حضور نبی کریم ؐ کی سیرت طیبہ!

  حضور نبی کریم ؐ کی سیرت طیبہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک شہباز علی کھوکھر ایڈووکیٹ 

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی رسول اور نبی ہونے کے ناطے بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ آپ دین ِالٰہی کو بیان کریں اور قرآنِ مجید کی تشریح اور تفسیر کریں۔ سنت ِشریفہ حقیقت میں قرآن کی تشریح، تفصیل اور تفسیر ہی کو کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نبی ہونا لوگوں کو اپنی ضروریاتِ دینی اور دنیوی کے سلسلے میں آپ کی طرف مراجعت کرنے میں مانع نہیں تھا، کیونکہ دونوں جہانوں کی سعادتوں کا حصو ل آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے پر منحصر تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات حسنہ اور فضائل وکمالات انسانی میں باکمال  ہونا سبب بنا کہ لوگ اپنی زندگی کے اختلافی مسائل اور مشکلات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نمونہ قرار دے کر آپ کی سیرتِ طیبہ سے مستفید ہوں۔ آپ کی یہ مقبولیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بنی نوع انسان کی ہدایت کا سرچشمہ قرار دینے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو سب سے زیادہ افضل اور بہتر قرار دینے کی وجہ سے ہوئی۔

 اچھے اخلاق و عمدہ خصائل قیادت کی اعلیٰ خصوصیات میں سے ہیں۔حسن ِاخلاق قیادت و سیادت کو استحکام بخشتے ہیں۔ حسنِ اخلاق کی بدولت اپنے تو اپنے دشمن، باغی اور سرکش لو گ بھی مطیع بن جاتے ہیں۔بااخلاق قیادت سے مرجھائے ہوئے دلوں میں امید،عزم، حوصلہ اور زندگی کی امنگ پیدا ہوجاتی ہے۔عمدہ اخلاق کے ذریعے انسان لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اخلاق و کردار کے سب سے افضل اور بلند مقام  پر فائز تھے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اخلاقِ کریمانہ سے پوری دنیا کو فتح کرلیا۔آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخلاق ِحسنہ، اور معاشرتی و  انسانی اقدار کے حامل ہونے کے حوالے سے بے مثل تھے، آج کی اصطلاح میں  اس صفت کو  فطری  اور موروثی صلاحیت اور استعداد بھی کہا جاتا ہے جو کسی بھی اقدار اور اخلاق کے قبول کرنے کے لیے ہونا ضروری ہوتی ہے۔ ان صفات کے علاوہ بہت سی دیگر صفاتِ محمودہ اور اعلیٰ  امتیازی خصوصیات میں بھی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باقی انسانوں سے جدا تھے۔پس انہی اعلیٰ صفات اور کمالات کی وجہ سے ہی  نبی اکرم  حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے منتخب فرمایا، اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت  کو اپنی اطاعت قرار دیا؛ جیسا کہ قرآن کہتا ہے:  ترجمہ:  جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے منہ پھیر لیا تو ہم نے آپ کو ان کا نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا۔

اطاعت، خوشدلی کے ساتھ تابعداری کرنے کو کہتے ہیں۔ طَاعۃ کے مقابلے میں کْرۃ آتا ہے، جس کے معنی ناگواری اور کراہت کے ساتھ کسی کام کو انجام دینے کے ہیں۔ لہٰذا اطاعت وہ ہے جو کسی جبر و قہر کے بغیر رسولؐ کی محبت کی وجہ سے انجام دی جائے۔ رسولؐ سے محبت اس وقت ہو گی جب ان کے سارے فرامین کو اللہ کی طرف سے مان لیا جائے اور ان پر عمل کیا جائے تواس وقت رسولؐ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔  وہ  جو بھی کہتے ہیں وہ حکم خدا  سے ہی کہتے ہیں اپنی طرف نہیں کہتے؛جیسا کہ قرآن کہتا ہے:  ترجمہ: وہ خواہش سے نہیں بولتا۔ یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (ان پر) نازل کی جاتی ہے۔

چونکہ نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اللہ کے آخری نبی، اور تمام گزشتہ انبیاء علیھم السلام کی صفات کے مالک تھے،آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات، تمام انبیائے کرام علیھم السلام کی تبلیغات وتعلیمات کا ما حصل اور نچوڑ تھیں،اورآپ کی لائی ہوئی شریعت  قیامت تک کے لیے تھی،  لہٰذا اس شریعت پر عمل پیرا ہونا قیامت تک تمام انسانوں کے لیے سعادت الدارین کی ضمانت ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  اسلامی معاشرے میں ایک ایسا عادلانہ اور منصفانہ نظام  نافذ کیا، جس کی بنیاد قرآنِ حکیم کی الٰہی تعلیمات تھیں، آپؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام عالمین کے لیے بشیر اور نذیر تھے، اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے روئے زمین پر ایک ایسی الٰہی اور حکیمانہ حکومت قائم کی، جو عام انسانوں کی طرف سے بنائی گئی حکومتوں سے یکسر مختلف تھی، اور جس کے قائد، سربراہ اور مسؤل اپنے کردار، رفتار، گفتار میں وحی ئالٰہی کے تابع تھے، اور جن کے بیان کردہ احکام من جانب اللہ ہوتے تھے، چنانچہ ایسی قیادت اور رہبری دنیا اورآخرت دونوں میں انسانوں کے لیے یکساں  مفید تھی۔

نبی اکرم حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے معاشرے  کی اسی نہج پر تربیت شروع کی جس نہج پر پروردگارِ عالم  نے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تربیت کاآغاز ویسی ہی علم وآگاہی سے کیا، جس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت علم اورآگاہی سے ہوئی تھی۔آپ نے معاشرے کو  سیاسی، اقتصادی، مالی، معاشی، عسکری، فکری اور علمی اعتبار سے تربیت کی اس سطح پر پہنچایا  کہ وہ معاشرے مختصرسے عرصے میں جہالت، تعصب، توہمات اور خونخواری سے نکل کر ایک ایسے تعلیم یافتہ، پُر امن، حقیقت پسند مہذب اور متمدن معاشرے میں بدل گیا، جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ تمام ترسعادتیں اور کامیابیاں  اس لیے ممکن ہوئیں کہ تمام مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نمائندہ ئالٰہی سمجھتے تھے، جو عصمت کی منزلت پر فائز تھے، اور تمام تر ممکنہ انسانی غلطیوں اور لغزشوں سے مبرا اور پاک تھے، جن کی طرف سے بیان ہونے والے احکامات اور ہدایات حقائق پر مبنی تھے، جن کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ  نے سب پر فرض کیا ہوا تھا، اور جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے زیادہ تصرف کا حق دیا ہوا تھا، اور دین کے معاملات میں موردِ اعتماد قرار دیا ہوا تھا۔پس کیونکہ آپ دینی مسائل میں مرکز شمار ہوتے تھے، اسی لئے دنیاوی امور اور جزئیات میں بھی  بطریق ِاُولیٰ سب کے لیے مورد ِاعتماد تھے۔ 

اللہ تعالیٰ کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منتخب کرنا اور انہیں اپنے آخری نمائندے کے طور پر چننا بغیر کسی ملاک ومعیار کے نہیں تھا، بلکہ یہ اس لیے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باقی تمام انسانوں سے حسب ونسب، فہم وفراست، فضیلت وپرہیزگاری،کردارورفتاراور علمیت کے اعتبار سے جدا اور اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے اورآپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لائق تھے کہ تمام عالم کی ہدایت کے لیے نمائندہئ الٰہی بن جائیں  اورآپ کے ذریعے انسانوں کو مقصد ِتخلیق کی طرف لے جایا جائے۔

آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے افضل تھے تو ایسی افضل شخصیت کے ہوتے ہوئے عقلاً یہ درست نہیں ہے کہ مفضول اور فاضل کو افضل پر اور کامل کو کامل تر پر مقدم کرے،وگرنہ  اللہ تعالیٰ کی حجت لوگوں پر مکمل اور تمام نہیں ہوگی۔ خاص طور پر اگر لوگوں  کاآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نمائندہ ئالٰہی کے طور پر قبول کرنا اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ فضیلت اور اولویت کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جیسا کوئی نہیں تھا۔ اگرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی طرف سے منتخب نہ ہوتے تو عام لوگوں میں تو  یہ صلاحیت اور قوت موجود ہی نہیں  تھی کہ وہ افضل کو فاضل  سے اور اکمل کو کامل سے جدا کریں، کیونکہ  اس کے لیے   خصوصی صلاحیت درکار ہوتی ہے، جبکہ تمام صاحبانِ عقل وفہم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسے شخص کو تقدم حاصل ہونا چاہیے جو کمالات اور صفاتِ انسانی کے لحاظ سے دوسروں سے افضل ہو۔ پس یہ بشر کے لیے لطف وکرم  ِالٰہی تھا کہ نبی اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منتخب کیا جو تمام تر  فضائل اور کمالات میں باقی تمام سے ممتاز اور جدا تھے۔

اگرچہ ان صفات میں سے بعض رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے علاوہ کسی اور شخص  میں بھی ہوسکتی ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ وہ صفات صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہی میں ہوں،بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایسا شخص ان صلاحیتوں کا حامل اور مالک ہوجو مسلم معاشرے کی اقتصادی، مالی، سیاسی اور اجتماعی نظام کو چلانے کے لیے ضروری ہیں، حتیٰ کہ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص  دینی امور کے معامالات میں لوگوں کی رہنمائی بھی کرے، لیکن ان تمام اوصاف کے باوجود وہ اس چیز کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ وہ اپنے آپ کو اور باقی لوگوں کو تمام ترغلطیوں، لغزشوں، شخصیت پرستی اور انا پرستی سے بچا سکتا ہے، کیونکہ یہ ضمانت وہی ذات اور ہستی فراہم کرسکتی ہے جس کو خدا نے تمام تر غلطیوں، اشتباہات، اور لغزشوں سے معصوم بناکر خلق کیا  ہواہے اوروہ ذات، حضورِاکرم حضرت محمد مصطفیؐ کی ذاتِ گرامی ہے کہ جن کو اللہ نے نبی بنا کر عصمت کی منزلت پر فائز کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی خصوصیات عطا کی تھیں جوآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطاکردہ منصب کی حفاظت کرتی ہیں، اور انہی خصوصیات کی وجہ سے لوگ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی باتوں پراعتماد کرتے تھے اور ان پر عمل پیرا ہوتے تھے۔

انہی کمالات، خصوصیات اور فضائل کی وجہ سے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس ایک سے زیادہ ایسے مناصب موجود تھے جو کسی دنیوی بادشاہ کے پاس موجود نہیں تھے۔ اس کے ساتھ ہی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  لوگوں میں اس قدر مقبول ہوئے کہ لوگ  بلاچوں چراآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی باتوں پر عمل کرتے تھے، یقیناآپ ایک طرف تو معصوم نبی تھے، جبکہ دوسری طرف قرآن کے کلی دستورات، جزئیات، اصول، اور مبادیئ قرآن  کے شارح، اور اس کی عملی تفسیر بھی تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقوق الناس، اور ان کے واجبات کی بہت زیادہ پاسداری کیا کرتے تھے۔بے شک آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سیرت، جسے سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہا جاتا ہے، لوگوں کے لیے نمونہ ئ  عمل تھی۔

final

5

مزید :

ایڈیشن 1 -