پولیس عوام دوست کیسے بنے گی؟

  پولیس عوام دوست کیسے بنے گی؟
  پولیس عوام دوست کیسے بنے گی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 محکمہ پولیس کی بڑھتی ہوئی زیادتیوں، بداخلاق رویوں اور ناانصافیوں کے متعلق آئے روز اخبارات میں خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ حکمرانوں اور افسران بالا کے نوٹس لینے کے باوجود ان واقعات میں کمی نہیں آ سکی۔ افسوس در افسوس کہ پولیس کلچر میں جو تبدیلی لانے کا خواب دیکھا گیاوہ تاحال پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ جب تک پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو لگام نہ ڈالی گئی اس وقت تک پولیس کے ساتھ عوام دوستی کا خیال کرنا بے مقصد ہے یہاں پر میں تمام پولیس اہلکاروں کی بات نہیں کرتا مگر اکثریت کچھ ایسی ہو چکی ہے کہ ان میں اچھے اہلکاروں کی بھرتی سوفیصد نہیں ہے۔ خاص کر چھوٹا عملہ جن میں کانسٹیبل اور تھانیدا طبقہ شامل ہے۔ اگر جرم کرنے والے کو ایک بار سخت سزا دی جائے تو میرا خیال ہے کہ دوسرے اس سے عبرت پکڑیں گے جرم خواہ کسی عوام کے بندے نے کیا ہو یا کسی پولیس اہلکار نے جرم ثابت ہونے پر اس کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتنی چاہیے پھر دیکھنا یہ پولیس کلچر کیسے سیدھا ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی مہذب معاشرے میں پولیس کا کردار بہت اہم اور بہت قابل احترام ہوتا ہے کیونکہ پولیس معاشرے میں جرائم کی روک تھام اور امن قائم کرنے کا عہد اٹھاتی ہے مگر جس کا پاس ہر کوئی نہیں رکھتا۔ پولیس کی بدنامی کا باعث بننے والے روزانہ بے شمار واقعات پیش آرہے ہیں جن کے سرذد ہونے سے ادارے کی سبکی ہورہی ہے اسی طرح کا ایک واقعہ ایک روز قبل سروسز ہسپتال میں بھی پیش آیا ہے جہاں مریض کے لواحقین اور ڈاکٹرز کے درمیان جھگڑا ہونے پر ایک ٹرینی سب انسپکٹر دانیال اپنے ساتھی اہلکاروں کے ہمراہ ہسپتال کے ڈاکٹروں پر چڑھ دوڑتا ہے یہ تھانیدار ہسپتال میں مریض کے لواحقین کی مدد کو آتے ہوئے ڈاکٹروں کو تشدد کا نشانہ بنا تا ہے جس پر ڈاکٹروں نے سخت احتجاج کرتے ہوئے ہسپتال میں مریضوں کو چیک نہ کرنے اور ہڑتال کرنے کی کال دیدی اس واقعہ کے بعد ہسپتال میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ہسپتال میں موجود تمام ڈاکٹروں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ یہ ہی نہیں اسی طرح کا ایک واقعہ چند روز قبل ماڈل ٹاؤن کے نواحی علاقے کوٹ لکھپت میں بھی پیش آیا تھا جہاں نوجوان خواتین اور کچھ پولیس اہلکاروں پر مشتمل ایک گینگ گھناؤنے کاروبار میں ملوث پایا گیا جو مبینہ طور پر بلیک میلنگ کے زریعے اغواء  تشدد اور بھتہ خوری میں ملوث تھا اس گینگ کو تین پولیس اہلکار چلارہے تھے جو نوجوانوں کو پھنسانے کے لیے نوجوان لڑکیوں کا استعمال کررہے تھے۔اسی طرح پچھلے دنوں ایک اور افسوس ناک واقعہ بھی پیش آیا کہ ایک پولیس اہلکار کی وردی میں ایک ایسی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ ایک گداگر خاتون کو کھیتوں میں لے جا کر بداخلاقی کا نشانہ بنا رہا تھا جسے ایک نوجوان نے اسے لے جاتے ہوئے دیکھ لیا اور اس کی ویڈیو بنانا شروع کر دی اس پولیس اہلکار کو روکنے کی اس نے بڑی کوشش کی اس پولیس اہلکار نے اسے گندی گالیاں دیں اور ویڈیو بنانے سے زبردستی روکنے کو کہا مگر نوجوان بھی دلیر تھا اس نے اس کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دیا اور ویڈیو بناتا رہا اس بداخلاقی کے دوران ہی برہنہ حالت میں اس پولیس اہلکار نے اپنے دستی ریوالور سے اس شخص پر گولی چلا دی جس سے وہ شخص شدید زخمی ہو گیا۔ آئے روز پیش آنے والے یہ وہ واقعات ہیں جو پولیس کی رسوائی کا باعث بن رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان افسوس ناک واقعات کے بعد کیا کسی کے خلاف کوئی کارروائی بھی عمل میں لائی گئی ہے یا پیٹی بھائیوں کو بچا لیا گیا ایسا ہرگز نہیں ہے لاہور پولیس نے خود احتسابی کا جو کام شروع کر رکھا ہے وہ واقعی ہی قابل ستائش ہے۔پہلے ہم سروسز ہسپتال میں پیش آنے والے واقعہ کی بات کرلیتے ہیں جس کی اطلاع ملتے ہی ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے نوٹس لیتے ہوئے پولیس اہلکاروں کی فوری گرفتاری کا حکم دیا جس پر ایس پی ماڈل ٹاؤن اخلاق اللہ تارڑنے موقع پر پہنچ کر ٹرینی سب انسپکٹر دانیال سمیت 6 اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا۔ پولیس اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی اور گرفتاری کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹروں نے احتجاج کی دی جانیوالی کال کو نہ صرف واپس لے لی بلکہ انہوں نے لاہور پولیس کی جانب سے ہونیوالی اس کارروائی کو سراہتے ہوئے کام بھی شروع کردیا۔اب اگر بات کی جائے کوٹ لکھپت میں پیش آنے والے گینگ کی تواس گینگ کے خلاف بھی ڈی آئی جی آپریشنز نے سخت ایکشن لیتے ہوئے نہ سب کو گرفتار کروادیا بلکہ انہیں ملازمت سے بھی برخاست کردیا گیا ہے۔جہاں تک باوردی اہلکار کی گدا گر خاتون سے بداخلاقی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی بات ہے۔لاہور پولیس نے اس کے خلاف بھی سخت ایکشن لیتے ہوئے اسے گرفتار کرنے کے ساتھ ملازمت سے برخاست کر دیا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لاہور میں پہلی بار کرپشن،بد کلامی یا اختیارات سے تجاوز کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے کسی کو معافی نہیں مل رہی۔غلطی کے مرتکب ایس ایچ اوز اور تھانیداروں کو انہی کی حوالاتوں میں بند کیا جارہا ہے پہلے تھانیدار ایس ایچ اوز لگنے کے لیے سفارشیں تلاش کرتے تھے اب ایس ایچ اوز آپریشنز ونگ سے بھاگنے کے لیے سفارشیں تلاش کررہے ہیں۔اختیارات سے تجاوز کرنے پر ہی نہیں جرم میں تخفیف اور بروقت مقدمات کا اندراج نہ کرنے والوں کو بھی سزاؤں کا سامنا ہے۔ دوسری جانب ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کی سخت محنت اور پیشہ وارانہ مہارت کے پیش نظر لاہور میں جرائم کی شرح میں 52 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -