عید میلاد النبیؐ، کب، کیوں اور کیسے!

  عید میلاد النبیؐ، کب، کیوں اور کیسے!
  عید میلاد النبیؐ، کب، کیوں اور کیسے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چند روز قبل ہمارے بھائی نوید اقبال چودھری نے محترم منیب الرحمن کی لکھی ایک تحریر کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کیا، مفتی منیب الرحمن نے شرک کے مسئلہ پر علامہ حضرت احمد رضا بریلوی کی تصنیفات کے حوالے سے یہ ثابت کیا تھا کہ احمد رضا خان بریلوی سجدہ تعظیمی کو بھی روا نہیں سمجھتے اور جو ایسا کہتا یا کرتا ہے وہ تعلیمات اسلامی سے واقف ہی نہیں۔مفتی منیب الرحمن نے جن مصدقہ کتابوں سے یہ حوالے نقل کئے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہل ِ سنت والجماعت(حنفی بریلوی) علماء کرام اور مخالفین کے موقف میں اختلاف نہیں اور وہ بھی شرک کے اتنے ہی خلاف ہیں۔جتنا کوئی دوسرا ہے البتہ بعض کم علم  یا  پیری فقیری کا دھندا کرنے والے حضرات ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں تو وہ خود ذمہ دار ہیں اور جو ان کی پیروی میں ایسا کرتے وہ گمراہ ہیں اور ان سب کو تو بہ کرنا چاہئے۔ نوید اقبال چودھری نے بھی یہ تحریر اسی مقصد کے لئے شیئر کی کہ غلط فہمی دور ہو جائے اور الزام تراشی سے پرہیز ہو اور جو حضرات و افراد ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں ان کو سمجھایا جائے،ساتھ ہی ساتھ جعلی پیروں کا قلع قمع کیا جائے کہ یہ کوئی متنازعہ عمل نہیں ہے جسے کفر و شرک کی جنگ بنا دیا گیا ہے۔

میں معذرت خواہ ہوں اور اللہ سے بخشش کی بھیک مانگتا ہوں کہ سیاست کی روا روی میں بہہ گیا اور ماہِ مقدس ربیع الاول کے حوالے سے لکھ نہ سکا، آج بھی اگرچہ سیاست میں وہی افراتفری ہے، جو معاشرے میں تقسیم کے ذمہ دار حضرات کی وجہ سے جاری ہے اور سیاسی رہنماء آپس میں گتھم گتھا ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسی لڑائی سے ہمیشہ تیسرے فریق ہی کو فائدہ ہوتا ہے۔

چھوڑیں اس کو یہیں،میں عرض کر رہا تھا کہ ہمارے مسالک کے درمیان تنازعات اور اختلافات بھی جہل اور منافقت کی بناء پر ہیں ورنہ فقہ حنفی میں یقین رکھنے والوں میں تو کوئی تنازعہ بنتا ہی نہیں ہے اور اگر اِس فقہ کو ماننے والے حضرات سے کسی اور فقہ کے ماننے والوں کو اختلاف ہے تو وہ بھی خالص علمی اور فکری ہے کہ کسی بھی فقہ کے بانی اور محرک کا آپس میں ایسا اختلاف نہیں رہا کہ مار دھاڑ کی نوبت آئے۔یہ تو فقہی مسائل کے حوالے سے اپنے اپنے دلائل ہیں جو مفادات کی بھینٹ چڑھ گئے اور اب مُلا کی سطح پر لڑائی جھگڑے کی نوبت آ گئی ہے۔میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے بڑے علماء کرام نے کبھی بھی قبروں کو پوجنے،چومنے،چاٹنے اور سجدہ کرنے کی تلقین نہیں کی،میں نے اپنا بچپن، جوانی تک کا وقت حضرت علامہ ابو الحسنات قادری کی خدمت میں گذارا،علماء اہل سنت اور پیران عظام سے رابطہ رہا اور بہت عرصہ اِن بزرگوں کی محافل میں گذرا،مجھے تو کبھی ان بزرگوں سے ایسی تعظیم کی ہدایت سننے میں نہیں ملی،جو شرعاً غلط ہو،بلکہ ان میں سے اکثر حضرات تو عقیدت مندوں کی طرف سے مصافحہ کے بعد ہاتھ چومنے سے بھی منع کرتے دیکھا۔ حضرت علامہ ابو الحسنات اور اُن کے صاحبزادے امین الحسنات، سید خلیل احمد قادری تو ہاتھ کھینچ لیا کرتے تھے۔حضرت پیر صدر المشائخ فضل عثمان کابلی مجددی تو باقاعدہ برا منا جاتے تھے اِس لئے ان غلط فہمیوں کو دور کر کے تنازعات سے بچنا چاہئے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایسے لوگوں کا محاسبہ کرنا چاہئے جو تفرقات کا باعث بنتے ہیں۔

اس عرض کے بعد اب میں آج کی تحریر کے اصل مقصد کی طرف آتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں عید میلاد النبیؐ کے حوالے سے بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں ایک برخوردار نے سنی سنائی بات کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بحث چھیڑنے کی کوشش کر دی۔ میں نے اپنی بساط کے مطابق اُس کی تسلی کی اور شکر ہے کہ یہ بحث رُک بھی گئی۔اب میرا فرض ہے کہ ایک بار پھر  بارہ وفات سے عید میلاد النبیؐ  تک کے سفر کی حقیقی روائداد بتاؤں کہ غلط فہمی دور ہو،یہ درست ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے12ربیع الاول کو یوم وفات کے حوالے سے دیسی زبان میں بارہ وفات کہا جاتا اور منایا جاتا تھا۔اِس سلسلے میں جلوس کی ابتدا بھی بارہ وفات کے جلسوں ہی سے ہوئی۔آغاز محلہ تکیہ سادھواں اندرون اکبری دروازہ سے ہوا،قیام پاکستان سے پہلے ہمارے شہری نوجوان غازی علم الدین شہیدؒ کی جرأت اور قربانی سے بہت متاثر تھے۔ شہید کا تعلق کسیرا بازار سے تھا جو تکیہ سادھواں سے ملحق ہے۔ہندو مسلم مخلوط آبادی ہونے کی وجہ سے ہندو اپنی تقریبات کے حوالے سے جلوس بھی نکالا کرتے تھے،ایسے میں راج پال کی گستاخی اور غازی علم الدین شہید کے ہاتھوں اس نامراد، گستاخ کے قتل کا واقعہ پیش آیا اور علم الدین شہید نے وکلاء کے اصرار کے بعد بھی اعترافِ قتل سے انکار نہ کیا اور پھانسی چڑھ کر موت کو گلے لگا کر شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو گیا، ہمارے اندرون شہر کے نوجوان بہت متاثر تھے اور غازی و شہید کے ترانے گاتے تھے۔

انہی حالات میں تکیہ سادھواں کے اُبھرتے نوجوان عنایت اللہ قادری نے چند دوستوں کو ساتھ ملا کر فخرانسانیت، نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفےٰؐ کے یوم وفات کے حوالے سے جلوس کا آغاز کیا،ابتدا ایک آدھی درجن نوجوانوں کی ٹولی سے ہوئی، سب سفید دھلے ہوئے کپڑوں میں ملبوس، درود و سلام پڑھتے ہوئے پیدل روانہ ہوئے اور پیدل ہی بیرون اکبری دروازہ، دہلی دروازہ، کشمیری بازار، پانی والا تالاب،ناولٹی چوک اور اندرون بھاٹی دروازہ سے ہوتے ہوئے داتا دربار پہنچے۔یہ سلسلہ چند سال چلا تو نوجوانوں کی تعداد بھی بڑھ گئی،پھر خود عنایت اللہ قادری اور دوسرے نوجوانوں کی درخواست پر  علامہ ابو الحسنات نے بھی شرکت کی۔ان کو تانگے پر سوار کرایا گیا اور وہ راستے میں خطاب بھی کرتے گئے۔

حضرت علامہ ابو الحسنات کی شرکت ہی سے رخ تبدیل ہوا،ان کے خطاب کی روشنی میں یہ طے تھا کہ حضور اکرمؐ کی دنیا میں تشریف آوری اور جدائی کی تاریخ ایک ہی ہے، حضورؐ نے اللہ کی عنایت سے بارہ ربیع الاول ہی کو دنیا کو ظہور بخشا، اپنا مشن پورا کرنے کے بعد واپس ذاتِ باری کے پاس تشریف لے گئے، تو وہ بھی12 ربیع الاول کا ہی دن تھا۔اِس بناء پر حضرت علامہ ابو الحسنات کے ایماء پر جامع مسجد وزیر خان اور ان کی رہائش پر علماء کرام کے اجتماعات ہوئے اور ان میں علمی گفتگو کے بعد یہ طے پایا کہ چونکہ دنیا میں تشریف آوری اور پردہ پوشی کی تاریخ ایک ہی ہے اور حضورؐ دنیا کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے،اِس لئے ان کا یوم وفات منانے کی بجائے جشن ِ ولادت منایا جائے کہ حضورؐ  کی آمد پر ان کی والدہ، دادا اور اعزاء و اقرباء کے ساتھ ساتھ فرشتوں نے بھی خوشی منائی،اِس لئے ہمیں بھی یوم ولادت ہی منانا چاہئے، چنانچہ جب متفقہ طور پر یہ طے ہو گیا تو پھر بارہ ربیع الاول یوم میلاد مصطفےٰ  ؐ ٹھہرا اور اس کے بعد یوم عید میلاد النبیؐ  ہوا اور جلوس بھی اسی حوالے سے نکلا،پھر12ربیع الاول پر اجماع ہوا اور اب پوری دنیا میں یوم میلادؐ ہی منایا جاتا ہے اور جلوس بھی جلوس میلاد النبیؐ کے ہوتے ہیں۔

اب وہ بڑی غلط فہمی مزید دور کر دوں جو شرک و بدعت کے حوالے سے ہے،جلوس میلاد النبیؐ کی تعداد بڑھتی گئی، حضرت علامہ ابو الحسنات اور ان کے صاحبزادہ امین الحسنات خلیل احمد قادری بھی شریک ہوتے رہے تاہم جوں جوں ہجوم بڑھا تو منتظمین کی بہترین کوشش کے باوجود جلوس کا پہلے والا تقدس برقرار نہ رہا،اس کے بعد علماء کرام نے اپنی شرکت روک کر خود کو محافل میلاد اور جلسوں تک محدود کر لیا،اب جو حالات ہیں ان کے مطابق جو غیر شرعی حرکات ہوتی ہیں ان کے ذمہ دار وہ حضرات خود ہیں جو ایسا کرتے ہیں، اِس لئے اسے مثال بنا کر یوم میلاد کو غیر مناسب کہنا یا تنقید درست نہیں،جو حرکات غیر شرعی ہیں وہ کسی کے کہنے اور کرنے سے شرعی نہیں ہو سکتیں،اس لئے اعتراض بھی وہاں کریں جہاں یہ سب ہو یا جو کوئی کرے اس سے شانِ رسالتؐ میں کوئی فرق نہیں اور نہ آنا چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -