چیمپینز ٹرافی2025ء: دفاعی چیمپیئن کا سفر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ،بات مشوروں ، تبادلوں، پرچیوں سے بہت آگے بڑھ چکی، فیصلوں کا وقت آ گیا

اور چیمپینز ٹرافی2025ءمیں دفاعی چیمپیئن اور میزبان پاکستان کا سفر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا ۔۔۔
بنگلادیش کے خلاف گروپ میچ رسمی کارروائی ہوگا۔۔۔ راولپنڈی میں کھیلے گئے میگا ایونٹ کے چھٹے میچ میں ہی ایونٹ کی 2 بڑی ٹیمیں آؤٹ ہوگئیں۔۔۔
گرین شرٹس نے ”منی ورلڈ کپ “ میں صرف شکست کا ذائقہ چکھا ۔۔۔
قوم کو جیت کی خوشی کی بجائے صرف ”مایوسی “ ملی ۔۔۔۔اور اب ہونا چاہیے”اصل کھیل “ یا ”اصل سفر “ شروع ۔۔۔کیونکہ
بات مشوروں ، تبادلوں، پرچیوں سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔۔۔۔فیصلوں کا وقت آ گیا ۔۔۔۔
کچھ کر دکھانے کا نہیں ۔۔۔بلکہ بہت کچھ کر گزرنے کا وقت آ گیا ۔۔۔
”گروپنگ “کرنیوالوں کو ابھی گھر نہیں بھیجا گیا تو کب بھیجیں گے ۔۔۔؟
قوم اب ”جیت “ نہیں حساب کتاب اور سخت اقدامات دیکھنا چاہتی ہے ۔۔۔
نوبت سوالات کی حدود سے بھی بہت آگے جا پہنچی ہے ۔۔۔۔کیا اربوں روپے خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ”منی ورلڈ کپ “ میں کھیل کی ریس سے باہر ہونیوالی پہلی ٹیم بنا جائے ۔۔۔؟
شرمناک شکستوں نے تمام دعوؤں کی نفی کردی ۔۔۔مہینوں کی تیاری سامنے آ گئی۔۔۔آپس کے جھگڑے، غلط سیلیکشن کے فیصلے دنیا نے دیکھ لیے۔۔۔
بھانت بھانت کے ٹی وی اینکرز اور تبصرہ نگار دن رات اس ایونٹ کو پاکستان سے باہر بھیجنے کی کوشش میں تھے صرف کرکٹ ٹیم تمام سازشوں کا منہ توڑ جواب دے سکتی تھی لیکن اس نے تووہ کام کر دکھایا جو دشمن بھی نہ کر سکے ۔۔۔۔ایونٹ پاکستان میں ہو گا سب کھیلیں گے لیکن پاکستان کی ٹیم ہی نہیں کھیلے گی ۔۔۔۔
تبصرہ نگار یہاں تک کہہ چکے کہ بیٹنگ میں افراتفری اور غلط شاٹ سیلیکشن نے ایک بات تو واضح کردی ہے کہ رضوان سے لے کر خوشدل شاہ تک، کسی کھلاڑی کے پاس نہ گیم پلان ہے اور نہ بیٹنگ کے انداز میں تبدیلی کی صلاحیت! باؤلنگ اور فیلڈنگ میں کوئی ہوم ورک نظر نہیں آیا ۔ ۔۔سٹیڈیمز کو خوبصورت جدید اور قابلِ دید بناتے بناتے پی سی بی کرکٹ ٹیم کو بھول گیا جو زبوں حالی کا شکار ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم 80ءیا 90ءکی دہائی کی کرکٹ کھیل رہی ہے ۔۔۔۔”بابر اعظم 1980ءکی دہائی کی کرکٹ کھیل رہے ہیں ، بابر اعظم نے پارٹ ٹائم سپنرز کو کھیلتے ہوئے صرف 2 باؤنڈریز ماریں، ایسا ماڈرن کرکٹ میں بالکل نہیں ہوتا“۔۔۔۔ اس حوالے سے اتنا جواب کافی ہے کہ ماڈرن کرکٹ کو سکھانے والے باﺅلنگ یا بیٹنگ کوچز بھی 1980ءاور1990ءکی دہائی کے کرکٹرز ہی ہیں ۔پاکستان نے 1992ءکا ورلڈ کپ بھی انہیں کرکٹرز کی وجہ سے جیتا تھا جبکہ 1996ءکی ٹیم نے ورلڈکپ کے فائنل تک رسائی حاصل کی تھی، یہ وہ دور تھا جب پاکستان کو وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر جیسے سٹارز ملے تھے، اس 90ءکی دہائی کو پاکستان کرکٹ کا عروج بھی تصور کیا جاتا ہے جب گرین شرٹس کو شکست دینا بڑی ٹیموں کا خواب ہوا کرتا تھا۔۔۔۔موجودہ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے صرف جرسی اسی رنگ کی پہنی جو ماضی میں 1999ءاور 1992ءکی ٹیموں کے کھلاڑیوں نے پہنی تھی لیکن ان میں جوش و ولولہ اور محنت ماضی والی ہرگز نہیں تھی ۔
موجودہ کرکٹ ٹیم کی حالت تو یہ ہو گئی ہے کہ چیمپینز ٹرافی میں ”ڈاٹ بولز کی سنچری“ بنا ڈالی۔ بھارت کےخلاف جتنا بڑا میچ اتنی ہی زیادہ ڈاٹ بولز۔۔۔ ٹاپ آرڈرز بیٹرز نے ابتدائی 161 گیندوں میں بھارتی بولرز کے سامنے ڈاٹ بولز کی سنچری بنائی۔ ٹیم نے 50 اوورز یعنی 300 گیندوں کی اننگز کے دوران مجموعی طور پر 147 بولز ڈاٹ کیں، صرف 3 چھکے اور 14 چوکے لگائے گئے۔ پاور پلے کے دوران بھی جی بھر کر ڈاٹ بالز۔۔۔بڑے کھلاڑیوں کے” چھوٹے نظارے “ سب نے دیکھے ۔۔۔۔قومی ٹیم بڑے ٹاکرے میں تیز کھیل سکی نہ ہی رنگ جما سکی ، پوری اننگز میں صرف ایک ففٹی بنی، اننگز کا پہلا چھکا بھی 42ویں اوور میں لگا۔۔۔حد تو یہ ہے کہ ہمارے بیٹرز بھارتی ناقص فیلڈنگ و ڈراپ کیچز کا بھی فائدہ نہ اٹھا سکے۔
سب کو پتہ ہے ،ٹی وی سکرینز پر کھل کھلا کر تبصرے بھی کیے جا رہے ہیں لیکن کرکٹ بورڈ کو دکھائی دے رہا ہے نہ سنائی دے رہا ہے کہ ٹیم میں 6 سے 8 کھلاڑیوں کا ٹولہ گروپنگ کرتا ہے۔۔۔
صرف 34سال کی عمر میںکرکٹ سے ” رخصت “ لینے والے احمد شہزادکی ”جارحانہ گفتگو “ ہی سن لیں وہ اپنے تبصروں میں کھل کر کہہ چکے کہ ” ٹیم میں گروپنگ ہے، انہیں کپتانی کا نشہ ہے، یہ وہ کھلاڑی ہیں جو نوجوانوں کو آنے نہیں دیتے،میں20 سال سے اس سسٹم کا حصہ ہوں کیا اپنے ملک کی برائی چاہوں گا، ایسا نہیں کرسکتا لیکن 34 سال کی عمر میں کرکٹ سے سائیڈ ہوکر بیٹھ گیا ہوں تو اس کی کوئی وجہ تھی اور وہ یہ کہ میرٹ کا قتل عام ہورہا ہے۔ٹیم کو سائیڈ پر رکھ کر دیکھیں ڈومیسٹک میں غریب کے بچے کے ساتھ حال کیا ہورہا ہے، پروفیشنل کھلاڑی ہے لیکن اس کے پاس سفارش موجود نہیں جو لوگ بولتے ہیں کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں پرچیاں نہیں چلتیں یہ غلط کہتے ہیں پرچیاں ہی چلتی ہیں۔ ہم کیا حل بتائیں بتا بتا کر مر گئے ہیں، چیئرمین پی سی بی نے کہا سرجری ہوگئی کونسی سرجری ہوگئی، عماد اور عامر کو لاکر سارا ملبہ ان پر ہی ڈال دیا، آپ پہلے 2میچ برداشت نہیں کرسکے یہی سچائی ہے“۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ٹیم کی چیمپئنز ٹرافی میں ناقص کارکردگی کے بعد کوچنگ سٹاف میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ کرکٹ بورڈ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ عبوری ہیڈ کوچ عاقب جاوید کو ٹورنامنٹ کے بعد ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ نیوزی لینڈ اور روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست نے ٹیم کی کارکردگی پر مزید سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔۔۔ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ ٹیم کے لیے الگ الگ ہیڈ کوچز رکھے جائیں گے یا نہیں، لیکن عاقب جاوید سمیت موجودہ سپورٹ سٹاف کی چھٹی یقینی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں کوچز اور سلیکٹرز کی بار بار تبدیلی کی وجہ سے نئے امیدواروں کا انتخاب بھی ایک چیلنج بن گیا ہے۔ عاقب جاوید کی جگہ کسی مستقل کوچ کی تقرری پر غور کیا جا رہا ہے۔پاکستان کو 16 مارچ سے 5 اپریل تک نیوزی لینڈ کا دورہ کرنا ہے، جہاں وہ 5 ٹی20 اور3 ون ڈے میچز کھیلے گا۔ اس سے قبل ہی پی سی بی نے مستقل کوچز کے انتخاب کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ غیر ملکی کوچز کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کے پیش نظر امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پی سی بی پاکستانی سابق کھلاڑیوں کو کوچنگ کے لیے موقع دے سکتا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی کے بعد پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی بورڈ آف گورنرز سے مشاورت کریں گے کہ آیا موجودہ سلیکشن کمیٹی کو برقرار رکھا جائے یا اس میں بھی تبدیلی کی جائے۔
کرکٹ کے ذمہ داران جان لیں کہ کہ اب آن کے پاس بھی ”آخری موقع “ ہے غلطیاں سدھار لیں ۔۔۔عوام مایوس ہیں اور ناراض بھی ۔۔۔سوشل میڈیا پر ان کا غصہ ثبوت کے طور پر موجود ہے ۔۔۔ہاکی اور سکوائش کے بعد کرکٹ کو” ڈراؤنا خواب“ بننے نہ دیں ۔۔۔فوری اور میرٹ پر فیصلے کریں ۔۔۔ڈومیسٹک کرکٹ کو فروغ دیں ۔۔۔ کمیٹیوں کیساتھ ساتھ ٹیم میں بھی تبدیلیاں لائیں ۔۔۔ شکستوں کا سلسلہ کیوں اور کب سے شروع ہوا ؟مکمل ڈیٹا اور تحقیقات سامنے لائیں۔۔۔
افسوس ہمیں اس بار بھی آئی سی سی ٹورنامنٹ کی میزبانی راس نہیں آئی ۔۔۔۔
نوٹ: ادارے کا بلاگر کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں