کیا آرٹیکل 6سے متعلق اضافی نوٹ پر عمل درآمد ضروری ہے 

کیا آرٹیکل 6سے متعلق اضافی نوٹ پر عمل درآمد ضروری ہے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:سعید چودھری 

       چیف جسٹس پاکستان مسٹرجسٹس عمرعطاء بندیال،مسٹرجسٹس اعجازالاحسن،مسٹرجسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، مسٹرجسٹس منیب اختر اور مسٹرجسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے ڈپٹی سپیکر کی عدم اعتماد کی تحریک کے خلاف رولنگ اور اس کے نتیجہ میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس اور اس پر صدر کی طرف سے عمل درآمد کئے جانے کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری کردیاہے،فیصلہ میں مسٹرجسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور مسٹرجسٹس جمال خان مندوخیل کے اضافی نوٹ بھی شامل ہیں جبکہ مسٹرجسٹس منیب اختر کی طرف سے اضافی نوٹ آنا باقی ہے،مسٹرجسٹس منیب اختر نے بنیادی تفصیلی فیصلے سے اتفاق کیا ہے تاہم یہ بھی قراردیاہے کہ وہ اپنا الگ نوٹ بھی جاری کریں گے،مسٹرجسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے اپنے اضافی نوٹ میں قراردیا کہ آئین کے تحت حاصل اختیارات ایک مقدس امانت ہے جس میں اس وقت کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری،سپیکر اسد قیصر، وزیراعظم عمران خان اور وزیرقانون فواد چودھری نے خیانت کی،انہوں نے آئین کے آرٹیکل 5کی بھی خلاف ورزی کی جس کے تحت وطن سے وفاداری ہرشہری کی بنیادی ذمہ داری ہے،اس اقدام پر سنگین غداری کے آرٹیکل 6کا اطلاق ہوسکتاہے تاہم فاضل جج نے یہ معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا کہ وہ خود جائزہ لے کہ اس نے اس طرح کے اقدامات کا دروازہ کھلا رکھنا ہے یا پھر اسے بند کرنا ہے،اس اضافی نوٹ کے حوالے سے یہ معاملہ زیربحث ہے کہ کیا حکومت اس نوٹ میں دیئے گئے حکم پر عمل درآمد کی پابند ہے یا نہیں؟
علاوہ ازیں بنیادی فیصلہ میں عمران خان کے اس بیانیہ کو مکمل طور پر مسترد کردیاگیاہے جس میں انہوں نے اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قراردیاتھا،عدالت نے قراردیا کہ یہ سائفر 7مارچ کو موصول ہوا تھا جس کے بعد عمران خان کی حکومت نے انکوائری کیوں نہیں کروائی؟علاوہ ازیں ایسی کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی جس سے پتہ چلتا ہو کہ تحریک عدم اعتماد کسی سازش کا نتیجہ ہے،سائفر کی مزید انکوائری کے لئے کمشن نہیں بنایا جاسکتا،ڈپٹی سپیکر نے سائفر کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد ختم کرنے کی رولنگ دے کر اپنے اختیارسے تجاوز کیا جس کے بعد وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کرنے کااعلان کیا اورصدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر اسمبلی توڑ دی،یہ تمام اقدامات غیر آئینی ہیں،سپیکر کا ڈپٹی سپیکر کی غیر آئینی رولنگ کی توثیق کرنا بھی آئین کی خلاف ورزی ہے،فاضل بنچ نے اپنے فیصلے میں بتایا کہ چیف جسٹس کے گھر میں ہونے والے اجلاس میں 12فاضل جج صاحبان نے اس معاملہ پر ازخود نوٹس لینے کی سفارش کی،جس سے یہ چیز ظاہر ہوتی ہے کہ چیف جسٹس پاکستان ازخود نوٹس لینے سے پہلے ساتھی ججوں کے ساتھ مشاور ت کے قائل ہیں یا پھر وہ کسی فاضل جج کی طرف سے ازخود نوٹس کے لئے بھیجے گئے نوٹ پر نوٹس لیتے ہیں،
اب آتے ہیں مسٹرجسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کے اضافی نوٹ کی طرف کہ کیا اس پر عمل درآمد ضروری ہے؟آئین کے تحت صرف بنیادی تفصیلی پر فیصلے پر ہی عمل درآمد کیا جانا ضروری ہے،بنیادی تفصیلی فیصلے سے تمام ججوں نے اتفاق کیا ہے جبکہ اضافی نوٹ میں جج صاحبان اپنا نکتہ نظر اور اضافی وجوہات بیان کرتے ہیں جو عدالتی حکم کی طرح قابل نفاذ نہیں،بنیادی فیصلے سے تو تمام ججوں کا اتفاق ہے جبکہ اضافی نوٹ سے دیگر ججوں نے اتفاق نہیں کیاہے،عدالتی روایت اور قانون کے تحت اضافی نوٹ سے اختلاف کرنے کانوٹ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم اگر کسی جج کو اضافی نوٹ سے اتفاق ہو تو وہ اس پر توثیقی دستخط کرسکتا ہے،مسٹرجسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کے اضافی نوٹ سے اتفاق کے حوالے سے کسی فاضل جج کے توثیقی دستخط موجود نہیں ہیں یہ فرد واحد کا فیصلہ سمجھا جائے گاتاہم اضافی نوٹ کی آبزویشنز کی بنیاد پر حکومت اگر کارروائی کرنا چاہے تو وہ اسے اخلاقی جواز کے طور پر استعمال کرسکتی ہے،اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ اس اضافی نوٹ پر عمل درآمد کو توہین عدالت تصور نہیں کیا جاسکتاجبکہ بنیادی تفصیلی فیصلے پر مروجہ قانون کی طرح عمل درآمدکیاجانا ضروری ہے،
آئین کے تحت اگر کسی کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی مقصود ہو تو سنگین غداری کے قانون کے تحت اسے وفاقی حکومت کے نوٹیفائیڈ افسر ہی شروع کرسکتے ہیں،وفاقی نوٹیفکیشن کے مطابق یہ اختیار سیکرٹری داخلہ کے پاس ہے،ملکی تاریخ میں آرٹیکل6کے تحت صرف ایک شخص جنرل (ر)پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کی گئی،قانون کے تحت سنگین غداری کے ٹرائل کے لئے خصوصی عدالت قائم کی جاتی ہے جو ہائی کورٹس کے ججوں پر مشتمل ہوتی ہے،خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرہوسکتی ہے۔
سعید چودھری 

مزید :

تجزیہ -