علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر6

علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر6
علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر6

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: پیر ابو نعمان

یہ فقر کی اختیاری راہ تھی۔ فقر میں فقیری اور فقیری میں توکل موجود ہو تو سالک وصل الٰہی کی راہوں پر کامیابی سے چل پڑتا ہے۔ فقیری کی طلب و تڑپ کے متمنی سالکین بہت ہوتے ہیں لیکن استقامت قائم رہے تو اس میں معراج بھی حاصل ہوتی ہے۔ فقیر رضا کا طالب ہوتا ہے اور ظاہری دنیاوی اسباب میں اس کا سفینہ ہمیشہ طوفانوں سے ٹکراتارہتا ہے۔ پیر محمد رمضان نے اپنے مرشد حجتہ الاسلام حضرت شیخ پیر محمد عابد حسین سیفی کے حکم کی تعمیل کرکے اس گر کو پا لیا تھا۔
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہاں
اور جیسا کہ اقبالؒ نے فرمایا
فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ
فقر میں قلب و نگاہ کی پاکیزگی ، شرم و حیا اور جاہ و حشم و نمود و نمائش سے اغراض مقصود ہوتا ہے۔ اپنے مرشد جیسے دانائے راہ طریقت کو فقر کی راہ پر ایثار و استقامت کا نمونہ بن کر دکھایا تو شیخ نے فرمایا ’’رمضان تم نے وہ راہ چُنی ہے جو انبیاء اولیاء کا طریق رہا ہے۔ تم نے مال و متاع سے رغبت چھوڑ کر لاہور میں ہجرت کی ہے تو یاد رکھو داتا کی نگری میں جس عظیم مقصد کی خاطر اپنے اسباب چھوڑ کر دین حق کی ترویج کے لیے آئے ہو تم یقیناً اللہ کی رضا سے کامیابی حاصل کرو گے۔‘‘

علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر5  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ابونعمان پیر محمد رمضان ہجرت کے ان لمحات کو یاد کرتے ہیں تو آنکھیں نم اور لہجہ گلوگیر ہو جاتا ہے۔ ’’سخت سردی تھی نہ چادر، کمبل، رضائی تھی، نہ بستر پر بچھونا ، کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ چولہا کہاں جلتا، کچھ بھی ساتھ نہ لایا تھا ۔ صرف اپنے مرشد کے حکم پر سر گرا کر اختیاری فقر اپنایا تھا۔ اس وقت ہمارے ایک عقیدت مند تھے رانا محمد صفدر۔۔۔انہوں نے پانچ ہزار روپے کرایہ پر سٹریٹ نمبر16حسنین آباد میں گھر لے کر دیا۔ کچھ اور عقیدت مند تھے۔ وہ تندور سے روٹیاں لاتے، برتن تو تھے نہیں، روٹی ہاتھ میں پکڑتے اور بچوں میں بانٹ دیتے۔ سوکھی روٹیاں، پانی میں بھگو کر کھا لیتے یا نمک لگا کر کھا لیتے ۔۔۔ اس وقت مجھے یورک ایسڈ اور شوگر کی پرابلم تھی ۔۔۔اس فقر نے یہ بیماری ختم کر دی ۔ یہ فقر امتحان تھا اور مین نے جان و مال نثار کرکے رضا الٰہی پانے کی خواہش پا لی ہوئی تھی ۔۔۔ حسنین آباد میں قیام اختیار کرتے ہی میں نے اپنے مرشد کریم کے حضور پیش ہو کر اپنی آمد سے مطلع کر دیا اور آپ میرے کرایہ کے گھر تشریف لائے اور مجھے دعا دی ’’رمضان اللہ کریم تمہاری قربانی کو قبول فرمائے اور یہیں تمہیں اپنی مستقل رہائش عطا فرمائے۔‘‘ مرشد کریم نے مجھے کرایہ کے گھر میں ہی بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینے کا حکم دیا ۔ یوں مدرسہ جامع جیلانیہ کا آغاز کر دیا گیا۔
اس وقت میرے پاس پانچ سو روپے تھے۔ میں نے اپنے مرشد کریم کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ مرشد کریم نے یہ پیسے محبت سے مجھے واپس دے دیئے۔ ایک روز علامہ خواجہ محمد رفیق نوری میرے پاس تشریف لائے۔ ان سے دیرینہ تعلقات تھے۔وہ عمیق نگاہی سے میرے گھر اور معاملات کا جائزہ لیتے رہے اور پھر کہنے لگے ’’رمضان صاحب! آپ نے اپنے مرشد کے کہنے پر سارا کاروبار اور اچھا طرز زندگی چھوڑ کر لاہور میں نہایت عسرت زدہ زندگی اختیار کی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ واپس گاؤں چلے جائیں۔ اللہ نے آپ کو وعظ کی خصوصیات عطا کی ہیں۔ آپ وہاں بھی آستانہ بنا سکتے ہیں لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ کہ آپ کا گزارہ کیسے ہوگا۔۔۔‘‘
میں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کہتے رہے ’’آپ نے لنگر بھی شروع کر دیا ہے آپ یہ لنگر بند کر دیں تاکہ کچھ پس انداز ہو۔‘‘
اس وقت رات کے ساڑھے تین بجے تھے۔ میں نے عرض کی ’’حضور، اللہ نے مجھے دل بھی کھلا دیا ہے اور میں لنگر بھی کھلا رکھوں گا۔دعا کریں اللہ مجھے مزید استقامت عطا فرمائے۔‘‘
’’حضرت آپ کے مرشد نے آپ کی مالی مدد بھی فرمائی ہے کوئی؟‘‘ علامہ نوری نے سوال کیا۔
’’یہ سب ان کی دعا سے مل رہا ہے علامہ صاحب‘‘ میں نے عرض کی۔ ’’میں نے اپنے مرشد کو پانچ سوروپے خدمت کے طور پر دیئے تو آپ نے مجھے وہ واپس کر دیئے اور ڈھیروں دعائیں دیں۔‘‘
’’صرف دعا ئیں۔۔۔‘‘ علامہ نوری نے تعجب سے کہا ’’اس میں کیا کمال ہے ۔ آپ نے جو خدمت کی وہ انہوں نے واپس دے دی۔ کمال تو یہ تھا کہ وہ اپنے پاس سے پیسے دیتے، بیس تیس ہزار دیتے تو آپ کی بے سرو سامانی ختم ہوجاتی،عزت نفس بچ جاتی۔۔۔‘‘
’’حضور والا ۔۔۔‘‘ میں نے کہا’’سرکار مجھے بیٹا بیٹا کہہ کر پکارتے ہیں۔ مجھ جیسے گنہگار کو بیعت فرمایا ہے۔ سینے سے لگا رکھا ہے ۔۔۔یہ بہت بڑا کمال ہے۔‘‘
’’سبحان اللہ مرید ہو تو ایسا ۔۔۔‘‘ علامہ صاحب مسکرائے ۔۔۔ ’’دراصل میں چیک کر رہا تھا کہ آپ نے اختیاری فقر اختیار کیا ہے تو آپ کہیں کسی طمع یا دکھاوے کی لت میں مبتلا تو نہیں تھے۔ یقیناً آپ کا توکل بہت مضبوط ہے۔ آپ کی اپنے مرشد سے والہانہ محبت اور آپ کا یقین کامل ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں آپ یہ بازی جیت جائیں گے۔‘‘
علامہ نوری صاحب کے علاوہ میرے گاؤں سے دوست احباب وغیرہ بھی میری حالت دیکھنے آتے اور الحمد اللہ مجھے صابر و شاکر دیکھتے تو دعائیں دے کر واپس چلے جاتے۔ ان دنوں عالم یہ ہوتا کہ گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ ہوتا۔ بچوں کے لیے دودھ کا بندوبست کرنا دوبھر تھا۔ قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے لیے لنگر کا بندوبست بھی کرنا مشکل ہوتا تھا۔ لیکن میرے لئے کھانے کے لیے بندوبست کرنے کے اسباب نہیں تھے۔ میرے مرشد فرماتے تھے ’’رمضان بیٹا ۔۔۔جو اللہ کے دین کا کام کرتا ہے اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے اور توکل اللہ زندگی گزارتا ہے، اللہ کریم اس کو خزانہ غیب سے ایسا نوازتا ہے کہ بندہ اس کا گمان بھی نہیں کر سکتا۔ ‘‘ حقیقت بھی یہی ہے۔ اللہ کریم نے ایسے احباب کے ذریعہ اسباب پیدا کئے جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔ سرکار فرماتے ہیں ’’اللہ کی راہ میں چلنے والوں کی اللہ اپنے خاص بندوں کے ذریعہ مدد فرماتا ہے۔‘‘ بندے کا اللہ پر جتنا توکل زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی نوازتا ہے۔ وہ ایسے لوگوں کے دلوں میں باتیں ڈال دیتا ہے کہ جاؤ میرے فلاں بندے کی مدد کرو۔۔۔حدیث پاک ﷺ کا مفہوم ہے جو اللہ کے کام میں لگ جاتا ہے اللہ اس کے کام میں لگ جاتا ہے۔
ایک روز جامعہ میں پکانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ رمضان المبارک کے دن تھے۔ میں مرشد حضور کی خدمت میں پیش ہوا اور عرض کی ’’حضور مدرسہ کے حالات بہت نازک ہیں۔ اخراجات کا دباؤ ہے۔ طلبہ طالبات کے لیے کھانے کا بندوبست نہیں ہے۔‘‘
آپ نے فرمایا ’’سرکار دو عالم ﷺ پہ سلام پیش کرو۔ اور یہ دعا پڑھا کرو۔‘‘ آپ نے جو دعا عطا کی اس کے بعد ہم پر رزق کی فراوانی ہونے لگی۔وہ دعایہ ہے۔
لا ملجاء ولا منجاء من اللہ الا الیہ
میرے مرشد نے فرمایا ’’جاؤ تم یہ دعا پڑھو۔ اور آج کے بعد تم جس کے لیے دعا کرو گے اسے شفا ہوگی، دوا دو گے شفا دے گی۔ قرآن کی آیات سے دم کرو گے ،تعویذات کرو گے۔ انشاء اللہ رب ذوالجلال میرے حضور نبی ﷺ کے واسطے تمہاری دعا قبول و منظور فرمائیں گے۔‘‘
سرکار اس وقت وجد کے عالم میں تھے۔آپ نے علم کا خزانہ مجھے عطا کردیا تھا۔ آپ کی دعا ختم ہوئی تھی کہ اس وقت ایک صاحب پکا پکایا کھانا لے کر آئے۔ ان صاحب کو ان سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ سرکار نے وہ سارا کھانا ہمیں عطا کیا کہ جاؤ جا کر بچوں کو کھلاؤ ۔۔۔الحمد اللہ میں نے اپنے مرشد کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو پورا ہوتے دیکھا ہے۔میرے مرشد نہایت سادہ ،حق گوفقیر ہیں۔
اب یہ عالم ہے ہم 2007ء سے نماز عصر سے مغرب تک یہ دعا بطور وظیفہ پڑھ رہے ہیں، بچیاں الگ، بچے الگ کھجور کی گٹھلیوں پر یہ وظیفہ پڑھتے ہیں اور اللہ اپنے اس گناہگار فقیر کو بے حساب عطا کررہا ہے ۔ ہماری دعاؤں کی لاج رکھتا ہے۔
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)

مزید :

درویش کامل -