دوسری شادی، کچھ دیگر حقائق   (حصہ دوئم)

  دوسری شادی، کچھ دیگر حقائق   (حصہ دوئم)
  دوسری شادی، کچھ دیگر حقائق   (حصہ دوئم)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

”دوسری شادی“ کے عنوان سے لکھے گئے کالم کی بہت سے صاحبانِ عقل و خرد نے ستائش کی۔ بہت سے دلچسپ کمنٹس پڑھنے کو ملے، صنف نازک کی طرف سے تو اسے توصیف و ستائش کا ملنا فطری سا تھا ہی، مگر کچھ دوستوں نے اپنا الگ نقطہ نظر بھی بیان کیا، جس کی میں قدر کرتا ہوں۔ اس کالم کے تناظر میں جو سوال اُٹھائے گئے ہیں،ان کا مختصر جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری شادی والا کالم ایک ٹی وی ڈرامہ ”بسمل“ میں ایک امیر آدمی کا ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ معاشقہ اور پھر نکاح اور اس کے مابعد اثرات سے متعلقہ تھا۔ہم نے قرآن و سنت کی روشنی میں دوسری شادی کے بعد تمام بیویوں میں عدل کر نے کی اہمیت پر زور دیا۔ نکاح ثانی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بعض اوقات مرد اتنا مجبور ہو جاتا ہے کہ اسے دوسری شادی کرنی پڑتی ہے۔ یہ مجبوری پہلی بیوی کا بانجھ پن ہو، یا اسکی کوئی دائمی بیماری،اس کے روئیے اور مزاج کا ہو، یا شکل و صورت کا ہو، یا اولادِ نرینہ کی بے قابو خواہش کا غلبہ، سبھی اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں اور ان وجوہات کی بنا پر مرد کا نکاح ثانی کوئی اچنبھے کی بات نہیں لگتی،اسی طرح یہ حق عورت کو بھی ہے، کہ اگر مرد اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں، یا بد مزاج اور ظالم ہے،یا اس کی شکل و صورت عورت کو پسند نہیں تو وہ بھی اس سے آزاد ہو کر نکاح ثانی کی آپشن لے سکتی ہے۔اگر عورت کی مرضی کے خلاف نکاح نہیں ہو سکتا تو عورت کو جبری نکاح میں روکا بھی نہیں جاسکتا۔ آقا کریم ؐ کی زندگی میں جب ایک عورت نے آکر کہا کہ اِسے اُس کا خاوند پسند نہیں تو آپ ؐنے خلع پر وہ نکاح ختم کر دیا اور عورت نے وہ باغ اپنے خاوند کا واپس کر دیا جو اسے حق مہر میں ملا تھا۔ہمارے ملک میں فیملی مقدمات میں عورت کا ہی پلڑا بھاری رہتا ہے کہ ہمارے عائلی قوانین واضح طور پر   women oriented  ہیں اور مرد عدالت میں اکثر کمزور، بلکہ بیچارہ سا نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں طلاق اور مرد کے دوسری عورتوں کی طرف راغب ہونے کی کافی وجوہات ہیں اور ان میں سب سے نمایاں مرد اور عورت کی ذہنی، سماجی اور معاشی ہم آہنگی یا compatibility کا فقدان ہے۔مرد اور عورت میں صرف جسمانی یا physical تعلق کا نام تو شادی نہیں ہے۔ شادی ایک ایسا سماجی بندھن ہے، جس میں مرد اور عورت دو قابل اعتماد دوستوں کی طرح سماج اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرتے ہیں،انتہائی مشکل حالات میں زندگی کے تنے ہوئے رسے پر بلکہ نشیب و فراز میں ہاتھ میں ہاتھ دیکر آگے بڑھتے ہیں۔زندگی کو کسی ضابطہ اور ڈسپلن میں گزارنا، باہمی محبت، احترام اور اعتماد اور اولاد کی درست نہج پر پرورش ایک شادی کو کامیاب بنا دیتے ہیں۔یہ شادی اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک مرد اور عورت میں اعتماد کا رشتہ برقرار رہتا ہے یا کوئی ایک فریق قربانی کے جذبہ سےcompromise کئے رکھتا یا رکھتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی بیوہ عورتیں ہیں،جو نکاح ثانی کی فطری خواہش رکھنے کے باوجود ایسا نہیں کر پاتیں کہ  خاندان کے اندر سے ہی کسی نکھٹو یا حریص کی بدحواسانہ نظروں کا شکار ہو کر وہ بیوہ نکاح ثانی بھی نہیں کر پاتی۔ بعض اوقات خاندانی جایئداد بچانے کے لئے اسے کسی کم سن یا بوڑھے کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے۔پھر اسی سے ملتا جلتا معاملہ مطلقہ عورتوں کا بھی ہے۔ان کو بھی اگر برابر کے حقوق دیکر ان سے نکاح کر لیا جائے تو معاشرہ میں بہت راحت و آسودگی آ جائے۔

ہمارا معاشرہ خصوصاً ہماری خواتین بھی عجب مخمصہ کا شکار ہیں۔ کہ خاوند یا مرد کا معاشقہ قبول ہے،مگر نکاح ثانی نہیں۔اب پھر واپس اسی نکتہ کی طرف چلتے ہیں، کہ ہمارے ہاں خصوصاً سنٹرل پنجاب میں جہاں ہندو تہذیب کے اثرات زیادہ نمایاں ہیں، وہاں نکاح ثانی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ پہلی بیوی کی طرف سے تو Reaction آنا ہی ہوتا ہے، اولاد اگر grown up ہو تو اس کی طرف سے زیادہ بھرپور رد عمل آتا ہے۔ پہلی بیوی اگر صحتمند ہو اور ساتھ ہتھ چھٹ بھی ہو تو وہ بقلم خود بھی مرد کی چھترول کر لیتی ہے۔دوست احباب اور رشتہ دار بھی عموماً نکاح ثانی کی مزاحمت ہی کرتے ہیں۔لہٰذا سواری اپنے سامان کی خود حفاظت کرے، کے مصداق دوسری شادی کی خواہش رکھنے والے اپنے Risk پر ہی ایسا کر سکتے ہیں۔ ویسے دوسری شادی کا حوصلہ رکھنا الگ بات ہے اور اس کی خواہش رکھنا دوسری بات اور خواہش رکھنا تو جرم نہیں۔ البتہ جو کام شریعت میں جرم نہیں، وہ ہمارے پاکستان میں جرم ہے۔ مسلم فیملی لاز آرڈیننس1961کی دفعہ6 کے مطابق پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کرنے کیلئے متعلقہ یونین کونسل جسے arbitration council یا مصالحتی کونسل کا نام دیا گیا ہے، کی اجازت سے ممکن ہے۔ اسے غلط طور پر پہلی بیوی کی اجازت سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ کونسل فریقین کا موقف سننے کے بعد ہی یہ اجازت نامہ جاری کرتی ہے اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں ایک سال تک قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے۔ہمارے ہاں مرد حضرات نکاح ثانی والا ایڈونچر اکثر چھپ چھپا کر کرتے ہیں اور اسی وجہ سے متذکرہ قانون کی تعزیری دفعات کا سامنا کرتے ہیں۔ میرا عدالتی تجربہ بتاتا ہے کہ اس قانون کی زد میں جو بھی آتا ہے، وہ سزا ہی پاتا ہے۔ اس لئے احتیاط لازم ہے، کیونکہ مرد کو دوسری شادی کا جب خبط سر پر سوار ہوتا ہے تو وہ اس طرح کی اجازت کے چکر میں کم ہی پڑتا ہے۔ذرا ہلکے پھلکے انداز میں بات کریں تو ہمارے ہاں ہر صاحبِ دِل، صاحبِ ثروت یا بارسوخ آدمی کے دِل کے نہاں خانوں میں کہیں نہ کہیں کوئی ”معصومہ“ موجود ہوتی ہے اور یہ سب کچھ عین فطری ہے،جو لوگ دوسری شادی بوجہ مجبوری یا شوق کرنے کا واضح رحجان یا خواہش رکھتے ہیں، وہ اگر نکاح ثانی کے بکھیڑوں میں پڑنے سے پہلے اگر پہلی بیوی کو اعتماد میں لے لیں، جو کہ اتنا آسان کام نہیں،اور ہمارے ہاں ”سوکن“کا نام تو دیوار پر لکھا بھی digest نہیں ہوتا۔ بہرحال اگر کوئی قابل قبول فارمولہ بن جائے تو گھر بھی بچ سکتا ہے اور سزا سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ دوسری شادی کرنا نہ معیوب ہے،نہ گناہ، مگر اسکے مابعد اثرات سے نبٹنا، پہلی بیوی سے عدل کرنا، بکھری ہوئی اور آمادہ مخاصمت اولاد کو ہینڈل کرنا اصل امتحان ہے، جس میں بسمل ڈرامہ کے ہیرو توقیر کی طرح اکثر لوگ ناکام رہتے ہیں، اور اچھے خاصے آباد و شاد گھر کو اپنے ہاتھوں برباد کر لیتے ہیں۔ اس ساری گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ نکاح ثانی انتہائی ضرورت میں کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ تمام بیویوں میں عدل ممکن ہو سکے۔ 

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -