میرا کسان ڈیفالٹ کر گیا

         میرا کسان ڈیفالٹ کر گیا
         میرا کسان ڈیفالٹ کر گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  پاکستان ایک زرعی ملک ہے زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے زراعت پاکستان کی مستحکم معیشت کی ضمانت ہے زراعت یہ ہے زراعت وہ ہے ایسا بچپن سے مطالعہ پاکستان میں پڑھتے اور پی ٹی وی سے سنتے آ رہے ہیں بلا شبہ بہت سے ممالک نے اپنے ایگریکلچر سیکٹر پر توجہ دے کر ترقی کی ہے گزشتہ تین سالوں سے جو زراعت کا حال پاکستان میں ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا یہ کیسا زرعی ملک ہے جس میں گندم روس سے لہسن ادرک چائنہ سے آ لو پیاز ٹماٹر ایران سے اور فروٹ بھی باہر کے ممالک سے منگوائے جاتے ہیں۔

گزشتہ سال جب گرین پاکستان زرعی انقلاب کا سنا تو دل بہت خوش ہوا کہ ایک امید پیدا ہوئی کہ بہت جلد پاکستان زرعی مشکلات سے نکل جائے گا سبزیاں گندم چاول فروٹ لہسن پیاز اور دوسری اجناس میں پاکستان خود کفیل ہو جائے گا میرے ملک کی گندم میرے دیس کے لوگوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہو جائے گی لیکن معذرت کے ساتھ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا

جس طرح ایک کمپین چلا کر کسانوں کو 8500 روپے فی من کاٹن کی خریدداری کی گارنٹی دے کر حکومت نے کاٹن کاشت کروائی تھی جس پر زمیندار نے حکومت کی مقرر کردہ قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زمین پر محنت اور خرچہ کیا تھا اس کا حساب ملاحظہ فرمائیے ٹھیکہ زمین پچاس ہزار اوسط، زمین کی تیاری آٹھ ہزار،کھاد کا خرچہ بیس ہزار، پانی بارہ ہزار،سپرے اٹھارہ ہزار،جنرل خرچہ چار ہزار فی ایکڑ رہا کل ملا کر فی ایکڑ اخراجات ایک لاکھ بارہ ہزار روپے پیداوار فی ایکڑ بیس من اور قیمت 4500روپے فی من رہی یعنی کل آ مدن نوے ہزار فی ایکڑ نقصان 22ہزار اب جس کسان نے 20 ایکڑ کپاس کاشت کی تھی چھ ماہ کی محنت کے بعد اسے چار لاکھ چالیس ہزار کا نقصان اٹھانا پڑا اب آپ خود ہی سوچیں کہ ایک بیس ایکڑ کے چھوٹے زمیندار کو حکومتی خریداری کی گارنٹی پر ایک فصل سے چار پانچ لاکھ کا نقصان ہو گیا تو دوبارہ کاٹن جائے بھاڑ میں وہ کبھی کاٹن کی کاشت کی طرف نہیں جائے گا اگلی فصل مکئی کی رہی جس میں اخراجات کچھ یوں رہے زمین ٹھیکہ پچاس ہزار،بیچ پندرہ ہزار، زمین کی تیاری آٹھ ہزار،کھاد یوریا ڈی اے پی چا لیس ہزار، سپرے پنتا لیس سو، لیبر آٹھ ہزار، پانی بارہ ہزار، کل ملا کر فی ایکڑ اخراجات ایک لاکھ بیس ہزار روپے پیداوار فی ایکڑ ساٹھ من اور قیمت بارہ سو روپے فی من یعنی اخراجات ایک لاکھ بیس ہزار اور آمدن سا ٹھ ہزار کماد کی فصل کے حالات بھی کوئی مختلف نہیں رہے کل اخراجات ایک لاکھ 90ہزار فی ایکڑ پیداوا 600 من اور قیمت 425روپے فی من کل آ مدن دو لاکھ پچاس ہزار آ پ ہی بتائیں کہ کسان کہاں جائے ابھی گندم کی کاشت کا موسم ہے اس وقت مارکیٹ میں یوریا اور ڈی اے پی مافیا کے رحم و کرم پر ہے وہ من مانی قیمت وصول کر رہے ہیں بلیک مارکیٹ میں یوریاپانچ ہزار اور ڈی اے پی پندرہ ہزار روپے فی بیگ مل رہی ہے حکومت کی رٹ کہیں بھی نظر نہیں آ رہی جناب وزیراعلی ہوش کے ناخن لیں مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کریں کسانوں کو کھاد مہیا کریں اتنی سخت کاروائیاں کریں جتنی گندم کی خریداری کے وقت کسانوں کے خلاف کی گئی تھیں حیرت کی بات ہے کہ اگر حکومت گندم کی خریداری کے وقت کسانوں کے سر پر تلوار لٹکا کر خریداری کرتی ہے تو مکئی گنا اور کپاس بھی خریدا کرے اور خود ان مافیاز کا مقابلہ کر کے انہیں طے شدہ قیمتوں پر فروخت کرے جناب وزیراعلی آپ کا کسان فاقوں تک پہنچ گیا ہے شوگر مل مافیا نے کرشنگ میں ایک ماہ تاخیر کر دی ہے تاکہ گندم کی بوائی کا وقت کسانوں کے ہاتھ سے نکل جائے اور وہ مجبورا دوبارہ گنا ہی کاشت کریں اور اگلے سال پھر ان کے شکنجے میں آ جائیں۔

میں پالیسی میکرز،زرعی ماہرین،حکومتی مشینری کے ساتھ انتظامیہ کے تمام عہدے داران سے اپیل کرتا ہوں کہ میرا کسان اور پنجاب بربادی کے دہانے پر ہے اسے بچانے کے لیے ٹھوس فوری اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے گزرتا ایک ایک دن بہت قیمتی ہے برائے کرم مافیاز کو لگام ڈالیں اگر آپ کی کوئی مجبوری ہے تو بلا خوف و خطر آ رمی چیف سے مدد مانگ لیں جس طرح انہوں نے ڈالر مافیا کو لگام ڈالی تھی ان سے یہ بھی گزارش کر لیں کہ ایک پھیرا کھاد اور کماد مافیا پر بھی ہو جائے کس طرح آ پ اپنے آ پ کو ہندوستان کی زراعت کے برابر کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں وہاں کسانوں کے لیے ٹیوب ویل کے لیے مفت بجلی سبسڈی والی کھادیں بیج اور پیسٹیسائیڈ آ سانی سے ملتی ہیں اور فصل آ نے پر مافیاز کو سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا جاتا ہے جناب وزیراعلی جس طرح مہنگی بجلی گیس اور ٹیکسوں کی بہتات کی وجہ سے بہت سے صنعت کار پاکستان سے باہر منتقل ہو گئے ہیں یقینا سرمایہ دار کے پاس بہت سی آپشن موجود ہوتی ہیں لیکن میرے کسان کے پاس کچھ نہیں وہ اپنی زمین کو اٹھا کر بنگلہ دیش افغانستان یا ایران نہیں لے جا سکتا آجا کر اس کی نظریں آپ پر ہی ہیں اگر آ پ کچھ نہیں کر سکتے تو پھر ایک مہربانی کریں میرے کسانوں سے ساری زمین حکومتی قبضہ میں لے کر سرمایہ داروں کے حوالے کر دیں وہ یہاں پر کارپوریٹ فارمنگ کریں آ پ بھی خوش سرمایہ دار بھی خوش غریب کسان کا کیا ہے فاقوں تک وہ پہلے ہی پہنچ چکا ہے موت تک پہنچانے کے لیے تھوڑی سی مدد کر دیں اس کا کام آ سان ہو جائے گا اگر آ پ یہ بھی نہیں کر سکتے تو پھر آ ج ہی سے کمر کس لیں اور پاکستان کی ڈوبتی ہوئی زراعت اور پریشانی سے مرتے ہوئے کسان کو اخری سہارا دے دیں میرا کسان ڈیفالٹ کر رہا ہے یہ یاد رکھیں کہ اگر کسان زراعت اور میرا پنجاب ڈیفالٹ کر گئے تو آپ کے پاس حکومت کے لیے کچھ بھی نہیں بچے گا۔

مزید :

رائے -کالم -