پاکستان میں ہونے والے سانحات کا ذمہ دار کون؟؟
سانحہ اوجڑی کیمپ کو 36برس بیتے 6دن ہو گئے لیکن آج تک اس کے بارے کسی تحقیقات کے نتائج کی خبر سامنے نہیں آئی۔ ہمارے 40برس تک کے ڈھلتی جوانی کے افراد کو شاید سانحہ اوجڑی کیمپ کا علم ہی نہیں ہوگا، 10اپریل 1988ء کے دن جڑواں شہروں میں قیامت صغری کا منظر تھا۔ جب راولپنڈی میں اوجڑی کیمپ کے نام سے قائم افغان جہاد کے لیے اکٹھا کیے گئے اسلحہ ڈپو میں اچانک آگ لگ جانے سے میزائلوں اور اسلحے نے تباہی مچا دی تھی،اس کیمپ سے اڑا ایک میزائل اسلام آباد کی سڑک جناح ایوینیو پر ایک کار پر گرا جس سے اس وقت کے وفاقی وزیر اور پوٹھوہار کے سیاسی راہنما خاقان عباسی اور ان کے بڑے صاحبزادے زاہد خاقان عباسی نشانہ بن گئے خاقان عباسی شہید ہو گئے جبکہ ان کے صاحبزادے میزائل کا ایک ٹکڑا گردن پر لگنے سے بیہوش ہوئے اور اسی بیہوشی میں 14برس رہنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے، ہم نے اس سانحہ کی قیمت 58 افراد کی جانوں اور کروڑوں کے مالی نقصان سے چکائی تھی۔ اسی سانحہ کا شاخسانہ تھا کہ اس وقت کے خود ساختہ صدر ضیاء الحق اور انہی کے تخلیق شدہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور بعد میں محمد خان جونیجو کی ایما پر وزیر خارجہ نے جنیوا معاہدے پر دستخط کیے جس پر صدر ضیاء نے جونیجو حکومت کو قومی اسمبلی سمیت اس طرح چلتا کیا کہ پاکستان سے پورے پروٹوکول کے ساتھ روانہ ہونے والے وزیراعظم جونیجو کو جنیوا سے واپسی پر ایئرپورٹ سے ٹیکسی لے کر سیدھا اپنے گھر جانا پڑا تھا۔ اس سانحہ کے 4 ماہ 7 دن بعد دوسرا سانحہ رونما ہوا جس میں بہاولپور کی ایک فوجی تقریب سے اسلام آباد واپسی پر ضیاء الحق کے طیارے کو تباہ کر دیا گیا تھا جس میں ضیاء کے علاوہ ان کے چند ساتھی جنرلز اور امریکی سفیر بھی سوار تھے، حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان دو بڑے سانحات کو گزرے 36 برس ہو گئے ہیں مگر آج تک ان کی وجوہات اور ان سانحات کے ذمہ داران کا تعین نہیں ہو سکا ہے، سقوط ڈھاکہ کی تحقیقاتی رپورٹ کے کچھ حصے بھی 36 برس بعد سامنے آ ہی گئے تھے۔ مگر ان دو بڑے سانحات کی کسی رپورٹ کو ابھی تک سامنے نہیں لایا گیا، حالانکہ سانحہ اوجڑی کیمپ میں شہید ہونے والے خاقان عباسی صاحب کے بیٹے شاہد خاقان عباسی صاحب کچھ عرصہ وزیراعظم پاکستان بھی رہے ہیں جبکہ طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہونے والے ضیاء الحق اور ان کے ساتھ جنرل عبدالرحمن کے بیٹے وفاقی وزراء رہ چکے ہیں۔ کیا یہ بھی حیرانی کی بات نہیں کہ ایک ایسے ملک کے2 اتنے بڑے بڑے سانحات کا سراغ نہ ملے جس ملک کی سراغ رساں ایجنسیوں کو دنیا کی نمبر1سمجھا جاتا ہو؟
اس سے پہلے 1951ء میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب لیاقت علی خان صاحب کو ایک بھرے جلسے میں گولی مار کر شہید کیا گیا اس قتل کے پیچھے چھپی سازش کو بھی سامنے نہ لایا جا سکا، کیا وجہ ہے کہ اس ملک کے ایوانوں میں ہونے والی سازشوں سے آج تک پردہ اٹھایا جا سکا نہ اس سر زمین پر ہونے والے اتنے بڑے بڑے سانحات کے ذمہ داروں کی گرفت ہوئی نہ ان سازشوں کو سامنے لایا جا سکا؟ کسی ایسے ملک کے ٹوٹ جانے سے بڑا سانحہ کیا ہو سکتا ہے جس ملک کو بناتے وقت لاکھوں قربانیاں دی گئی ہوں اور پھر لاکھوں قربانیاں دے کر اسے توڑا گیا ہو؟
اسی طرح ہم نے ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر افغان جہاد میں فتح سمیٹی اور اس کا صلہ ہمیں اوجڑی کیمپ سانحہ کی صورت میں ملا، ان سانحات میں جن کے پیارے کھو گئے انہوں نے بھی کچھ عرصہ تحقیقات کے مطالبات کے بعد خاموشی اختیار کر لی تھی جیسے کہ انہیں سمجھا دیا گیا ہو کہ پردے میں رہنے دو، پردہ جو اٹھ گیا تو ہم خود ننگے ہو جائیں گے۔
ان تمام سانحات پر کمیشن اور کمیٹیاں بھی بنائی گئیں مگر کسی کی کوئی مستند رپورٹ سامنے لائی گئی نہ ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا، کیا دنیا کے کسی اور ملک کی بھی ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ جہاں اتنا بڑا سانحہ گزر گیا ہو اور اس کے ذمہ داروں کا علم نہ ہو سکے؟ کیا امریکہ کا 9/11سانحہ سقوط ڈھاکہ، بہاولپور طیارہ اور اوجڑی کیمپ سے بڑا سانحہ تھا۔ جس نے چند ہی روز میں پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا؟ یا پھر امریکی افراد کی جانوں کی قیمت پاکستانی افراد کی جانوں سے زیادہ ہے؟ لیکن سانحہ بہاولپور میں تو امریکی سفیر کی جان بھی گئی تھی۔
اس پر اسرار صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم یہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے سانحات کے پیچھے اتنے طاقتور ہاتھ ہیں جن کا ذکر کرنا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، اس حوالے سے بعض لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ پاکستان کے معاملات میں امریکہ کا ہاتھ ہوتا ہے اور امریکہ واحد طاقتور ملک ہے جس کے خلاف بات کرنا خطرہ مول لینے کے مترادف ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں پیش آنے والے سانحات کی تحقیقات کا کام کرنے والوں میں خاموشی سے وہ لوگ بھی داخل ہو جاتے ہیں جن کا ہاتھ سانحہ کروانے میں بھی شامل ہوتا ہے اسی لیے وہ تحقیقاتی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچنے ہی نہیں دیتے،اب ہم اپنے اتنے چھوٹے منہ سے کیا کہہ سکتے ہیں اور ایک غیر معروف کالم نگار کی حیثیت سے کیا لکھ سکتے ہیں۔ جہاں ان سانحات کے پیچھے بڑی بڑی بین الاقوامی طاقتوں کا ہاتھ ہو، ہمارے ملک میں حکومتیں بنانے اور حکومتیں گرانے کی طاقت رکھنے والوں کے سامنے ہماری کیا اوقات کہ ہم یہ سوال بھی پوچھ سکیں کہ ہمارے اوپر بار بار قیامت کیوں ڈھائی جاتی ہے۔ہم تو یہ بھی نہیں پوچھ سکتے کہ ہم نے ووٹ پہلے نمبر الف اور دوسرے نمبر ب کو دئیے تھے کامیاب ج کیسے ہو گیا؟
ویسے بھی جن کے بیٹے بنگال میں شہید ہوئے، جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں قربانیاں دیں وہ خاموش ہیں تو ہمیں سوال پوچھنے کا کیا حق ہے؟