک انہوں نے ایک شرارتی سوال کیا۔کہنے لگے آج کل سیاسی سے زیادہ سوشل موضوعات پر لکھ رہے ہو، کیا ڈر گئے ہو،میں نے کہا مرشد آپ خود جانتے ہیں سیاست پر لکھنے کی گنجائش ہی کتنی رہ گئی ہے۔یہ جگالی کر کے تو عمر گذر گئی کہ سیاستدان ٹھیک ہو جائیں۔آج یہ عقدہ کھلا ہے کہ سیاستدان تو چابی والے کھلونے ہیں،وہ تو اپنی مرضی سے بیان بھی نہیں دے سکتے، پھر ان پر وقت ضائع کیا جائے۔کہنے لگے یہ بات تو درست ہے،اس پر لکھ دیا کرو،میں نے کہا جو چیز سب کو پتہ ہو اُس پر لکھنا مکھی پر مکھی مارنا ہوتا ہے۔پھر میں نے عرض کیا،خواص کو جگانے میں اس قوم کا بہت وقت ضائع ہو چکا،اب عوام کو جگانے کی ضرورت ہے اس سے مراد یہ نہیں کہ عوام کو خواص کے خلاف بھڑکا دیا جائے،بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے عوام کو یہ احساس دلایا جائے وہ خود بھی اپنی اداؤں پر غور کریں۔اپنی اصلاح کی راہ پر چلیں اور اندھوں کی طرح اِس بات کا انتظار نہ کریں کہ کوئی آئے اور اُنہیں ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرا دے یہ تماشہ بہت ہو چکا کہ اپنے گھر کا گند باہر پھینک کر یہ دہائی دی جائے، سرکار یا ہمسایہ اسے صاف نہیں کرا رہا۔ظلم و زیادتی،رشوت، فراڈ، ملاوٹ اور کم ناپ تول کی ساری خرابیاں اپنے لئے جائز سمجھنے والے یہ توقع کریں کہ یہ سب ختم ہو جائیں تو اس سے بڑی دھوکہ بازی اپنے آپ سے اور کوئی ہو نہیں سکتی۔ میں نے انہیں بتایا کل میری کمشنر ملتان عامر کریم خان سے تفصیلی بات ہوئی۔وہ ملتان ڈویژن میں بہت سے نئے کام کر رہے ہیں اور انہوں نے کمیونٹی کو ساتھ ملا کرایسے کاموں کا آغاز کیا ہے،جو حکومتی اداروں کی آس پر شابد کبھی نہ ہو سکتے۔میں نے بتایا کہ انہوں نے ملتان ڈویژن کے چاروں اضلاع میں موٹر سائیکل سواروں کے لئے سپیڈ کی حد60کلو میٹر فی گھنٹہ مقرر کر دی ہے اس سے زیادہ چلانے والوں کے موٹر سائیکل بند ہوں گے،چالان بھی کئے جائیں گے۔میں نے اُن سے پوچھا آپ کیسے موٹر سائیکل والوں کو چیک کر سکیں گے کہ وہ حد رفتار سے آگے ہیں،اس پر انہوں نے ایک بڑی اچھی بات کی۔اُن کا کہنا تھا یہ سوچ بدلنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کوئی قانون بنائے تو اُس پر عمل کے لئے گھر گھر کے سامنے پولیس یا عملہ بھی کھڑا کرے۔یہ خود معاشرے کا کام ہے کہ وہ قوانین کا احترام کرے جب یہ قانون نافذ ہو گیا ہے کہ 60 کلو میٹر کی رفتار سے زیادہ موٹر سائیکل نہیں چلائی جا سکتی تو والدین کا بھی یہ فرض بن جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ اِس سے زیادہ رفتار پر موٹر سائیکل نہیں چلانی۔ میں نے جب پروفیسر اعجاز رسول چشتی کو بتایا کہ ملتان ڈویژن میں تحصیلوں کی سطح پر درجنوں سکولوں میں گزشتہ دو ماہ کے دوران 13کروڑ روپے کی مختلف سکیمیں مکمل ہو چکی ہیں اور اُن پر حکومت کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا تو وہ بہت حیران ہوئے۔
دو ماہ پہلے عامر کریم خان نے مجھے ایک منصوبے کے بارے میں بتایا تھا،انہوں نے کہا تھا وہ ڈویژن بھر کے سرکاری سکولوں سے پڑھنے والے ایسے افراد کا ڈیٹا جمع کر رہے ہیں،جو اِس وقت معاشرے میں وسائل اور عزت و شہرت کے لحاظ سے اعلیٰ مقام پر ہیں پھر ہم انہیں اُن کے پرانے سکولوں میں بلائیں گے اور بتائیں گے ان کے سکول میں جس کی تعلیم کے طفیل وہ آج اعلیٰ مقام پر ہیں، کچھ سہولتیں موجود نہیں،مثلاً کہیں کلاس رومز کی کمی ہے، کہیں پینے کا صاف پانی نہیں،کہیں جگہ کم ہے اور کہیں کلاس رومز میں پنکھوں کی کمی ہے۔ایسی دوسری باتوں کی نشاندہی کر کے اُن سے کہا جائے گا کہ وہ اگر اپنی مادر علمی کو کچھ لوٹانا چاہتے ہیں تو ان میں کوئی بھی کمی پورا کرنے کی ذمہ داری قبول کریں۔کمشنر عامر کریم خان نے بتایا اس کا اِس قدر اچھا ردعمل ہوا کہ چاروں اضلاع کی مختلف تحصیلوں میں 13کروڑ روپے کی لاگت سے سکولوں میں سہولتیں فراہم کر دی گئی ہیں اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری ہے۔اگلے مرحلے میں ضلع ملتان کے379فلٹریشن پلانٹس کی رپورٹ طلب کی گئی تو انکشاف ہوا کہ ان میں سے 118 پلانٹس کام نہیں کر رہے، ضلعی انتظامیہ کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے اِس لئے شہر کے مخیر حضرات کو جب اس کام میں تعاون کے لئے کہا گیا تو انہوں نے نہ صرف آمادگی ظاہر کی،بلکہ20 نئے فلٹریشن پلانٹس بھی لگانے کی تجویز پر عملدرآمد کے لئے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔اس پر پروفیسر اعجاز رسول چشتی کہنے لگے ترقی یافتہ ممالک میں کمیونٹی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔یہاں پچھلی چند دہائیوں میں یہ کلچر پروان چڑھا ہے جو کرنا سیاستدانوں نے کرنا ہے،سوسائٹی نے ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھے رہنا ہے، میں نے کہا اس غلط روش کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ حکومتیں عوام کو اپنا محتاج بنانے اور سیاست دانوں کے زیر نگیں رکھنے کے لئے ارکانِ اسمبلی کو ترقیاتی گرانٹیں دینے لگیں،وہ اپنی پسند ناپسند کے مطابق سکیمیں بناتے اور اُن میں بھی حد درجہ کرپشن روا رکھی جاتی۔
جب تک کوئی معاشرہ اپنی اصلاح کی ذمہ داری نہیں لیتا اور اس آس پر بیٹھ جاتا ہے کوئی دوسرا یہ کام کرے گا، اُس وقت تک حالات میں بگاڑ تو پیدا ہو سکتا ہے، اصلاح نہیں ہو سکتی،جن ممالک کی ترقی و خوشحالی کی ہم مثالیں دیتے اور خواہش کرتے ہیں کہ ہم اُن جیسے بن جائیں، اُن ممالک میں یہ نظریہ نہیں چلتا کہ میرے لئے مادر پدر آزادی اور قانون دوسرے کے لئے۔ہم تو اب تک اپنا ٹیکس کلچر بھی سیدھا نہیں کر سکے،ہم ٹیکس بھی اپنی مرضی سے نہیں دیتے،زور زبردستی کرنی پڑتی ہے، صرف ایک تنخواہ دار طبقہ ہے، جو پورا ٹیکس دیتا ہے،کیونکہ اُس کی تنخواہ میں سے ٹیکس ادائیگی سے پہلے کاٹ لیا جاتا ہے۔ ٹریفک کانسٹیبل ون وے کی خلاف ورزی پر چالان کرتا نظر آئے تو اسے ہی برا کہتے ہیں۔یورپ میں کسی قانون شکن مولا جٹ کو پسند نہیں کیا جاتا،جبکہ ہمارے ہاں مولا جٹ ہیرو سمجھا جاتا ہے۔اب یہ تھیسز کب تک چلے گا کہ جب تک سیاستدان اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ٹھیک نہیں ہوتے اس وقت تک ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا، ایک ملک اقتدار کے ایوانوں میں ہے تو ایک اصلی اور وڈا ملک گلی محلوں میں موجود ہے، گلی محلوں میں موجود ہے، اس گلی محلے والے ملک کو درست کرنے کی ذمہ داری عوام کی ہے۔یہ جو تجاوزات کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے اور لاقانونیت کی کئی مثالیں ان تجاوزات کے حوالے سے سامنے آ رہی ہیں۔
٭٭٭٭٭