لارڈ کچز نے جلیانوالہ باغ میں ایک ہزار سے زیادہ معصوم لوگ مروا دیئے تھے،سوڈان میں اسلامی تحریک کو کچلنے میں بھی اس کا بڑا اور گھناؤناکردار تھا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:90
ہماری کشتی دریا کے عین وسط میں ایک بڑے سے اور ہرے بھرے جزیرے پر ٹھہر گئی۔ سب سیاح اتر کر اپنے گائیڈ کی معیت میں اوپر چڑھے۔ گائیڈ نے بتایا کہ دریا کے عین وسط میں واقع اس جزیرے کا نام انگریزی فوج کے مشہور اور جلاد قسم کے جرنیل لارڈ کچز کے نام پر کچز گارڈن (Lord Kitchner Garden)رکھا گیا تھا۔ یہ وہی لارڈ کچز ہے جس نے متحدہ ہندوستان میں جلیانوالہ باغ کے مقام پر نہتے اور بے گناہ افراد پر بلا جواز فائرنگ کروا کر ایک ہزار سے زیادہ معصوم لوگ مروا دیئے تھے جو ایک جلسے میں شرکت کے لئے وہاں اکٹھے ہوئے تھے۔
سوڈان میں بھی مہدی سوڈانی کی اسلامی تحریک کو کچلنے میں اس کا بہت بڑا اور گھناؤناکردار تھا۔ اس نے نہ صرف اس تحریک کے اہم رہنماؤں کو چن چن کر قتل کیا، بلکہ جوش انتقام میں اس کے بانی محمد مہدی سوڈانی کے مقبرے کو نہ صرف دھماکے سے اڑادیا بلکہ اس کی لاش کو نکال کر اس کی بے حرمتی بھی کی۔اس کے صلے میں حکومتِ برطانیہ نے اسے یہ خوبصورت جزیرہ انعام کے طور پر عطا کیا تھا۔
اس جزیرے کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں دنیا کے تقریباً ہر حصے میں پائے جانے والے درختوں اور پودوں کو لا کر لگایا گیا تھا۔ شائد ہی کہیں ایک جگہ پر اتنی انواع اور اقسام کے درخت ہوں گے، جتنے یہاں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں اس کا نام جزیرہ النباتات یعنی Botanical Garden پڑ گیا اور اب یہ اسی نام سے پہچانا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ اب اس کو کچنر گارڈن کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں۔
گائیڈ ہمیں سیڑھیوں سے لے کر اوپر چڑھ گیا اور ہم اس سرسبز جزیرے میں داخل ہوگئے جس میں چاروں طرف سبزہ، پھولوں سے لدی ہوئی جھاڑیاں، ہر قسم اور ہر قدو قامت کے پودے اور درخت موجود تھے۔ ان میں واقعی ہی کچھ تو ایسے درخت تھے جو پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں ہی پائے جاتے تھے اور کچھ افریقی صحرائی جھاڑیوں کے علاوہ یورپ اور امریکہ سے آئے ہوئے برفانی علاقوں کے بلند و بالا درخت تھے۔ ایسے مختلف خطوں اورموسموں کے پودوں اور درختوں کو یکجا کرنا اور پھر ان کو مصر کے گرم موسمی اثرات سے بچانا واقعی ایک بہت کٹھن کام تھا۔
جزیرے پر مختلف سمتوں کو جاتے ہوئے خوبصورت راستوں پر ٹائلوں کی راہ داریاں بنائی گئی ہیں، جو گھنے درختوں کے جھنڈ میں داخل ہو جاتی ہیں۔ بعض جگہ تو یہ درخت اتنے گنجان ہو جاتے ہیں کہ دن کو رات کا گمان ہوتا ہے اور ان کے نیچے مستقل اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ راہداریوں میں آہنی ستونوں پر خوبصورت پھولدار بیلیں چڑھی ہوئی ہیں۔ جگہ جگہ سیاحوں کے لئے بنچ لگا دیئے گئے ہیں جہاں بیٹھ کر وہ گرمی کی تپش سے محفوظ رہ کرنیچے بہنے والے خوبصورت دریا کا نظارہ کرسکتے ہیں۔دور آتی جاتی بادبانی کشتیاں ان چھوٹی چھوٹی کاغذی کشتیوں کی یاد دلاتیہیں جو بچپن میں ہم کاپیوں سے کاغذ پھاڑ کر بناتے اور پھر بارش کے جمع ہوجانے والے پانی میں تیرا یا کرتے تھے۔
یہ کوئی اتنا بڑا جزیرہ تو تھا نہیں کہ جہاں کسی کے گم ہوجانے کا اندیشہ رہتا اس لئے میرے ساتھی اپنی مرضی کی راہ داریوں پر نکل گئے اور حیرت زدہ ہوکر ایک ایک درخت کو چھان پھٹک کر دیکھنے لگے۔ جزیرے کے عین وسط میں ایک چھوٹا سا ریسرچ سینٹر بنا ہوا تھا جو غالباً اس وقت بند تھا۔ وہاں ایک مصری چوکیدار، سیاحوں کی سرگرمیوں سے بے نیاز بنچ پر بیٹھا کسی سوچ میں گم تھا اورحقے کے گہرے گہرے کش لگا رہا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں