پختون کارڈ اور سیاست کا اسیر تھکا ہارا کارواں 

   پختون کارڈ اور سیاست کا اسیر تھکا ہارا کارواں 
   پختون کارڈ اور سیاست کا اسیر تھکا ہارا کارواں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج میں بہت مغموم ہوں۔ یہ آزردگی لمحاتی یا وقتی نہیں، ہفتہ بھر سے افسردہ ہوں۔ آج تحریر میں ربط نہ ملے تو بکھرے نکات سلجھا کر میری ذہنی کیفیت خود پڑھ لیجیے۔ عمر کے چڑھاؤ کے بعد اب حالت اتار میں دل پر داغ لے کر ہی شاید میں دنیا سے رخصت ہوؤں گا۔ ادھر طبیعت حساس ملی ہے۔ اثر لیتا ہوں تو لیے رکھتا ہوں۔ روگ لگ جائے تو لگا ہی رہتا ہے۔ ملک و ملت کو لگا کوئی ایک روگ ہو تو اس کا رونا روئیں۔ صبح اٹھتے ہی کسی نئے فتنے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن "فتنوں " سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم۔  صاحب، "یہ تگا پوئے دما دم زندگی کی ہے دلیل"۔ تاہم بروٹس کے لگائے نامہربان گھاؤ (the most unkindest cut of all) کا کروں تو کروں جو مندمل ہو ہی نہیں رہا۔

من کا سناٹا دفعتاً جگر فگار چیخ سے روشن ہو گیا۔ عرض کرچکا ہوں کہ بے ربط باتوں کا سلجھاؤ آپ کے ذمہ ہے۔ چیخ سے آنگن بھلا کیسے روشن ہو سکتا ہے۔ 6 اگست 1945 کو ڈیڑھ من کے لٹل بوائے(ایٹم بم کا خفیہ نام) نے بحرالکاہل کے اوپر غوطہ لگایا تو ہیروشیما کے ہزاروں آنگن چیخوں سے روشن ہوئے تھے کہ نہیں؟ پچھلے ہفتے نیشنل پریس کلب میں ایک لٹل بوائے نے غوطہ کیا لگایا کہ ذہن میں اب تک دھماکے ہو رہے ہیں۔ کیا میرا بھائی یہ کچھ کہہ سکتا ہے؟ 26 نومبر کو تحریک انصاف کا دھرنا دینے والوں کی گرفتاریوں کے تناظر میں فرمایا: "اسلام آباد میں غریب پختونوں کی معیشت اور کاروبار تباہ کر دیا گیا ہے…… پختونوں کے خلاف امتیازی سلوک ختم نہ ہوا تو مزاحمتی مارچ کا آپشن استعمال کر سکتے ہیں "۔ جاہلی پختون کارڈ کے ساتھ ملک و ملت پر درجہ سوم کے حملہ آور گنڈاپور اور ایمان مزاری جیسوں کو تو ہم نے بھگت لیا، پر بروٹس نے تو نڈھال کر دیا۔ بھائی، 1941 میں سید زادہ تو رفو گری کو نکلا تھا، آپ نے تو مستزاد نسلی گھاؤ لگائے۔ سیاسی ضرورتوں سے انکار ممکن نہیں لیکن پختون کارڈ نے بہت دکھ دیا۔

44 سال قبل منصورہ کے  اس دورہ تفسیر میں مردان کے عالم بے بدل مولانا گوہر رحمنٰ مرحوم روایتی درس دے رہے تھے۔ لیکن فی الاصل وہ رنگ و نسل جیسے مسکرات ذہنوں سے کھرچ کر ہمیں عالمگیر اسلامی لڑی میں پرو رہے تھے۔ احسن تقویم میں پختون ہی تو نہیں ہیں۔ الحجرات 13 کا ادعا دیکھیے: "تمہاری ذاتیں اور قبیلے اس لیے بنائے کہ تم باہم متعارف ہو سکو (ورنہ) اللہ کے نزدیک لائق اکرام وہی ہے جو متقی ہے". پتا نہیں بھائی نے کیا سوچ کر پریس کانفرنس کی۔ سید زادے سمیت ان 75 افراد نے یہ عالمگیر تحریک جاہلیت جدیدہ کی علامات یہ ہندی, وہ خراسانی, یہ افغانی, وہ تورانی مٹانے کے لیے قائم کی تھی۔ الزام میں سچائی ہوتی تو جن پختونوں کے کاروبار حکومت نے تباہ کیے وہ سڑکوں پر نکل آتے۔ اسلام آباد کی پولیس فورس بجائے خود پشتونوں سے بھری پڑی ہے۔ ہر تیسرا دکاندار پشتون ہے۔ پختونوں کے حسن معاملگی کے سبب میں پشتون دکان داروں کو ترجیح دیتا ہوں۔ ساتھ چل کر جمعہ بازار میں میرے پشتون دوستوں سے خود مل لینا۔ کاش پریس کانفرنس علی البر (نیکی) ہوتی نہ کہ پختون کارڈ پر۔

 اس اکیلے بھائی نے 6 سالوں میں ملک و ملت اور عالمگیر انسانی قدروں کا وہ تحفظ کیا جو پورا سینٹ مل کر کبھی نہیں کر سکا۔دروغ بر گردن مختار مسعود: "وہ ایک نو آبادی کی آزادی کے لیے بہادری سے لڑا۔ اس کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی۔ وہ قومی ہیرو بن گیا۔جنگ طویل ہو گئی اور جاری رہی۔ ہیرو ایسا بدلا کہ دوسری طرف جا ملا اور اپنے ملک کے خلاف لڑتے ہوئے مارا گیا۔ جنگ جیت لی گئی۔ اب قومی ہیرو کے صحیح مقام کے تعین کا سوال اٹھا۔ طے پایا کہ اس کا ایک مجسمہ نصب کیا جائے جو صرف اس ایک ٹانگ پر مشتمل ہو جو آزادی کی راہ میں کٹی تھی". میں نے بھائی کی سینٹ والی 6 سالہ مقدس ٹانگ سنبھال لی ہے۔ پریس کانفرنس والی "شہادت" کا تمغہ نقیبان پختون کارڈ دیں تو دیں۔ آواز دوست کا یہ ٹکڑا یاد آیا تو میں نے پریس کانفرنس مکرر دیکھی تو ان کے دائیں بائیں چند بڑے محترم بھی بیٹھے دیکھے۔

کہہ چکا ہوں کہ آج بے ربط باتوں کا بھگتان کرنا ہوگا: "۔۔۔۔ جناب میں نے بھائی صاحب (ڈاکٹر محمود غازی) سے کبھی بآواز بلند بات نہیں کی، پر اس دن نہ رہ سکا۔ مدارس پر برسنے کے لیے اس بدبخت (جنرل پرویز مشرف) نے پریس کانفرنس کی تو بھائی صاحب کو بطور خاص گھر سے بلایا تاکہ دیکھنے والوں کو وہ اس کے ہم نوا نظر آئیں ". سن کر مجھ سے نہ رہا گیا عرض کیا: "جناب، غازی صاحب کو پتا تھوڑی ہی تھا کہ وہ کیا کہے گا". ڈاکٹر غزالی مرحوم کنپٹی کے گرد انگشت شہادت سے دائرہ بنا کر مجھے مجنون قرار دیتے ہوئے پھٹ پڑے: "تو کیا وہ اٹھ کر واپس نہیں آ سکتے تھے"؟

بنگلہ دیش بننے پر چند سال بعد کسی نے کتاب لکھی تو تلخیص اردو ڈائجسٹ میں چھپی۔ کچھ یوں یاد ہے: "بنگالیوں نے پنجابی, بہاری اور اردو دان چن چن کر مار ڈالے, کچھ فرار ہو گئے, کچھ قیدی بن گئے. سالوں بعد بھی نہیں چھیڑا گیا تو پٹھانوں کو جو آج بھی پورے بنگلہ دیش میں کاروبار کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے کام  سے کام رکھتے  ہیں، کوئی پنگا نہیں کرتے"۔ بھائی، اسلام آباد میں اتنے زیادہ پختون بستے ہیں کہ اتنے تو پیخور میں بھی نہیں ہیں۔ پشاور تو ہندکو، سرائیکیوں اور پوٹھوہاری پنجابیوں سے بھرا ہے۔ بے گناہ پختونوں کو تو مکتی باہنی نے نہیں چھیڑا۔دل کو نقش بر آب تسلی دی کہ بھائی کی یہ ذاتی رائے ہو سکتی ہے۔ لیکن مظاہرین 26 نومبر ہی کے تناظر میں امیر جماعت اسلامی کا فرمان دوسرا "لٹل بوائے" میرے دل ناتواں پر ناگا ساگی بن کر گرا۔ یقینا کوئی سیاسی ضرورت رہی ہوگی لیکن کیا پشتون کارڈ کا استعمال لازم تھا؟ اسی 26 نومبر والے عمرانی دھرنے کے ضمن میں فرمایا: "حکومت اسلام آباد میں "بے گناہ" پشتون ریڑھی بانوں، غریبوں اور مزدوروں کو اٹھا کر ان پر ناجائز مقدمے قائم کر کے عوام کو تقسیم کر رہی ہے"۔ استاد۔ مکرم پروفیسر عطا اللہ چوہدری منصورہ میں افغان مجاہدین کے سرجیکل اسپتال کے منتظم اعلی رہے۔ فراغت پر ان کی الوداعی تقریر کے چند جملے:

" میں جماعت اسلامی میں اس لیے نہیں ہوں کہ یہ کوئی نسلی وحدت ہے، اس لیے ہوں کہ دعوت و اقامت دین کے لیے یہی وہ بہترین جماعت ہے جہاں رہ کر میں اپنی عاقبت سنوار سکتا ہوں۔ جس دن مجھے اس سے بہتر کوئی اور جماعت ملی میں وہاں جانے میں کوئی دیر نہیں کروں گا". چنانچہ جماعت سے باہر میرے جیسے ان لاکھوں لوگوں کا یہی مخمصہ ہے جنہیں کوئی اور بہتر جماعت نہیں ملتی۔ ہم  لاکھوں خود ہی کو جماعت اسلامی سمجھتے ہیں۔ پھر سوچتا ہوں کہ اس دھرنے کے بعد سید مودودی رحمہ اللہ ہوتے تو کیا وہ بھی اس سیاسی ضرورت کی خاطر جاہلیت جدیدہ والے پختون کارڈ کا سہارا لیتے؟ کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا۔ آج میں بہت دکھی ہوں۔

مزید :

رائے -کالم -