کچھ اسٹیشن جنکشن بھی کہلاتے ہیں، گاڑیاں یہاں کچھ زیادہ وقت کیلیے رکتی ہیں،مسافر کچھ کھا پی لیتے ہیں اور محکمے والے ضروری کام نبٹا لیتے ہیں

مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:99
عمومی اسٹیشن اورجنکشن
کچھ اسٹیشن جنکشن بھی کہلاتے ہیں۔ اس کیلیے اسٹیشن کا بڑا ہونا ضروری نہیں ہوتا،اکثر یہ عام سے اسٹیشن ہی ہوتے ہیں جہاں سے مرکزی لائن کے علاوہ ایک یا ایک سے زیادہ برانچ لائنیں نکل کر مختلف اطراف کو روانہ ہو جاتی ہیں جن کے ذریعے مسافر اپنی حتمی منزلوں کی طرف جانے کے لیے گاڑی بدلتے ہیں۔
ایک جنکشن پر چونکہ بہت سارے مسافروں کو چڑھنا یا اترنا ہوتا ہے اس لیے گاڑیاں یہاں نسبتاً کچھ زیادہ وقت کے لیے رکتی ہیں۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسافر کچھ کھا پی لیتے ہیں اور محکمے والے کوئی ضروری کام نبٹا لیتے ہیں مثلاً وہ اس دوران گاڑی کے ڈبوں میں پانی بھر لیتے ہیں اور تکنیکی عملہ ٹھوک بجا کر گاڑی کی بریکوں کی جانچ پڑتال بھی کرلیتا ہے۔جب ان لائنوں پر بھاپ والی گاڑیاں چلا کرتی تھیں تو انجن گاڑی کو وہیں پلیٹ فارم پر چھوڑ کر تن تنہا کہیں آگے نکل جاتا اور قریبی ٹنکی سے پانی بھروا کر اور نہا دھو کر واپس آجاتا تھا۔
یہ ضروری نہیں کہ کوئی بڑا اسٹیشن جنکشن بھی ہوالبتہ کبھی کبھی جنکشن بھی بڑے اسٹیشن ہوتے ہیں۔ بڑے جنکشن سے چونکہ بہت سی گاڑیاں بن کر چلتی ہیں اس لیے اس کے اطراف میں ہر وقت گاڑیوں کی شنٹنگ کا عمل جاری رہتا ہے، یہاں خاص طور پر لوکو شیڈ بنے ہوتے ہیں جہاں انجنوں کی دیکھ بھال ہوتی ہے اورانھیں برانچ لائن پر چلنے والی گاڑیوں پر بھیجنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں گاڑیوں کی صفائی اور دھلائی کے لیے واشنگ لائن بھی ہوتی ہے۔
جنکشن پر جن لوگوں نے گاڑیاں بدلنا ہوتی ہیں وہ پْل پر سے گزر کر دوسرے پلیٹ فارم پر چلے جاتے ہیں جہاں وہ گاڑی کا یا گاڑی ان کا انتظار کر تی ہے۔ کچھ جنکشنوں پر گاڑی کا پچھلا عملہ اور بعض حالات میں انجن بھی بدل جاتا ہے۔ لاہور جیسے جنکشن سے بیک وقت کئی گاڑیاں مختلف شہروں کی طرف روانہ ہوتی ہیں،آنے جانے والی گاڑیوں کی مسلسل آمد ورفت کی وجہ سے وہاں پلیٹ فارم بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ لاہور اسٹیشن پر گیارہ پلیٹ فارم ہیں جو ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا اسٹیشن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مصروف ترین جنکشن بھی ہے۔
کبھی کبھار ایسابھی ہوتا ہے کہ مرکزی لائن کے پہلو میں چلتی ہوئی ایک برانچ لائن بھی اسٹیشن سے نکل کر ساتھ ہو لیتی ہے۔ ان پر چلنے والی دونوں گاڑیاں ایک ساتھ ہی اسٹیشن سے نکلتی ہیں اور پہلو بہ پہلو کئی کلومیٹر تک ساتھ ساتھ دوڑتی چلی جاتی ہیں یوں لگتا ہے جیسے ان کی آپس میں کوئی دوڑ لگی ہوئی ہوتی ہے۔تھوڑا آگے چل کر یک لخت جدائی کا مقام آجاتا ہے اور دونوں گاڑیاں روٹھے ہوئے دوستوں کی مانند آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے دوری اختیار کرتی ہوئی اپنی راہ لیتی ہیں۔ دونوں انجنوں کے ڈرائیور شرارتی انداز میں مسلسل وسل بجا کر رخصت طلب کرتے ہیں اور اپنا راستہ ماپتے ہیں۔ اس کے برعکس کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مطلوبہ برانچ لائن جنکشن سے کافی پیچھے رہ جاتی ہے اور مرکزی گاڑی کو تو چونکہ جنکشن پر ہی ٹھہرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں برانچ لائن والی گاڑی متوازی لائن پر واپس پیچھے کی طرف آتی ہے۔ مسافر لمحے بھر کو تو پریشان ہو جاتا ہے اور سوچنے لگتاہے کہ یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے۔ لیکن پھرکسی مناسب مقام سے وہ گاڑی اپنی نئی منزل کی طرف رخ موڑ لیتی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔