الیکشن نتائج اور شبہات
2018ء کے انتخابات کے بعد 8 فروری 2024ء کو ہونے والے عام انتخابات بہت انضباط سے منعقد ہوئے اور انتخابات کے دوران مجموعی طور پر، امن و امان قائم رہا۔ اس پر امن انتخابات کا سہرا ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جاتا ہے اور ستائش ہماری فوج، پولیس، اور ہر ادارے کو جاتی ہے جنہوں نے انتخابات کے دوران امن فراہمی میں اپنا کردار ادا کیا۔ کور کمانڈرز کانفرنس کے دوران، فوج کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل حافظ سید عاصم منیر نے واضح طور پر کہ دیا کہ کسی بھی صورتحال میں انتخابات ملتوی نہیں ہوں گے، اور پاکستانی فوج الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق اپنی ذمہ داریاں انجام دے گی۔
وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے انتخابی عمل میں خلل ڈالنے کی کوشش کی گئی اور عام انتخابات کے دن ملک میں دہشتگردی کے 61 واقعات ہوئے، جن میں 16 افراد شہید اور54 زخمی ہوئے۔وزارت داخلہ کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیکیورٹی پلان تشکیل دیا تھا۔ تمام حفاظتی اقدامات عوام کی سلامتی اور تحفظ کے مفاد میں کیے گئے۔ الیکشن کمیشن تنقید کے بجائے تعریف اور ستائش کا مستحق ہے۔
عام انتخابات کے نتائج کی بات کریں تو الیکشن میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے مجموعی طور پر ملک بھر میں میدان مارا ہے اور پاکستان مسلم لیگ ن دوسرے نمبر پر رہی۔ٹرن آؤٹ الیکشن سے قبل بہت کم رہنے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے مطابق الیکشن 2024ء میں ووٹرز بڑھے ہیں لیکن ٹرن آؤٹ کم ہوا ہے۔
فافن کی رپورٹ کے مطابق ملک میں کل 12 کروڑ 66 لاکھ 50 ہزار 183ووٹ رجسٹرڈ تھے جن میں سے قومی اسمبلی کی 263 نشستوں پر 6 کروڑ 5 لاکھ 8 ہزار 212 ووٹ کاسٹ ہوئے اور ووٹنگ کا تناسب 47.8 فیصد رہا جب کہ گزشتہ الیکشن میں ٹرن آؤٹ 52 فیصد تھا۔اب یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں اور ملک کی خاطر ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے حکومت سازی کا عمل انجام دیں کیونکہ پاکستان الیکشن کا انعقاد روز روز کرانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پاکستان ایک کثیر سیاسی جماعتیں رکھنے والا ملک ہے اور ہر جماعت کا اپنا منشور اور آئین ہے جس کے مطابق وہ انتخابات میں حصّہ لیتی ہیں۔ کچھ کامیاب ہوتی ہیں جبکہ کچھ ناکام رہتی ہیں،اس لئے پاکستان میں کسی ایک جماعت کیلئے حکومت بنانا آسان نہیں ہے لہٰذا ایک دوسرے کے امیدواروں کو اپنی جانب لبھانے کی بجائے اگر تعاون کی سیاست کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
جمہوری طریقہ کار میں فیصلہ ہمیشہ اکثریت کی مرضی سے ہوتا ہے اور چھوٹی جماعتیں مختلف اتحادوں کا حصہ بن جاتی ہیں کیونکہ موجودہ انتخابات میں کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت نہیں لے سکی تو میرے خیال میں مخلوط حکومت ہی ایک واحد آپشن رہ جاتا ہے۔دوسرے آخر میں میں الیکشن کمیشن کو یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ الیکشن رزلٹ کا طریقہ کار اب بدلنا کو گا۔2018ء میں ہم نے دیکھا کہ آر ٹی ایس بیٹھ گیا جس نے الیکشن کے نتائج پر شکوک و شبہات پیدا کئے اور دھاندلی کا الزام لگا جس نے الیکشن عمل کو ہی مشکوک کر دیا اور لوگوں کا جمہوری عمل سے ہی اعتبار اٹھ گیا جس کی وجہ سے اس بار ووٹرز بڑھنے کے باوجود الیکشن میں ٹرن آؤٹ کم ہوا اور 2024ء کے انتخابات بھی نتائج اور دھاندلی کے حوالے سے 2018ء کے انتخابات کا ری پلے ہی ثابت ہوئے ہیں۔الیکشن کمیشن کو ایسا نظام وضع کرنا ہو گا کہ نتائج تاخیر کا شکار نہ ہوں جس کی وجہ سے لوگوں کا جمہوری عمل پر اعتماد قائم ہو اور انہیں توقع ہو کہ وہ اگر کسی جماعت کو ووٹ ڈالیں گے تو وہ ان کا ووٹ اسی جماعت کے امیدوار کو ہی ملے گا یہ نہیں ہو گا کہ رات کو نتائج کچھ ہوں گے اور الیکشن کے اگلے دن نتائج بدل جائیں گے جیسا کہ حالیہ الیکشن میں ہمیں دیکھنے کو ملا کہ ابتدا میں جو امیدوار جیت رہا تھا جب وہ خوشی سے مٹھائیاں بانٹ کر سو گیا تو صبح پتہ چلا کہ وہ تو بھاری مارجن سے ہار چکا ہے۔میں خود اس بات کا شاہد ہوں اور میں صرف ایک حلقے کی مثال دینا چاہوں گا حلقہ این اے 132 قصور جہاں سے بڑے بھائی علامہ ابتسام الٰہی ظہیر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے، فارم 45 جو انہوں نے متعلقہ آر او ز سے لئے ان پر آر اوز کے دستخط موجود ہیں ان کے مطابق انہیں 65000ووٹ پڑے لیکن جب اگلے دن الیکشن کمیشن نے فارم 47 جاری کیا تو ان کے ہزاروں ووٹ کم کر دیئے۔ اس طرح کے تضادات سے شکوک و شبہات سے بچنا ہو گا تاکہ لوگوں کا جمہوری و سیاسی عمل پر اعتبار و اعتماد قائم ہو وگرنہ الیکشن ایک فضول مشق بن کر رہ جائیں گے جس کے ثمرات اشرافیہ تو سمیٹ لے گی لیکن نچلے سطح پر بے چینی بڑھے گی جو کسی دن لاوے کی صورت میں پھٹ سکتی ہے۔