قاضی حسین احمد سیماب صفت انقلابی شخصیت قسط نمبر 2

قاضی حسین احمد (مرحوم) جب سیکرٹری جنرل تھے اور ان کی مدت کو کافی عرصہ گزر گیا اور نئے امیر کا مرحلہ قریب آیا تو میرے بعض ساتھی مجھ سے پوچھتے تھے کہ قاضی صاحب جب امیر بن جائیں گے تو کیا تبدیلی آئے گی، چونکہ میاں طفیل (مرحوم) سخت طبیعت کے مالک تھے اور وہ کوئی گھلنے ملنے والی شخصیت بالکل نہیں تھے۔ مولانا مودودیؒ کے بعد وہ امیر بنے اب جب اس دور کو یاد کرتا ہوں تو ارکان کا فیصلہ بالکل درست نظر آتا ہے۔ مولانا مودودی ؒ کے بعد ایسے ہی امیر کی ضرورت تھی جو جماعت کو اپنے اصولوں سے ہٹنے نہ دے ۔ انہوں نے جماعت کو سخت ڈسپلن میں جکڑے رکھا ۔ تربیت کا نظام بھی سخت تھا ارکان کا معیار بھی بالکل درست تھا شاید اس وقت اس کی ضرورت ایسی ہی تھی۔ انہوں نے کھل کر جنرل ضیاء الحق کی حمایت کی اور جماعت اسلامی فوج کے بالکل قریب چلی گئی ۔ جماعت اسلامی کی کشمکش پاکستان میں لیفٹ اور سیکولر ازم سے بڑی زبردست تھی افغانستان میں سوویت یونین داخل ہو گیا۔پاکستان پر خطرات کے بادل منڈلانے لگ گئے تھے۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد (موجودہ کے پی کے) میں اس کے اثرات بہت زیادہ نظر آ رہے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغانستان میں جہاد شروع ہو گیا اور جماعت نے اپنی قوت سے سوویت یونین کے خلاف محاذ آرائی کی تا کہ سوشلزم کے ان داتا کو شکست دی جائے اور بالآخر سوویت یونین نے نہ صرف شکست کھائی، بلکہ اس کا وجود ہی مٹ گیا اور اس شکست میں جہاں اور بہت سی وجوہات ہوں گی وہاں جماعت کی کوششوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔
اس وقت قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل تھے ان کا صوبہ کے پی کے سے تعلق تھا انہوں نے افغان جہاد میں بڑا طاقتور اور موثر کردار ادا کیا،چونکہ وہ پشتون تھے اس لئے مجاہدین کی تنظیموں سے تعلق استوار رکھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، بلکہ قاضی صاحب نے اپنے دور سیکرٹری جنرل میں افغانستان کا خفیہ دورہ کیااور ان نوجوانوں سے رابطہ کیا جو آگے چل کر افغانستان کی مجاہدین تنظیموں کے سربراہ بنے وہ ان نوجوانوں کو لے کر مولانا مودودی ؒ کے پاس آئے اور مولانا سے ان کی ملاقات ہوئی انہوں نے تفصیل سے افغانستان کے حالات بتلائے اور جماعت اسلامی نے فیصلہ کیا کہ مجاہدین کی نہ صرف حمایت کی جائے گی، بلکہ انہیں اس جہاد کے لئے جو ضروریات ہوں گی وہ فراہم کی جائیں گی۔ قاضی صاحب نے پاکستان کی تمام دینی پارٹیوں سے رابطے بھی کئے اور پاکستان کی تمام دینی جماعتیں افغان جہاد کی پشت پر آن کھڑی ہوئیں اور جہاد کے لئے فتوے بھی جاری کئے یوں دنیا بھر سے مسلمان افغانستان پہنچنا شروع ہو گئے ۔ قاضی حسین احمد بہ نفس نفیس اس جہاد میں متحرک تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت کے کارکنوں نے افغان جہاد میں بھرپور حصہ لیا ۔ افغانستان میں سوشلسٹ روس کی شکست نے دنیا کی تاریخ میں حیرت انگیز تبدیلی یہ پیدا کی دنیا کے اکثر و بیشتر مغربی ممالک اور اسلامی ممالک خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سوشلسٹ پارٹیوں نے دم توڑ دیا اور سیکولرقوتوں کو مضحمل کر کے رکھ دیا ۔ خود پاکستان میں سیکولر لیفٹ اور قوم پرست کی سیاست کو ایک ایسا طاقتور جھٹکا لگا کہ انہیں اس کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ 20 ویں صدی کے آخر میں کمیونزم کے ان ورثاء کا وجود ہی مٹ جائے گا ان پر اتنا منفی اثر پڑا کہ انہوں نے اپنی 70 سالہ لیفٹ کی سیاست سے تائب ہو کر اچانک یو ٹرن لے لیا اور مغربی استعمار کی سیاست سے ہم آہنگ ہو گئے اور امریکی سامراج کی چھتری تلے جا کر کھڑے ہو گئے ۔ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست نے موجودہ دنیا کی سیاست کو درہم برہم کر کے رکھ دیا۔
جنرل (ر) نصیر اللہ بابر پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزیر داخلہ تھے انہوں نے طالبان کو منظم کیا اور افغانستان میں مجاہدین کی حکومت اپنے انجام کو پہنچ گئی اس تبدیلی کی پشت پر ابتداء میں امریکہ اور مغرب دونوں تھے ۔ اس تبدیلی نے جماعت اسلامی کو بہت مایوس کیا اور قاضی صاحب نے تمام مجاہدین تنظیموں سے ہاتھ کھینچ لیا جب یہ آپس میں الجھ رہے تھے تو قاضی صاحب نے کھل کر کہا کہ یہ جہاد نہیں فساد ہے ۔ ایک ایسی ناخوشگوار فضاء میں قاضی حسین احمد (مرحوم) کوئٹہ تشریف لائے۔ انہوں نے پہلی دفعہ اپنی گفتگو میں مجاہدین کی کشمکش کو فساد سے تعبیر کیا ۔ بہت مایوس تھے اور چہرے پر تناؤ کی کیفیت بڑی سخت نظر آ رہی تھی وہ گلبدین کے خلاف بھی بولے۔ گلبدین قاضی صاحب سے ناراض بھی ہوئے اس اجتماع میں میرے ساتھ ڈاکٹر نصیر عاقل بھی موجود تھے اس کے بعد قاضی صاحب الفلاح ہاؤس کے ایک کمرے میں آ گئے وہاں ان کی رہائش کا بندوبست تھا انہیں سلام
کیا اور ان کے سامنے بیٹھ گیا ۔ انہوں نے احوال پوچھا اور تھکے ہوئے لگ رہے تھے میرے سوال کے جواب میں کہا کہ شادیزئی آج کوئی سوال نہیں کرنا ہے ۔ زندگی میں پہلی بار انہیں اتنا مایوس اور پریشان دیکھا تھا مجھے اندازہ ہو گیا کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا انجام انہیں صاف نظر آ رہا تھا اور بہت کچھ تبدیل ہونے والا تھا، لیکن انہیں اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ کچھ عرصہ بعد ہی طالبان افغانستان پر قبضہ کر لیں گے اس مستقبل کے نقشہ سے بے خبر تھے اس وقت امریکہ اور مغربی ممالک نے جو نقشہ ترتیب دیا تھا اس پر عملدرآمد کا مرحلہ شروع نہیں ہوا تھا ۔ قاضی صاحب تو اس وقت کے لمحہ موجود سے پریشان تھے کہ انہوں نے مجھے سوال کرنے سے روک دیا ۔ مسکراتے ہوئے قاضی صاحب کے فرمان کے آگے سر تسلیم خم کر لیا اور قاضی صاحب سے کہا اچھا قاضی صاحب فیض کی کوئی غزل سنا دیں ۔ قاضی حسین احمد (مرحوم) نے فیض کی پوری غزل سنا دی میرا دوست ڈاکٹر نصیر عاقل شاہوانی بڑی حیرت سے پہلے مجھے دیکھتا اور پھر قاضی صاحب کو دیکھتا ہی رہ گیا ۔ اس کے بعد ان کا موڈ کچھ ٹھیک ہو گیا ۔ چائے پی اور رخصت لی کمرے سے باہر آئے تو ڈاکٹر نصیر نے کہا کہ امان صاحب آپ نے تو کمال کر دیا ۔ قاضی صاحب نے پوری غزل سنا دی ۔ اس نے کہا مجھے یقین نہیں آیا کہ قاضی صاحب اتنے با ذوق شخصیت کے مالک ہوں گے اور جب آپ نے قاضی صاحب سے کہا کہ غزل سنا دیں تو میراخیال تھا کہ آپ گستاخی کر رہے ہیں اور قاضی صاحب آپ کو ڈانٹیں گے لیکن انہوں نے تو کمال شفقت سے پوری غزل سنا دی ڈاکٹر نصیر عاقل بڑے حیرت میں تھے اور بڑے متاثر تھے ڈاکٹر خود بھی براہوی کے شاعر تھے ۔ (جاری ہے)