والدین کی طرف سے بچے کے دل و ذہن میں راسخ کیے گئے ندامت  کے احساسات بڑے ہونے پر ختم نہیں ہوتے بلکہ مزید پختہ ہوئے ہوتے ہیں 

والدین کی طرف سے بچے کے دل و ذہن میں راسخ کیے گئے ندامت  کے احساسات بڑے ہونے ...
 والدین کی طرف سے بچے کے دل و ذہن میں راسخ کیے گئے ندامت  کے احساسات بڑے ہونے پر ختم نہیں ہوتے بلکہ مزید پختہ ہوئے ہوتے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:77
بچپن میں والدین کی طرف سے بچے کے دل و ذہن میں راسخ کیے گئے ندامت و شرمندگی کے احساسات بڑے ہونے پر ختم نہیں ہوتے بلکہ مزید پختہ ہوئے ہوتے ہیں۔ میرے ایک52سالہ دوست نے ایک غیرمذہب کی خاتون کے ساتھ شادی کی ہوئی ہے اور اس نے اپنی یہ شادی اپنی ماں سے خفیہ رکھی ہوئی ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اس کی ماں اس کی بیوی کو مار ڈالے گی۔ وہ اپنی ماں سے علیٰحدہ ایک مکمل گھر میں رہتا ہے اور اپنی 85 سالہ ماں سے ملنے صرف اتوار کو ہی اس کے گھر جاتا ہے۔ اس کی ماں کو یہ نہیں معلوم کہ اس کے بیٹے نے شادی کی ہوئی ہے اور اس کا ایک مکمل علیٰحدہ گھر بھی موجود ہے۔ میرا یہ دوست ایک غیرمذہب کی خاتون کے ساتھ شادی کرنے کے حوالے سے ڈر، خوف اورندامت و پشیمانی میں مبتلا رہتا ہے۔ حالانکہ میرا یہ دوست بہت ہی پرکشش اور ذمہ دار شخصیت کا مالک ہے اور پیشہ وارانہ طور پر بہت ہی کامیاب ہے لیکن پھر بھی جذباتی طور پر اپنی ماں کے زیراثر ہے۔ ہر روز وہ اپنے دفتر سے اپنی ماں کو فون کرتا ہے اور اپنے کنوارپنے ہی کے تصور سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔
معاشرے کے باغی شخص کو اس کے معاشرتی مقام پر رکھنے کے لیے والدین اور خاندانی تعلقات اسے شرمندگی اور ندامت کے احساسات میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ مندرجہ بالا مثالیں اس معاشرتی اور خاندانی رویے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں جس کے ذریعے بیٹے یا بیٹی کو شرمندگی اور ندامت کے احساس میں مبتلا کر دیا جاتا ہے (ماضی کے ایک واقعے کے باعث موجودہ لمحے (حال) میں غیرمناسب اور بے عملی)۔
محبوب / شریک حیات سے متعلق ندامت / پریشانی
”اگر تمہیں مجھ سے پیار ہوتا“ پر مبنی رویہ اورطرزعمل ہے جس کے ذریعے ایک محبوب خواہ مخواہ شرمندگی اورندامت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یہ ترکیب خاص طور پر اس وقت آزمائی جاتی ہے جب ایک ساتھی دوسرے ساتھی کو ایک مخصوص روئیے کے باعث سزا دینا چاہتا ہے۔ جب ایک شخص کسی دوسرے شخص سے محبت حاصل نہیں کر پاتا تو وہ اپنے احساس شرمندگی اورندامت کے ذریعے خود کو مطمئن کر لیتاہے کیونکہ کسی دوسرے شخص کی محبت حاصل نہ کرنے پر اسے لازمی طور پر شرمندگی محسوس کرنا چاہیے۔
شرمندگی محسوس کرنے کے لیے بعض و کینے کی اپنائیت، طویل خاموشی اور زخمی نگاہیں بہترین طریقوں کی حیثیت رکھتی ہیں مثلاً: ”میں تم سے بات نہیں کر رہا“ یا ”میرے نزدیک مت آؤ، جو کچھ تم نے میرے ساتھ کیا ہے، اس کے بعد تمہیں یہ کیسے توقع ہے کہ میں تمہارے ساتھ محبت آمیز رویہ اختیار کروں گا۔“ ایک شخص (ساتھی) کی طرف سے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے یہ بہت ہی عام اور مشہور تراکیب ہیں۔
عام طور پر کسی واقعے کے سالہا سال کے بعد ایک ایسے روئیے اور طرزعمل کو دوبارہ تازہ کیا جاتا ہے تاکہ دوسرا شخص اپنے حالیہ لمحے (حال) میں شرمندگی اور ندامت محسوس کرے۔ مثلاً ”مت بھولو کہ تم نے 1957 میں کیا کیا تھا“ یا”جب تم نے اس وقت مجھے دھوکا دیا تو پھر اب میں تم پر کس طرح یقین کر سکتا ہوں؟“ اس طریقے کے ذریعے ایک شخص دوسرے شخص کے موجودہ لمحات (حال) کو ماضی کا حوالہ دے کر تباہ و برباد کر سکتا ہے۔ اگر ایک ساتھی بالآخر ایک واقعے کو بھول چکا ہوتا ہے تو پھر دوسرا ساتھی وقفے وقفے سے اسے یہ واقعہ یاد دلا کر اس کی شرمندگی وندامت کو اس کے حالیہ لمحات (حال) میں بھی زندہ رکھ سکتا ہے۔ رومانی تعلقات کے حوالے سے ایک ساتھی کو دوسرے ساتھی کے مطالبات منظورکرنے اور اسے ہمنوا بنانے کے لیے بھی ندامت اورشرمندگی کو کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ”اگر تم سمجھتے تھے کہ تمہارا قصور ہے تو مجھے بلا لیتے۔“ یا ”تیسری دفعہ میں نے کوڑاکرکٹ صاف کیا ہے، میرا خیال ہے کہ تم اپنا کام نہیں کرنا چاہیے۔“ اس روئیے اورطرزعمل کا مقصد کیا ہے؟ مقصد یہ ہے کہ دوسرے ساتھی کو شرمندگی اور ندامت میں مبتلا کر کے اسے اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کیا جائے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -