ہندو اور سکھ طالبعلموں سے پاکستان کی محبت میں گرماگرمی اور دو دو ہاتھ بھی کر بیٹھتے پھر انکے سامنے ”لے کے رہیں گے پاکستان“ کے نعرے لگاتے

مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط:8
گاؤں کے باہر بھاگتے دوڑتے ہرن دکھائی دیتے تھے۔ کچھ دیہاتی ان ہرنوں کا شکار بھی کرتے تھے۔ اس شکار نے رانا صاحب کو ہرن کا گوشت کھانے کا چسکا ڈال دیا۔ رانا صاحب پہلی جماعت میں داخل ہوئے تو ہندوستان کی تقسیم پر مباحثے جاری تھے۔ ہندو اور سکھ طالب علموں سے پاکستان کی محبت میں گرماگرمی اور دو دو ہاتھ بھی کر بیٹھتے تھے اور پھر ان کے سامنے ”لے کے رہیں گے پاکستان“ کے نعرے لگاتے تھے۔ قیامِ پاکستان پر ان کے والدین ہجرت کر کے آئے تو پورے راستے میں ہندو اور سکھ بلوائیوں کے حملے کا خوف قافلے کے دلوں کی دھڑکنیں تیز کرتا رہا۔ رانا صاحب کو اچھی طرح یاد ہے کہ پاک سرزمین پر قدم رکھتے ہی ان کے والدین اور خود رانا جی پاک وطن کی مٹی پر سجدہ ریز ہو گئے اور پورے قافلے نے یک زبان ہو کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔ کئی شہروں میں ٹھہرتے ٹھہراتے آخرکار ان کے والد جڑانوالہ میں آباد ہو گئے۔ اس وقت رانا صاحب کی عمر تقریباً سات برس تھی۔ یہ سب جان کر مجھ پر یہ راز آشکار ہوا کہ پاکستان سے جنوں رنگ محبت کی لازوال خوشبو اس جڑانوالیئے کی شخصی جڑوں تک کیوں مہک رہی ہے اور اس کے دل میں پاکستان سے عشق کا سدابہار جِڑیلا چمن کیوں کِھلا ہوا ہے۔
رانا امیر احمد خاں کے والد بزرگوار رانا بشیر احمد خان ہندوستان میں بنک آفیسر تھے۔ پاکستان میں بھی انہیں بطور بنک آفیسرملازمت مل گئی۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ایک بنک آفیسر نے لاہور، راولپنڈی، کراچی جیسے بڑے شہروں کو نظرانداز کر کے مستقل رہائش کے لیے جڑانوالہ جیسے قصباتی شہر کو کیوں ترجیح دی لیکن اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ان کے والد کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ بڑے بڑے شہروں میں تو بڑے بڑوں کے نام گوشہئ گمنامی سے باہر نہیں نکل پاتے۔ رانا صاحب کی سماجی اور قانونی خدمات کے حوالے سے جڑانوالہ جیسے چھوٹے شہر کے لوگ یقینا ان کے جڑانوالوی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہوں گے۔
رانا صاحب نے لڑکپن سے فلاحی کاموں کا آغاز کر دیا تھا۔ جڑانوالہ شہر سے دس میل دور ایک گاؤں میں گندے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں تھا اور گھروں کا گندا پانی گلیوں میں آوارہ گردی اور بدبو خوردی کرتا پھرتا تھا۔ پاکستان یوتھ موومنٹ میں رضاکارانہ کام کرتے ہوئے رانا صاحب نے 30 عدد کالجوں کے طلبا ء کو جمع کیا۔ مقامی ممبر اسمبلی سے ملے۔ کالج کے طلبا ء کا سماج سدھار جذبہ دیکھ کر اینٹیں مہیا کرنے کا وعدہ کر لیا۔ چندے کی رقم سے سیمنٹ اور مزدوروں کے پیسے پورے کئے گئے۔ ریت کے لیے پیسے نہیں بچے تو رانا صاحب بچہ پارٹی کے ہمراہ قریبی نہر پر چلے گئے اور کناروں کے قریب نہر میں اْتر کر بیلچوں سے ریت نکال نکال کر کنارے پر ڈھیر لگایا اور پھر اسے گاؤں پہنچایا۔ اس طرح گاؤں کا گندا منظر صاف ستھری نالیوں سے سج گیا۔ پھر نابالغ رانا نے دیکھا کہ گاؤں کے لوگ بیمار ہوں تو قریب قریب کوئی شفاخانہ نہیں ہے۔ کچے اور جھٹکے دار طویل راستے سے شہر کی طرف جاتے جاتے کئی مریض دم توڑ دیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر ان کے نابالغ ذہن میں وہ سوچ آئی جو گاؤں کے بالغوں کے ذہن میں بھی کبھی نہیں آئی تھی۔ رانا جی نے اپنی مدد آپ کے تحت گاؤں میں ڈسپنسری قائم کرنے کی مہم چلائی اور نتیجہ یہ کہ کچھ ہی عرصہ میں ان کی مہم کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور گاؤں میں ایک ڈسپنسری چالو ہو گئی اور بہت سے ایسے فلاحی کاموں کے ساتھ ان 2بڑے فلاحی منصوبوں کی کامیابی پر پورے گاؤں میں ہر طرف رانا رانا ہونے لگی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔