سیاسی بیان بازی، مہذب، شائستہ، دوستانہ رکھی جائے
برطانیہ میں 4جولائی24ء کو قبل از وقت 650 نشستوں پر پارلیمانی انتخابات ہوئے، لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لئے صبح 7 بجے سے رات 10بجے تک، یعنی 15گھنٹے کا کسی وقفہ کے بغیر وقت دیا گیاجو 15 گھنٹوں پر محیط تھا۔ اس طرح ووٹ ڈالنے والے بیشتر مرد و خواتین کسی جلد بازی سے دو چار ہوئے بغیر اپنے پولنگ پر آرام سے یہ اہم ذمہ داری ادا کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ وہاں پولنگ ٹرن آؤٹ کی شرح 58 فیصد رہی۔الیکشن کے اگلے روز وطن عزیز (آزاد کشمیر) کی ایک خاتون شہری، شبانہ محمود، نئی برطانوی حکومت کی نامزد کردہ کابینہ میں وزیر انصاف مقرر ہوئیں۔ قابل غور امر یہ ہے کہ ان انتخابات میں کوئی غیر معمولی شور شرابہ، لڑائی جھگڑے، ہاتھا پائی، بدتمیزی یا بد زبانی، دھونس، دباؤ اور دھاندلی کے حالات یا واقعات کی کوئی اطلاع نہیں، وہاں ہمارے ملک جیسے فارم 45 اور 47 پر مبنی حرکات کی شکایات بھی سننے میں نہیں آئیں۔ برطانیہ میں عرصہ14سال بعد حزب اختلاف کی جماعت 412 نشستیں جیت کر اقتدار میں آ گئی، لیبر پارٹی کے سربراہ نے آتے ہی ملکی مفاد کو سخت محنت سے بہتر کرنے کے بارے میں پالیسی بیان دیا، جبکہ حکمران جماعت اس الیکشن میں محض 121 نشستیں حاصل کر پائی۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ شکست خوردہ حکمران جماعت کے امیدواروں نے بلا عذر و اعتراض انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کا اندازا اپنایا اور کسی اہم واقعاتی اور قانونی روگردانی کی الزام تراشی اور حیلہ سازی کا شور برپا نہیں کیا۔ مذکورہ بالا انتخابی عمل کے حقائق سے جو روشن پہلو عیاں ہوتے ہیں، ان پر اہل برطانیہ کو خراج تحسین پیش کرنے میں کسی انصاف پسند ادارے اور شخص کو بخل سے کام نہیں لینا چاہئے۔ جبکہ بعض امور میں خاصے اختلافات ہونے کی بنا پر بعض اہل ِ وطن ان پر گاہے بگاہے کچھ غیر انسانی اور متعصب رویوں پر کڑی تنقید بھی کرتے رہتے ہیں، جن کا جواز متعلقہ حقائق اور واقعات کی نوعیت پر ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے ملک کے سیاسی حالات کی مسلسل کشیدگی کو ختم کرنے کے بارے میں مثبت پہلوؤں کو ترجیح دے کر فوری سمت درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ہر انتخابی عمل میں ہر مرحلہ پر غیر جانبداری اور دیانتداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ نیز ایسی کارکردگی واضح طور پر متعلقہ ووٹروں امیدواروں اور مشاہدہ کاروں کو صاف طور پر دیکھنے اور پڑھنے میں نظر آنی چاہئے۔ اگر ایسے نظام انتخاب کے انعقاد کو بلا تعطل اور توقف جاری رکھنے کا مقتدر حلقوں میں جلد فیصلہ کر کے اس پر خلوص نیت سے عملدرآمد کا عزم کر لیا جائے تو امید واثق ہے کہ انتخابی امور کے بیشتر مسائل سے امیدار حضرات و خواتین کی اکثریت کو باہمی اختلافات اور بعد ازاں عدالتی مقدمہ بازی کے اخراجات ذہنی اذیت،عداوت اور سالہا سال تک طویل ہونے والی ذاتی دشمنی کے خطرناک نتائج سے کافی حد تک نجات مل سکتی ہے، جس سے معاشرے میں بلا شبہ حالات کو پرامن اور سیاسی استحکام کے حصول کا خواب جلد شرمندہ تعبیر ہونے میں قابل قدر حد تک مدد مل سکتی ہے سوال یہ ہے کہ ہم اپنے غیر قانونی حربے ترک کر کے اور راہ راست کو اپنانے کو ترجیح دے کر جلد بے خوف و خطر کامیابی کے ثمرات حاصل کرنے کو خسارے کی منصوبہ سازی خیال کرتے ہیں۔اس منفی تصور اور روش بلا مزید تاخیر ہر شعبہ سے خیر باد کہہ دینا ہو گا۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنے چند سابق ناراض نمائندوں کے ہمراہ ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کیا۔ امید ہے وہ بھی ملکی لوگوں کے مسائل کے حل کے بارے میں جلد کوئی سود مند لائحہ عمل سامنے لانے کا اعلان کر کے اپنے مثبت عزائم اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے اگر وہ دیگر لوگوں پر محض تنقید اور طعنہ زنی کے نشتر چلاتے رہے تو پھر ان کے اضافہ سے عوام کی پریشانیوں میں کمی کیسے آئے گی؟
بجلی اور گیس کے بڑی رقوم کے بلوں کے اجراء سے عوام کی مالی مشکلات خاصی بڑھ گئی ہیں۔بلوں میں غیر ضروری یونٹس اور بعض ٹیکسوں کے اضافہ سے عوام بہت اذیت میں مبتلا ہیں، آٹا، دالوں، سبزیوں، دودھ، گوشت اور دیگر اشیائے ضرورت کی مناسب قیمتوں پر دستیابی پر کڑی نظریں رکھ کر ان کا حصول ممکن بنایا جائے۔ حکومت کو اپنے اخراجات حتی الوسع کم کرنے پر توجہ دینا ضروری ہے۔ حکومت ٹیکسوں کی ادائیگی پر بعض طبقوں سے مطالبہ کرنے کے ساتھ زور بھی دے رہی ہے۔ اس بارے میں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو متعلقہ لوگوں کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔ اگر بعض طبقے اپنی آمدن سے کچھ حصہ ٹیکس ادا کرنے پر رضا مند ہو جائیں تو یہ ملک کی اشد ضرورت پوری کرنے کے لئے لازم ہے۔