تئیسویں قسط، شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی
ترجمہ : راحیلہ خالد
اس نے مجھے شرمیلے پن سے نجات دلانے کی ٹھان لی تھی۔ ایک شام وہ میرے گھر آیا اور مجھ سے اصرار کرنے لگا کہ میں کولابا میں،تاج محل ہوٹل کے عین سامنے ساحل سمندر پر چہل قدمی کے لئے چلوں۔ میں آسانی سے مان گیا۔ جب ہم انڈیا گیٹ وے کے قریب بس سے اترے تو وہ کہنے لگا’’ آؤ تانگے کی سواری کریں۔‘‘
میں مان گیا۔ ہم ایک تانگے پر سوار ہوئے اور جب تانگے والا گھوڑے کو چلنے کا اشارہ کرنے ہی والا تھا کہ راج نے اسے روک دیا۔ اس نے دیکھا کہ دو پارسی لڑکیاں فٹ پاتھ پر کھڑی تھیں۔ انہوں نے چھوٹے فراک پہنے ہوئے تھے اور آپس میں کسی بات پر کھلکھلا رہی تھیں۔ راج نے اپنی گردن باہر کو نکالی اور پارسیوں کی زبان گجراتی میں انہیں مخاطب کیا۔ لڑکیاں اس کی طرف مڑیں۔
شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی ۔۔۔ بائیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
راج نے بڑی بہادری سے اور نرم و لطیف لہجے میں ان سے پوچھا کہ کیا وہ ان کی منزل مقصود تک انہیں چھوڑ دے۔ ان لڑکیوں نے ضرور اپنے ذہن میں راج کو پارسی سمجھا تھا کیونکہ اس کی صاف رنگت اور اچھی شکل و صورت پارسیوں جیسی ہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ انہیں قریبی ریڈیو کلب تک چھوڑ دے تو وہ اس کی بہت شکر گزار ہوں گی۔ راج نے انہیں چھلانگ لگا کر تانگے کے اندر آنے کو کہا۔ میں اس تجسس میں کہ پتہ نہیں وہ کیا کر رہا تھا،اپنا سانس روکے بیٹھا تھا۔
وہ دونوں لڑکیاں تانگے پر چڑھ آئیں اور ان میں سے ایک راج کے ساتھ بیٹھ گئی جبکہ دوسری مخالف سیٹ پر میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ میں نے اس لڑکی کو سیٹ پر کافی جگہ دی تاکہ وہ آرام و سکون سے بیٹھ سکے لیکن راج نے ایسا کچھ نہ کیا۔ وہ لڑکی کے بالکل ساتھ بیٹھا رہا اور ایک منٹ کے بعد وہ دونوں ایسے باتیں کر رہے تھے جیسے بہت پرانے دوست ہوں۔ راج نے اس لڑکی کے کندھوں کے گرد اپنا ہاتھ رکھا ہوا تھا اور وہ لڑکی اس بات سے پریشان نہیں تھی۔ جس دوران میں شرمندگی سے پیچ و تاب کھا رہا تھا،اس دوران راج خوشی خوشی باتوں میں مصروف تھا۔
وہ لڑکیاں ریڈیو کلب پہ اتر گئیں اور میں نے سکھ کا سانس لیا۔ یہ راج کا مجھے خواتین کی صحبت میں پُر سکون رکھنے کا ایک انداز تھا۔ وہ قدرتی طور پر ایک دل آویز و دلکش انسان تھا اور وہ جو کچھ بھی تھا لیکن شرمیلا بالکل بھی نہیں تھا۔ تاہم وہ بے ادب و بے لحاظ اور بد تہذیب و بد تمیز نہیں تھا۔ وہ ایک سادہ سا شرارتی و شوخ و چنچل آدمی تھا۔
پرتھوی راج کے بیٹے کی حیثیت سے اس کے اردگرد چمک و چکاچوند تھی اور وہ کالج کے کیمپس میں مشہور و معروف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ ایک ایسے شعبے کی طرف بڑھ رہا تھا جس میں خاموشی یا شرمیلے پن کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ مجھے اس بات کا ذرّہ برابر اندازہ نہیں تھا کہ قدرت نے میرے لئے کیا سوچا تھا۔ تب میں صرف یہ چاہتا تھا کہ میں ملک کا ایک بہترین فٹبال کا کھلاڑی بنوں۔
یقیناً میں کھیل کو اپنا پیشہ بنانے کی تیاری میں بہت سنجیدہ تھا۔ ہر شام کالج کے بعد،میں نے میٹرو سینما کے پیچھے کھیل کے میدانوں میں جانا اپنا معمول بنا لیا تھا،جہاں اب ہوم گارڈ ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر ہیں۔ اور میں ان کھلاڑیوں کے ساتھ فٹبال کھیلتا تھا جو میری طرح کھیل کو بطور پیشہ اپنانے میں سنجیدہ تھے۔ میٹرو سینما کے قریب ایک دکان تھی جہاں سے میں نے اپنے کھیلوں کے جوتے اور کرکٹ کا پہلا بلاّ خریدا تھا۔ اگرچہ فٹبال میرا پہلا پیار تھا،میں کرکٹ بھی جوش و جذبے کے ساتھ کھیلتا تھا۔ جب میں اسکول اور کالج میں ایتھلیٹکس میں حصہ لیتا تھا تب میرا ایتھلیٹک پہلو بھی مضبوط تھا۔ میں دو سو میٹر کی ہر دوڑ میں جیتتا تھا۔
آغا جی کھیلوں میں میری دلچسپی پہ فخر کرتے تھے اور جب بھی میں کھیلوں میں اپنی کامیابی پر ٹرافی یا سرٹیفیکیٹ گھر لاتا تھا تو وہ مجھے کمر پر تھپکی دیتے تھے۔ انہیں اس سب پہ کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن ان کا خواب تھا کہ وہ مجھے قانون یا سول سروسز کے پیشے میں دیکھیں۔
ذاتی طور پر میں یہ محسوس کرتا تھا کہ آغا جی کے سامنے ابھی یہ بات ظاہر کرنے کا وقت نہیں آیا تھا کہ میں فٹبال چیمپئن یا کرکٹر بننا چاہتا تھا۔ میں ان کے اپنے بارے خوابوں سے آگاہ تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید میں کاروبار میں طبع آزمائی کروں۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا تھا کہ آمدنی کی آمد و اخراج کا ریکارڈ رکھنے میں آغاجی کی تھوڑی بہت مدد کروں۔ تمام ذی روحوں کی طرح،تب مجھے یہ بات معلوم نہیں تھی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے میری قسمت و تقدیر کندہ کی جا رہی تھی۔
جاری ہے۔ چوبیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں