جنات کا غلام۔۔۔ اٹھائیسویں قسط
معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘
ستائیسویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
کہاں تھے تم؟ میرے سامنے زلیخا کھڑی تھی سر پر سفید چادر لئے، حوروں جیسا تقدس تھا اس کے چہرے پرلیکن آنکھیں سوز و ہجر کے آنسوﺅں میں سوگواری کا غم اٹھائے نظر آ رہی تھی لہجہ گھمبیر۔
آﺅ دیکھو
یہ لو .... پی لو .... اماں کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی کہہ رہی تھیں میرے پتر کا پیپر ہے اسے دے آﺅ، زلیخا میرے سامنے موڑھے پر بیٹھ گئی۔ کہاں تھے تم؟ زلیخا نے تکلف پاش لہجے میں کہا، آپ سے تم کا رشتہ استوار کرکے وہ کہہ رہی تھی اگر یوں خدمات بن کر آوارہ گردی کرتے رہو گے تو امتحان میں پاس کیسے ہو گے ؟؟
میں نے پاس ہو کر کیا لینا ہے؟ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے میں کہیں کھو گیا اور ہزار احتیاط کے باوجود میرے منہ سے نکل گیا، میں تو جس امتحان میں ڈال دیا گیا ہوں اس کا نتیجہ میرے حق میں کبھی نہیں نکلے گا، میں نے بہت کچھ کھو دیا ہےزلیخا۔ خوشیاں میری دسترس سے بہت دور ہو گئی ہیں، میرا حلق آنسوﺅں سے تر ہو گیا، آنکھیں تو کب سے خشک ہو گئی تھیں۔ میں نے آنسوﺅں کو آنکھوں سے بہنے کی اجازت نہیں دی۔زلیخا نے نظریں نیچی کر لیں او ر بے بسی سے انگلیاں مروڑنے لگی پھر اٹھ پڑی، آنکھوں سے دو آنسو ٹپک پڑے۔
بیٹھو ناں چھپانے کے باوجود میں اپنے گلوگیر لہجے کو نارمل نہ رکھ سکا۔اس نے چادر کے پلو سے آنکھیں صاف کیں اور ٹھہرے ٹھہرے انداز میں سانسیں بھر کر پلٹی ”چلتی ہوں میں“ اس نے کہا ،صرف تم ہی نہیں میں بھی امتحان میں مبتلا ہوں۔ ایک ایسے امتحان میں جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا .... ہمیں اب اپنے اپنے وعدوں کا پاس رکھنا ہے، ہمارے اختیار میں کچھ نہیں رہا، ہماری سانسوں پر کسی اور کا اختیار ہے، یہ کہہ کر وہ جلدی سے باہر نکل گئی اور میں کتاب کے ورقوں میں اپنا چہرہ چھپا کر ہچکیاں بھر بھر کر رونے لگا .۔۔ میں روتا رہا بہت رویا .... کہ ایک گداز نہایت مہرباں اور خلیق ہاتھ میرے کندھے پر محسوس ہوا، میں نے پلٹ کر دیکھا، آنسوﺅں کی دھند کے پار ٹاہلی والی سرکار کا چہرہ دھندلا دھندلا نظر آ رہا تھا۔
”نہیں میرے بچے ایسا بالکل نہیں کرنا یہ عشق کی آگ تجھے بھڑکا رہی ہے، اگرچہ عشق حقیقی عشق مجازی تک لے جاتا ہے مگر میرے بچے تو وعدہ کر چکا ہے تو صرف ایک عشق کی راہ کا مسافر ہے ،تو امتحانوں میں سرخرو ہو گا، تجھے آرزوئے زلیخا نصیب ہو گی مگر اس طرح نہیں“ میں بے تابی سے محروم ایک بچے کی طرح بلکتا ہوا اٹھا اور ٹاہلی والی سرکار کے سینے سے لگ کر اپنے سینے میں اٹھنے والے طوفان کو مات دینے کی کوشش کی مگر آنسوﺅں کی دھند کے اس پار جاتے ہی ٹاہلی والی سرکار کا وجود عنقا ہو گیا۔ بابا .... سرکار ۔۔۔میں چاروں طرف دیکھنے لگا۔ کاندھے پر ان کے ہاتھوں کا لمس میری آنکھوں کے سامنے ان کا شفیق چہرہ ،سماعتوں میں ان کے الفاظ اور کمرے میں ان کے وجود کی مخصوص مہک کا احساس اس قدر قوی تھا کہ میں انہیں غائب پا کر بھی انہیں اپنے آس پاس پا رہا تھا۔
میں نصاب کی کتاب ایک طرف رکھ کر ہجر وصل کی کتاب کو چپکے چپکے پڑھ رہا تھا، میری ہچکیاں فضا میں پھیل چکی تھیں اور آنسو اوس بن کر مجھے ہی بھگو رہے تھے۔ ٹاہلی والی سرکار کا احساس بھی مجھے اس بھیگے ہوئے ماحول میں شدت سے ہو رہا تھا۔ وہ ہولے ہولے نرمے نرمے مجھے سمجھا کر جا بھی چکے تھے مگر میں ابھی تک کہیں کھویا ہوا تھا۔ یہ عشق اور وہم بھی کیا چیز ہوتے ہیں، اگر دل میں بس جائیں یا عقل میں پھنس جائیں انہیں نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ مجھے واضح طو ر پر یہ سمجھایا جا چکا تھا کہ مجھے زلیخا کا خیال چھوڑ دینا ہو گا اور اسے بھول کر مجھے زبان بند رکھ کر اپنے ماحول میں جینا ہے لیکن یہ میرے لئے بڑا مشکل ہو رہا تھا۔ میں بے بس پرندے کی طرح کمرے میں چکر کاٹنے لگا۔ بہت چاہا بڑی کوشش کی کہ زلیخا کا چہرہ‘ اس کا خیال اور اس کی باتیں میرے ذہن سے نکل جائیں لیکن کوئی چارہ نہیں تھا۔
بالاخر میں کمرے سے نکل کر باغیچے میں چلا گیا۔ میں اپنی سوچوں کو ذہن کے کواڑوں سے باہر پھینکنے سے تو رہا۔ ایک ہی راستہ تھا خود کو دوسرے ماحول میں مصروف کرکے میں زلیخا کی یادوں سے فرار حاصل کر سکتا تھا لیکن یہ بھی دل کو سمجھانے کے لئے طفل تسلی ہی تھی۔ باغیچے میں کھڑا تھا کہ نظریں بے اختیار زلیخا کے کمرے کی طرف اٹھ گئیں۔ وہ اس وقت چھجے میں کھڑی تھی اور خلاﺅں میں کچھ تلاش کر رہی تھی۔ میں نظریں چرا کر ایک پودے کے پیچھے چلا گیا، چند ثانئے بعد میرا دل مچلنے لگا اور میں پودے کے پتے ہٹا کر شاخوں کی اوٹ سے زلیخا کو دیکھنے لگا کہ معاً کسی نے دھیرے سے میرے کاندھے پر دستک دی
”کک .... کون“ میں ہڑبڑا کر پلٹا تو ملک صاحب کھڑے تھے۔پتر یہاں کیا کر رہے ہو ؟ وہ باغیچے کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھنے لگے۔۔
بس .... وہ چاچا جی ،میں بوکھلا کر بولا وہ ناں .... میرا دل گھبرا رہا تھا اس لئے یہاں چلا آیا، وہ کیا ہے ناں .... مجھے پودوں سے بڑا پیار ہے دل گھبراتا ہے تو ان کے پاس آ جاتا ہوں بڑا سکون ملتا ہے۔مگر پتر ابھی تو ادھر حبس ہے اس وقت پودوں کے نیچے نہیں بیٹھنا چاہئے“
میں کیا کہتا کہ میرے اندر تو اس سے بھی زیادہ حبس ہے، میرے بولنے سے پہلے ہی بولے”پتر کچھ دنوں کے لئے میں اسلام آباد جا رہا ہوں، ادھر میں بری امام بھی جاﺅں گا تم کبھی گئے ہو بری امام ؟؟؟ہاں .... گیا ہوں، کئی سال پہلے گیا تھا، میں نے کہا۔
وہ منہ میرے قریب لا کر سرگوشی کے انداز میں بولے ”ادھر اسلام آباد میں میرا ایک پرانا دوست ہے اسے روحانیت اور تصوف سے عشق ہے، وظائف کرتا رہتا ہے، بڑا نیک آدمی ہے۔ اس کے مرشد بری امام کی پہاڑیوں میں رہتے ہیں تم نے بری امام کی پہاڑیوں میں اس غار کو دیکھا ہے جہاں بری امام سرکار عبادت و ریاضت کرتے تھے؟؟؟
نہیں .... میں نے اس بارے میں کچھ نہیں سنا۔ کیا اس غار میں کوئی ہے؟؟میں نے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے پوچھا
سنا ہے، میں نے دیکھا نہیں، کہتے ہیں بڑی چھوٹی اور تنگ سی غار ہے اس میں ایک انسان کیڑوں کی طرح رینگ کر اندر داخل ہو سکتا ہے۔ لوگ اس غار کو دیکھنے جاتے ہیں، میرے دوست شیخ امجد کے مرشد اس غار میں ریاضت کرتے رہے ہیں۔آپ کیوں جا رہے ہیں؟میں نے پوچھا۔۔۔
میں کیوں جا رہا ہوں؟ وہ آہ بھر کر بولے، ان کے چہرے پر دکھوں کی گھٹائیں چھا گئیں۔ زلیخا کے چھجے کی طرف نظریں اٹھا کر کہنے لگے ”تم نے دیکھا ہے میری زلیخا کو کیا ہو گیا ہے؟؟ دیکھو میرے بچے، میں تمہیں اپنے بہت قریب سمجھتا ہوں اس لئے کسی سے اس بات کا ذکر نہیں کر رہا، صرف تمہیں بتا رہا ہوں میں شیخ امجد کے مرشد سے مل کر تمہارے اس ریاض شاہ اور بابا جی کے بارے میں بہت سی باتیں کرنا چاہتا ہوں ممکن ہے وہ ہماری کچھ مدد کر دیں۔۔۔لیکن چاچا۔۔۔میں کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ وہ بولے۔
نہیں پتر تیرے سوا میں کسی اور کو اس مقصد میں شریک نہیں کرنا چاہتا۔نہیں میں تو یہ کہہ رہا تھا اگر ریاض شاہ اور بابا جی کو معلوم پڑ گیا تو کیا ہو گا؟ میں نے خدشہ ظاہر کیا، میں ٹاہلی والی سرکار سے یہ وعدہ کر چکا تھا کہ اب ریاض شاہ کے خلاف کچھ نہیں کریں گے۔ اس لئے تو زلیخا واپس آ گئی تھی۔ اس وقت میں نے بات کو چھپانا مناسب نہیں سمجھا اور ملک صاحب کو ٹاہلی والی سرکار سے ملاقات اور ان سے کئے ہوئے وعدے کے بارے بتا دیا۔ میری بات سن کر وہ خاموش ہو گئے۔لیکن پتر جی“ وہ کہتے کہتے رک گئے۔ چند ثانئے بعد بولے
تو نے وعدہ کیا تو میں اس کی لاج رکھوں گا لیکن میں اپنے خاندان کو تباہ و برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ ریاض شاہ نے میرے گھر کا تنکا تنکا اپنا غلام بنا لیا ہے۔ ایک صرف میں ہوں اور ایک تو، باقی سب کی عقلوں پر تو پردہ پڑ چکا ہے“ میں انہیں کیا بتاتا کہ میری عقل تو کب سے ماری جا چکی ہے۔ جس دشت کی سیاحی کو میں نکلا تھا اس میں تو دور دور تک کسی صحیح سمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ انسان مجنوں کی طرح بھاگتا پھرتا رہتا ہے اور منزل کا کوئی سُراغ نہیں ملتا۔ اس راہ میں عقل محو حیرت رہتی ہے، اس کے کرنے کا کوئی کام نہیں ہوتا، عقل تو ایک ضعف زدہ بوڑھے کے جسم جیسی ہوتی ہے جو کانپتی اور ہانپتی رہتی ہے کیونکہ .... کیونکہ .... وہ جو کچھ دیکھتا ہے ایک انہونی‘ غیر حقیقی بات سامنے آتی ہے ،عقل سے ماورا .... وہ اسرار کے پردوں میں لپٹی اس مخلوق اور اس دنیا کی وسعتوں کو پرکھنے اور ماپنے سے عاجز آ جاتی ہے۔ اس راہ میں عقل دو کوڑی کی نہیں رہتی۔
ٹھیک ہے .... میں آپ کو نہیں روکوں گا میرے پیپر ختم ہونے والے ہیں میں اب گھر واپس چلا جاﺅں گا۔
جب تک میں واپس نہ آ جاﺅں تو کہیں نہیں جائے گا، ملک صاحب نے کہا
دن ڈھل رہا تھا، میں اور ملک صاحب خاصی دیر تک باغیچے میں ہی باتیں کرتے رہے۔ زلیخا چھجے سے ہٹ چکی تھی۔ شام ہونے کو تھی جب میں کمرے میں واپس آیا اور مردہ ہاتھوں سے کتاب اٹھا کر پڑھنے لگا۔ مغرب کی اذان ہوئی تو میں نے کتاب چھوڑی نماز پڑھی اور دوبارہ پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ آدھ گھنٹہ بھی نہ گزرا ہو گا نوکر نے آ کر بتایا کہ ایک بوڑھی عورت اور مرد اپنی بیٹی کے ساتھ شاہ صاحب کے پاس آئے ہیں اور مجھے بلا رہے ہیں، میں سمجھ گیا بلقیس آئی ہو گی۔ میں جلدی سے شاہ صاحب کے کمرے میں پہنچا، وہ میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔ بلقیس کی حالت خاصی بگڑی ہوئی تھی، بال اڑے ہوئے تھے اور چہرہ کسی اپاہج بوڑھے کی طرح عجیب سے انداز میں بگڑا ہوا تھا، مجھے دیکھتے ہی چلائی۔
یہی ہے.... یہی ہے، میں اسے مار ڈالوں گی، بلقیس کسی آفت زدہ گدھ کی طرح مجھ پر جھپٹی
رک جاﺅ .... اس لکیر کو پار کیا تو ماری جاﺅ گی، ریاض شاہ نے گرجدار آواز میں میرے اور بلقیس کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی۔
بلقیس چلائی ، بڑا دیکھا ہے میں نے تری لکیروں کو، یہ کہہ کر وہ لکیر پار کر گئی اور اس کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ اس وقت تک میں صورتحال کا اندازہ نہیں لگا سکا تھا ۔مجھے سمجھ بھی نہیں آ رہی تھی کہ بلقیس کو اچانک کیا ہوا ہے، اس نے مجھے یوں پکڑ لیا تھا جیسے چیل جھپٹا مار کر چوزے کو اٹھاتی ہے۔ اس نے اتنے زور سے مجھے اٹھا کر فرش پر پٹخا تھا کہ میرے لبوں سے کربناک چیخ نکل گئی اور لگا جیسے بدن کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں۔ اس سے پہلے کہ شاہ صاحب اس کو پکڑتے وہ میرے سینے پر سوار ہو گئی اور میرے چہرے پر دونوں ہاتھوں کے ناخن میخوں کی طرح گاڑھ کر ہذیانی انداز میں چلائی
میں اپنی پیاس ترے خون سے بجھاﺅں گی، ترا سرخ سرخ خون پیوں گی ،نیچے گرنے سے میرا سر گھوم رہا تھا، چہرے میں اس کے ناخن اترتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ اس میں اتنی قوت آ گئی تھی کہ مجھے لگا میں منوں ٹن وزنی پتھر کے نیچے دب گیا ہوں، یہ سب کچھ لمحوں میں ہو گیا تھا، اس وقت مجھے احساس ہوا کہ بلقیس کے اندر کوئی طاغوتی قوت داخل ہو چکی ہے۔ میرے چہرے سے خون پھوٹنے لگا تھا۔ اس نے ناخنوں پر لگے خون کو چاٹ لیا اور استہزائی انداز میں قہقہے لگانے لگی۔ بڑا میٹھا ہے ترا خون، مزہ آ گیا، مزہ آ گیا وہ سر لہرا لہرا کر قہقہے لگانے لگی۔ مجھے یہ چند لمحے صدیوں پر بھاری لگے، میں نے چلانا چاہا مگر میری آواز حلق میں ہی دب کر رہ گئی، وہ میرے چہرے پر ناخن مار مار کر خون نکالتی اور انگلیاں چاٹنے لگتی۔ مجھے لگا جیسے ریاض شاہ مجھے یونہی تڑپتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ بلقیس کے اندر طاغوتی قوت اس سے بھاری تھی جو اس کی کھینچی ہوئی لکیر پار کر گئی تھی۔ میں سخت اذیت میں تھا اور ماہی بے آب کی طرح مچلنے لگا، کوئی بھی تو آگے نہ بڑھ رہا تھا
بڑا مزہ آ رہا ہے، واہ بڑا مزہ آ رہا ہے“ بلقیس کا جنون بڑھتا جا رہا تھا اور میرے ذہن پر اب اندھیرا چھانے لگا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے دم نکلنے کو اب کچھ ہی سمے رہ گیا تھا، میرے ذہن سے ہر کسی کا تصور مٹتا جا رہا تھا کہ یکایک دروازہ کھلا اور ایک مانوس چیختی چلاتی آواز میرے تصور کو زندہ کرتی ہوئی رگ و پے میں داخل ہو گئی۔
شاہد .... یہ زلیخا تھی، یہ آواز میرے بہت قریب سے آ رہی تھی۔ اس کے ساتھ بلقیس نے زور سے چیخ ماری تھی اور الٹ کر پیچھے گر گئی تھی، میرے سینے سے بوجھ اترا تو سکون کی ایک لہر سی محسوس ہوئی لیکن میرا سارا چہرہ جلنے لگا تھا جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا لیکن میں جلد ہوش میں آ گیا۔
میں نے دیکھا زلیخا کے ہاتھ میں بڑا سا ڈنڈا تھا۔ وہ بلقیس کے سر پر کھڑی تھی اس نے زور سے ڈنڈا بلقیس کی ٹانگوں پر مارا وہ بلبلانے لگی، خون پئے گئی تو اس کا ؟؟؟ے پی .... اب اپنا خون چاٹ لے، بلقیس کے سر سے خون نکل کر اس کے چہرے پر بہہ رہا تھا۔ بلقیس کی ماں اور اس کے باپ نے آگے بڑھ کر زلیخا کو روکنا چاہا تو وہ دھاڑی ”ڈائن اس کا خون پی رہی تھی تو تب تم آگے نہیں بڑھے۔ اب بڑی تکلیف ہو رہی ہے، پیچھے ہٹ جاﺅ تم۔زلیخا .... بس کرو یہ مر جائے گی“ اس لمحہ ریاض شاہ نے زلیخا کے ہاتھ سے ڈنڈا چھین لیا۔ زلیخا نے قہر بھری نظروں سے اسے دیکھا اور پھر مرے پاس بیٹھ گئی۔ اپنے دوپٹے کے پلو سے میرا چہرہ صاف کرنے لگی، اس کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو رہی تھیں لیکن میرے چہرے سے خون بہتا دیکھ اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔اٹھو کمرے میں چلو میں دوا لگاتی ہوں۔ اس کے لہجے میں اتنا پیار اور جذباتیت تھی کہ میں کسی سحرزدہ انسان کی طرح اس کے ایک اشارے پر اٹھا۔ اس نے میرا بازو تھام رکھا تھا، سامنے سے ملک صاحب آ رہے تھے اپنے والد کو آتا دیکھ کر زلیخا ایک لمحے کے لئے جھجکی لیکن اس نے میرا بازو نہیں چھوڑا۔کیا ہوا ہے اسے؟؟ملک صاحب نے میرے چہرے کو خون میں لتھڑا ہوا دیکھا تو پریشان ہو گئے، میں نے ہانپتے ہوئے انہیں صورتحال بتائی۔
اوہ میرے اللہ .... میری حویلی تو اب آسیب زدہ لوگوں کا مقبرہ بن جائے گی، ملک صاحب لاچارگی اور غصے کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ بولے ”بیٹی تو اسے دوا لگا دے میں دیکھتا ہوں اندر کیا ہو رہا ہے۔نہیں آپ نہیں جائیں گے،میں نے انہیں روک دیا۔ بس یہ اتفاقاً ہوا ہے۔ اس لمحے میرے دل سے آواز اٹھی۔ یہ اتفاق بھی بڑا حسین اور مہربان ہے، چلو اچھا ہوا۔ زلیخا میرے اندر کے گھاﺅ سے رستے خون کو تو صاف نہیں کر سکی، میرے آنسوﺅں کو نہیں پونچھ سکی۔ اس بہانے آج اس کی محبتیں اور چاہتیں کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔ مسیحائی ہاتھوں سے وہ میرے زخموں کو صاف کر رہی ہے، اچھا ہی ہوا ناں .... عشق کے مارے ایک گرفتہ حال دل کو ایسے مسیحا لمحے بہت اچھے لگتے ہیں، سو مجھے بھی یہ اتفاقیہ حادثہ بہت بھلا محسوس ہوا۔ زلیخا نے میرے چہرے پر دوا لگائی اور بولی ،اب تم آرام کرو اس کا لہجہ ایک تندرست اور باہوش لڑکی سے متعارف کرا رہا تھا۔
زلیخا .... تم اچانک کمرے میں کیسے آ گئی اور یہ سب؟؟ْمیں نہیں جانتی .... نہ جانے میں کن خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ تمہاری چیخ سنی تو مجھے لگا جیسے .... جیسے،وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔جیسے .... جیسےمیں خوشگوار انداز لئے اس سے مخاطب ہوا ،کہو ناں جیسے .... کیا ہوا؟؟کک .... کچھ .... نہیں“ وہ شرما گئی، اس کا شرمانا مجھے بہت اچھا لگا، اس کے گداز‘ ریشمی مخروطی ہاتھوں پر خون لگا ہوا تھا، مجھے بڑا بھلا لگا۔میں نے کہا ”زلیخا تمہارے ہاتھوں پر مہندی لگی ہے؟؟اس نے چونک کر ہاتھ دیکھے ،نہیں تو۔
یہ کیا ہے؟؟؟میں نے اشارہ کیا۔یہ .... خون کے دھبے ہیں، اس نے فوراً روئی پکڑی اور صاف کرنے لگی،
رہنے دو .... رہنے دو .... زلیخا .... میں ترے ہاتھوں میں مہندی نہیں رچا سکا میرے خون کے یہ قطرے سمجھ لو مہندی کا رنگ لئے ہیں۔ مہندی بھی تو ارمانوں کے خون سے رنگین ہوتی ہے، میرا لہجہ بھرا گیا۔ ایک بار پھر میں زلیخا کے سامنے خود کو بکھرتا ہوا محسوس کرنے لگا۔ اس نے روئی پھینک دی اور اپنے ہاتھ میرے سامنے پھیلا دئیے،لگا دو مہندی ، میں کب چاہتی ہوں تم اپنے خون سے میری مانگ اور سیندور کھینچو ، زلیخا کی آنکھیں آنسوﺅں سے بھر گئیں۔زلیخا .... میری زلیخا، میں نے بے قرار ہو کر اس کے ہاتھ پکڑ لئے۔ معاً عقب سے چاچی کی آواز آئی۔زلیخا .... زلیخا .... کیا ہوا میرے پتر کو، چاچی ہانپتی ہوئی میرے پاس آ گئیں، میرا چہرہ ہاتھوں میں لے کر بولیں ماں صدقے زیادہ خون تو نہیں نکلا؟؟؟؟نہیں .... زلیخا نے دوا لگا دی ہے، اب بہت سکون ہے، میں نے کن اکھیوں سے زلیخا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”زلیخا تو ڈاکٹرانی لگتی ہے مجھے“ میری بات سن کر وہ شرما گئی۔ہاں پتر .... اس کے ہاتھوں میں جادو ہے جادو ، میرے اورتیرے چاچا جی کے سر میں جب بھی درد ہوا ہے اس نے جب بھی دبایا درد منٹوں میں غائب ہو گیا۔
”لیکن ماں .... میرا درد میرے ہاتھوں سے دور نہیں ہوتا“ زلیخا مسکراتے ہوئے بولی۔ کئی دنوں بعد اس کو یوں ہنستے ہوئے دیکھا تھا
”کچھ لوگ صرف فیض دینے کے لئے پیدا ہوتے ہیں“ میں نے کہا تو چاچی جھٹ سے بولیں
”جیسے پتر موچی کی اپنی جوتی ٹوٹی رہتی ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ اب تم اپنے شاہ صاحب کو دیکھ لو دوسروں کو نیکی کا پرچار .... خود خرکار .... بس یہ نصیب کی بات ہے جو دوسروں کا دکھ بانٹتے رہتے ہیں‘ جن کے ہاتھ دوسروں کے لئے اٹھے رہتے ہیں‘ وہ خود اپنے دکھوں کو ختم نہیں کر سکتے اور نہ اپنی خالی جھولی بھر سکتے ہیں۔ یہ تو داتا کی دین ہے۔ وہ چاہے تو بانٹنے والے ہاتھوں کو بھی سکھ چھاﺅں دے نہ دے تو نہ دے۔ اس سے کیا گلہ“
”ماں .... میری سوہنی ماں“ زلیخا نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ مدتوں بعد مجھے بہت سی چیزیں اچھی لگنے لگی ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے میں آزاد تتلی ہوں۔ ساری دنیا میرے اندر بس گئی ہے۔ مجھے بہت بھلا لگنے لگا ہے ماں .... نہ جانے کیسے۔ اچانک صرف ایک آدھ دن میں۔ اس لئے اب میرے سامنے ایسی کوئی بات نہ کرنا کہ میں پھر مایوسیوں اور دکھوں کے کنویں میں گر جاﺅں“
”ماں صدقے واری .... کنویں میں گریں ترے دشمن۔ تو خوش رہے گی تو یہ سارا گھر خوش رہے گا میری بچی۔ تجھے خوش دیکھ کر میں دوبارہ جی پڑی ہوں“ چاچی اس کو اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہہ رہی تھی ”شاہد پتر .... میں نے تجھ سے ایک بات کرنی ہے .... لیکن نہ جانے وہ بات کرتے ہوئے میرے ہونٹ کیوں بند ہو جاتے ہیں۔ دل تو بہت کرتا ہے لیکن کچھ سمجھ نہیں آتی کیسے کہوں“ وہ زلیخا کا سر اپنے کندھے کے ساتھ تھپتپھانے لگی۔ چاچی کی بات سن کر نہ جانے میرے دل میں میٹھا میٹھا سا درد کیوں جاگنے لگا تھا۔ نہ جانے کیوں۔ لہجے بھی تو من کی باتیں ہوا میں اچھال دیتے ہیں۔
”ماں“ وہ شوخ سی ہو کر کہنے لگی ”میں تو کہتی ہوں آج جو کہنا ہے کہہ دے۔ کل ہو نہ ہو۔ آج تو ہے ناں۔ اس لئے میرے سامنے ہی کہہ ڈال“۔
”ہائے میری بچی“ چاچی کو اس کی اداﺅں پر پیار آ رہا تھا۔ ممتا کی ماری نے نہ جانے کتنے برسوں تک بیٹی کے سوگوار چہرے کو دیکھا تھا۔ آج خوشی اور ترنگ دیکھ کر وہ بار بار اس پر واری جا رہی تھی۔
”ترے سامنے تو نہ کہوں گی“ چاچی کہنے لگی ”تو جا .... پھر کہوں گی“
”ماں“ وہ مصنوعی خفگی بھرے لہجے میں اس کو آنکھیں دکھانے لگی۔ ”ایسی کون سی بات ہے جو مجھے نہیں بتانا چاہتی“
”جا ناں .... چل تو.... تجھے بھی بتا دوں گی۔ ویسے تو بنتی بڑی بھولی ہے جتنی ہے میں جانتی ہوں۔ تو اچھی طرح جانتی ہے میں کیا کہنا چاہتی ہوں“
”ہیں .... ماں .... کیا کہا .... میں جانتی ہوں“ وہ مچل اٹھی۔ نٹ کھٹ انداز لئے بولی
”اچھا وہ کون سی بات ہو سکتی ہے جو میں جانتی ہوں لیکن سمجھ نہیں پا رہی۔ لیکن ماں تو سمجھتی ہے کہ میں سب جانتی ہوں لیکن وہ بات ہے کیا .... ہائے میرے ربا .... یہ کیسی پہیلی ہے“
”اچھا تو اندر جا“
”میں تو نہ جاﺅں“ زلیخا ماں کے بازو سے لپٹ گئی
”میرے سامنے کرو بات“
”دیکھا ہے شاہد پتر .... اب میں تیرے ساتھ اس کے سامنے اس کی بات کیسے کروں۔ اسے تو شرم نہیں آ رہی ،سنتے ہوئے، لیکن مجھے تو لاج ہے ناں .... بھلا کوئی ماں بیٹی کے سامنے ایسی بات کہہ سکتی ہے۔“ چاچی نے نہ کہتے ہوئے بھی وہ بات کہہ دی جو وہ کہنا چاہ رہی تھی۔ اس کے لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔ مجھے شرم آ گئی۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ زلیخا نے ایک بار تو چونک کر میری طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں ہزاروں شمعیں جل اٹھی تھیں۔ وہ نظریں اپنی ہتھیلیوں پر مرکوز کرکے دھیرے دھیرے سے مسکرانے لگی۔ ساری بات سمجھ جانے کے باوجود میں نے جان بوجھ کر بدھو بن کر کہا۔
”چاچی .... کیسی بات کرنی ہے آپ نے .... میں سمجھا نہیں“ میں نے بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ چھپائی تھی
”ہیں کیا تم سمجھے نہیں ابھی“ چاچی نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ زلیخا کے ماتھے پر بل پڑ گئے
”نہیں“ میں نے کہا
”تو نہیں سمجھا تو نہ سمجھ ۔میں تو سمجھی تھی تم بہت کچھ سمجھ چکے ہو گے لیکن مجھے کیا معلوم تھا نرے بدھو ہو“ چاچی کے لہجے میں شوخی برقرار تھی۔”اب یہ بات میں تمہاری والدہ کو سمجھاﺅں گی“
”کک کیا .... خدا کے لئے ایسا نہیں کرنا۔ امی کو پتہ چل گیا کہ حویلی میں میرے ساتھ کیا ہوا ہے تو وہ جوتے مار مار کر کھال اتار دیں گی“ میں جلدی سے بولا
”اچھا ہے۔ میں کہوں گی چار جوتے ہمارے نام کے بھی لگا دیں چاچی“ زلیخا بولی ”شاید کھال تو نہ اترے کم از کم دماغ تو ٹھکانے آ جائے گا“ اس کی بات سن کر میں ہنس دیا
”چاچی .... بہتر ہے آپ امی سے مل کر بات کر لیں“ میں نے شرماتے ہوئے کہا اور اٹھ پڑا ”لیکن چاچی .... یہ لڑکی بڑی خونخوار ہے۔ ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے تو سر کھول کر رکھ دیتی ہے۔ مم .... میں تو ناحق مارا جاﺅں گا“ یہ کہہ کر میں جلدی سے باہر نکل گیا۔ عقب میں زلیخا اور چاچی کے ہنسنے کی آوازیں آتی رہیں
میں کمرے میں پہنچا اور بستر پر دراز ہو گیا۔ میرے ذہن پر چاچی کی باتوں سے بہت خوبصورت تصور پھیلتا جا رہا تھا۔ ”کاش ایسا ہو جائے“ میں خوشگوار تصورات کو حقیقت میں بدلنے کی دعا کرنے لگا۔ لیکن پھر کیا ہوا کہ دعا کرتے کرتے میرے دل میں ایک وہم جڑ پکڑ گیا ”زلیخا تمہاری نہیں ہو سکتی۔ وہ تم جیسے انسانوں کے قابل نہیں ہے اس پر کسی اور کا حق ہے تمہیں اس کے حق سے دستبردار ہونا ہو گا“
”نہیں .... میرے مولا .... یہ سب کیا ہے۔ میرے مولا مجھے اس فریب سے نکال دے۔ زلیخا میرے قابل ہے۔ اس کو مجھ سے چھیننے کے لئے یہ سارا ڈرامہ کیا جا رہا ہے“
بابا جی‘ ٹاہلی والی سرکار کے ساتھ عہد و پیماں اور باتیں ایک ایک کرکے میرے سامنے آنے لگیں۔ سبھی نے مجھے باور کرایا تھا کہ زلیخا صرف اور صرف ریاض شاہ کی ہو سکتی ہے۔ وہ بابا جی کی امانت ہے‘ بابا جی نے اسے بیٹی بنایا ہے۔ وہ کسی اور کی نہیں ہو سکتی۔ یہ باتیں یاد آنے سے میری وحشت بڑھنے لگی۔ میرا پورا بدن پسینے میں بھیگ گیا۔ میں اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ اس دوران دروازہ کھٹکا۔
”کون“ میں نے بے اختیار ہو کر پوچھا
”میں ہوں بلقیس“
”بلقیس .... یا الہٰی .... یہ پھر آ گئی“ میرا سر گھومنے لگا اور کچھ وقت پہلے کا منظر میرے ذہن میں تازہ ہو گیا۔ اس کا بگڑا ہوا چہرہ‘ ہاتھ میرے خون میں بھیگے ہوئے.... اب وہ میرے کمرے میں آنا چاہتی تھی۔ میرے ہاتھ پاﺅں پھول گئے۔
میں نے دروازہ کھولنے میں تردد سے کام لیا۔
”شاہد صاحب۔ خدا کے لئے دروازہ کھولیں“ بلقیس روہانسی ہو کر بولی
”اب کیا لینے آئی ہو“ میں بے اختیار ہو کر اپنی گردن اور چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ میرے زخموں سے ابھی تک ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ بلقیس کی آواز سن کر تو سارے زخم تازہ ہو گئے ”شاہ صاحب کہاں ہیں“ میں نے دروازے کھولے بغیر پوچھا
”اپنے کمرے میں ہیں .... آپ دروازہ کھولیں۔ میں اب بالکل ٹھیک ہوں“
”اگر ٹھیک ہو گئی ہو تو اپنے گھر چلی جاﺅ“ میں نہ جانے دروازہ کھولنے سے کیوں کترا رہا تھا
”وہ تو میں جا ہی رہی ہوں۔ لیکن آپ سے ملے بغیر نہیں جاﺅں گی۔ میں آپ سے معافی مانگنے آئی ہوں“ اس کی آواز میں لرزش صاف محسوس ہو رہی تھی
”جاﺅ جاﺅ میں نے معاف کر دیا“ میں نے کہا تو وہ پھر بھی دروازہ کھلوانے پر بضد رہی
”یا اللہ“ میں بڑبڑایا ”کہیں یہ لڑکی جھوٹ تو نہیں بول رہی۔ میں نے دروازہ کھول دیا تو یہ پھر مجھ پر جھپٹ پڑے گی“ میں سوچنے لگا لیکن پھر ایک قوت میرے اندر بیدار ہوئی شاید کسی نے مجھے کچھ یاد دلایا تھا۔ میں نے اپنی حفاظت کے لئے وظیفہ پڑھ کر خود پر پھونک ماری اور دروازہ کھول دیا۔
بلقیس کی حالت اب معمول پر آ چکی تھی لیکن چہرہ ابھی تک زرد تھا۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے تھے۔
”میں نے آپ کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ مجھے معاف کر دیں۔ یہ سب انجانے میں ہوا ہے“ اس کی آنکھیں آنسوﺅں سے بھر گئیں
”انجانے میں“ مجھے غصہ آ گیا ”میرا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے تو نے اور کہتی ہو انجانے میں ہوا ہے۔ اللہ کی پناہ۔ میرا خون مزے لے کر چاٹتی رہی ہو۔ اب کہتی ہو انجانے میں ہوا۔ تم انجانے میں مجھے بوٹی بوٹی کرکے ہڑپ کر جاتی اورپھر میری ہڈیوں پر بیٹھ کر آنسو بہا بہا کے معافیاں مانگ کر خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتی“ میں بولتا ہی چلا گیا۔ وہ روتی رہی۔ ہاتھ جوڑ کر‘ رو رو کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن میرے دماغ کی ”فرکی“ گھوم چکی تھی۔ میں نے اس کی ایک نہ سنی۔ خود مجھے اپنی حالت کا اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔ شکر ہے اس وقت کسی نے میری آواز نہیں سنی تھی۔ ورنہ ایک اور تماشا لگ جاتا۔ میں نے بلقیس کو سخت الفاظ میں واپس جانے کے لئے کہا لیکن وہ مجھ سے زیادہ ضدی تھی۔ روتی ہوئی فرش پر بیٹھ گئی۔
”جب تک معاف نہیں کریں گے نہیں جاﺅں گی۔ ادھر یہیں بھوکی پیاسی مر جاﺅں گی“
”بی بی .... مرنا ہے تو باہر جا کر مرو میرے سر چڑھ کر کیوں مرنا چاہتی ہو“
خاصی دیر گزر گئی۔ میرا غصہ بھی اترنے لگا اور میں پھر ہانپتا ہوا چارپائی پر بیٹھ گیا۔ دماغ ٹھنڈا ہونے پر احساس ہوا کہ میں نے بلقیس کو بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ وہ فرش پر گھٹنوں میں سر دئیے سسکیاں بھر رہی تھی۔ مجھے اپنے آپ سے ندامت محسوس ہونے لگی۔
”بلقیس“ میں خجالت آمیز لہجے میں بولا ”معاف کرنا مجھے پتہ ہی نہیں چلا .... تمہیں کیا کچھ کہہ گیا ہوں“
اس نے نظریں اٹھائیں ۔ آنکھیں متورم ہو رہی تھیں لیکن اس کا چہرہ پھر بھی کھل اٹھا۔
”آپ نے مجھے معاف کر دیا“
”بھئی .... اب معافی کیسی حساب برابر ہو گیا۔ اب تو میں بھی معافی کا طلب گار ہوں“ میں پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ مسکرایا ”مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا خیر یہ بتاﺅ کہ مجھے دیکھتے ہی تمہیں غصہ کیوں چڑھ گیا تھا“
”مجھے غصہ تو نہیں آیا تھا۔ میں تو اس کے قبضے میں تھی“ وہ کہنے لگی
”کس کے“ میں نے پوچھا
”وہی جو مجھے برباد کر رہا ہے“ وہ نفرت آمیز لہجے میں بولی ”یہ مکھن شاہ کی چھوڑی ہوئی جن زادی ہے۔ جو مجھے اکساتی رہتی ہے۔ کہتی ہے میں مکھن شاہ کی ملنگنی بن جاﺅں۔ پہلے مجھ پر ایک جن آتا تھا۔ مکھن شاہ نے اسے اتار دیا لیکن مکھن لگا کر اس نے جن زادی کو مجھ پر سوار کر دیا“
”لیکن اس کی میرے ساتھ کیا دشمنی ہے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ باﺅلی کیوں ہو گئی تھی“
”میرا خیال ہے آپ ہمیں مکھن شاہ کے آستانے سے لے جا کر یہاں لے آئے تھے۔ اس نے یہ حملہ حسد کی وجہ سے کرایا“
”اوہ .... میں سمجھ گیا .... سمجھ گیا“ میں پرخیال انداز میں سوچنے لگا۔
”اس کا مطلب ہے مکھن شاہ نے مجھے اپنی ہٹ لسٹ پر رکھ لیا ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ میں اسے اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گا“ میرے اندر کوئی انتہائی جوش کے عالم میں عہد کر رہا تھا۔ ”مکھن شاہ .... اگر تم اپنی سفلی طاقتوں کے گھمنڈ میں مبتلا ہو تو میرے ساتھ میرا اللہ ہے۔ دیکھتا ہوں تم اب مجھ پر کیسے حملہ کرتے ہو“
”اب طبیعت کیسی ہے“ میں نے پوچھا
”بہتر ہوں .... شاہ صاحب نے مجھے تعویذ دیا ہے۔ کہتے ہیں اب کچھ نہیں ہو گا۔ انہوں نے تین دن بعد دوبارہ آنے کے لئے کہا ہے“
”اللہ خیر کرے گا انشاءاللہ تم جلد ٹھیک ہو جاﺅ گی۔ میں نے اسے تسلی دی‘ اب تم جاﺅ“
”جاﺅں“ نظریں اٹھا کر میری طرف دیکھنے لگی۔
”ہاں .... اب جاﺅ“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا ”اور اب اچھے بچوں کی طرح گھر میں رہنا ہے اور خوب پڑھنا ہے۔ شاہ صاحب نے تعویذ دیا ہے تو تم جلد ٹھیک ہو جاﺅ گی“
”اچھا .... میں چلتی ہوں“ اس کا لہجہ نہ جانے کیوں اداس ہو گیا۔ نظریں میرے چہرے پر مرکوز کئے وہ الٹے قدموں دروازے کی طرف بڑھنے لگی
”ارے یہ کیا .... سیدھی رخ ہو کر جاﺅ ناں“ میں نے ہنستے ہوئے کہا
”میں جاتی ہوں“ اس کا لہجہ بدستور اداس تھا
”کیا بات ہے لگتا ہے تمہاری طبیعت ابھی ٹھیک نہیں ہوئی“ میں نے پوچھا
”ٹھیک تو ہوں .... مگر“ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی
”آﺅ میں چھوڑ آﺅں“ میں نے اسے ساتھ لیا اور باہر والے کمرے میں لے آیا۔