صرف دو ہفتے انتظار ورنہ ہر شہر میں احتجاج

قارئین کرام آج میں آپ کے سامنے کچھ خبروں کے پس ِ پردہ حقائق اور اس کے نتیجے میں بننے والی کچھ نئی خبریں رکھنا چاہتی ہوں،لیکن ایک مسئلہ ہے کہ اگر کوئی نئی خبر پیش کروں تو کچھ لوگ یہ شور مچا دیتے ہیں کہ یہ آپ کی بیٹ ہی نہیں ہے آپ نے یہ خبر کیسے دی۔ایسی باتیں کرنے والوں پر ایک بات واضع کر دینا چاہتی ہوں کہ صحافی کی کوئی بیٹ نہیں ہوتی اسے جس جگہ سے جیسی خبر ملے وہ خبر اپنے قارئین تک پہنچانا اس کی اولین ذمہ داری ہے اس میں کسی کی بیٹ ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا،کیونکہ صحافی کے لئے خبر اہم ہوتی ہے اور وہ خبر دینے کا پابند ہوتا ہے۔
سب سے پہلے ہم ان خبروں کا جائزہ لیتے ہیں جو آج کل چل رہی ہیں جیسے آئی ایم ایف کا وفد قرضے کے معاملات طے کرنے کے لئے پاکستان آیا ہوا ہے وہ ملکی اہم شعبوں کا جائزہ لے کر قرض دینے کا فیصلہ کرے گا۔ دوسری خبر عمران خان کے خطوط کے متعلق ہے جو دراصل اس وفد کو بتانے کے لئے ہیں جو آج کل پاکستان کے دورے پر ہے ویسے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان آرمی چیف یا چیف جسٹس کو خطوط لکھنے کی بجائے عوام کے نام خط لکھیں۔یہ خبریں بھی پھیلائی جا رہی ہیں کہ عمران خان کو جیل میں کوئی بیماری لگ گئی ہے،لیکن اس خبر میں بھی کوئی صداقت نہیں وہ بالکل تندرست اور توانا ہیں۔اسلام آباد کے حلقوں میں یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ ن لیگ کے ایم این ایز شہباز شریف سے ناراض ہیں جس کی شکایت انہوں نے نواز شریف سے کی ہے اور نواز شریف نے سیاسی معاملات کو خود دیکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔خیال کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی مداخلت کے باعث ممکن ہے وفاق اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کو حکومت میں حصہ دیا جائے۔
اب بیرونی ممالک کی پاکستانی معاملات میں دلچسپی کا جائزہ لیتے ہیں۔بتایا جا رہا ہے پاکستان کے نامساعد حالات پر ٹرمپ نے امریکہ میں پاکستانی سفیر کو اہم پیغام دیا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ دو ہفتے تک ٹرمپ زلمے خلیل زاد یا رچرڈ گرینیل کو افغانستان اور پاکستان سے بات چیت کرنے کے لئے بھیجیں گے۔اسلام آباد کے حلقوں میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ اِس دورے سے پہلے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے مذاکرات کا سلسلہ بحال کریں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے گرفتار متعدد افراد کو جیلوں سے رہا کر دیا جائے۔
ٹرمپ کسی ملک کے خلاف فوجی کارروائی کی بجائے معاشی دباؤ ڈالنے کے عادی ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو وارننگ دی تھی پاکستان نے اِس پر کان نہیں دھرے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے معاشی جائزہ مشن کا دورہ ملتوی کر دیا گیا ہے یہ مشن اب20فروری کے بعد آئے گا۔آج کل جو وفد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے وہ معاشی جائزہ مشن نہیں ہے بلکہ یہ سپیشل مانیٹرنگ ٹیم ہے جو پاکستان میں جمہوری، آئینی، عدالتی، انسانی حقوق اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ تیار کرے گی اس ٹیم کے دورے کے باعث مذاکرات دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سپیشل مانیٹرنگ ٹیم الیکشن میں فارم45اور فارم47 کے معاملات کے ساتھ ساتھ 9مئی اور26 مئی کے واقعات کے متعلق بھی معلومات حاصل کرے گی۔
اسلام آباد کے حلقوں میں اس ٹیم کے دورے سے بھونچال سا آیا ہوا ہے اور اسے شہباز حکومت کے لئے بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔بتایا گیا ہے کہ اگر سپیشل مانیٹرنگ ٹیم نے منفی رپورٹ دی تو آئی ایم ایف کی مارچ میں ملنے والی قسط کھٹائی میں پڑ سکتی ہے اور ملک شدید معاشی دباؤ میں جا سکتا ہے جس کا سٹاک مارکیٹ پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے اس کے نتیجے میں کیونکہ ڈالر بھی مہنگا ہو سکتا ہے تو ممکن ہے سرمایہ کار اپنا سرمایہ سٹاک مارکیٹ سے نکال کر ڈالر خریدنا شروع کر دیں جس سے ڈالر نایاب ہو سکتا ہے۔ امریکہ کی طرف سے یہ بھی پیغام آیا ہے کہ بجلی کمپنیوں کا گردشی قرضہ417ارب روپے سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے جو اِس وقت بے تحاشا بڑھ چکا ہے۔
کہا جا رہا ہے ٹرمپ پاکستان میں جمہوریت کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ایک حلقے کا یہ کہنا ہے کہ امداد صرف جمہوری ممالک کو مل سکتی ہے آمریت امداد کی مستحق نہیں ہے۔یہ باتیں بھی گردش میں ہیں کہ آئندہ چند روز انتہائی اہم ہیں جن میں پی ٹی آئی کو خاصا ریلیف مل سکتا ہے،نئے الیکشن پربھی بات ہو سکتی ہے۔ممکن ہے نئے ججوں کی تقرری بھی موخر ہو جائے۔دوسری طرف عمران خان نے یہ حکمت عملی بنائی ہے کہ پس ِ پردہ ہونے والے معاملات کی وجہ سے وہ دو ہفتے انتظار کریں گے اگر حالات بہتر نہیں ہوتے تو وہ احتجاج کی کال دے سکتے ہیں جو اب ڈی چوک کی بجائے ہر شہر میں کیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭