کاش کہ ہم پاکستانی بھی ہوتے
اللہ کریم کی بے حد کرم نوازی ہوئی کہ ہمارے نوجوان کھلاڑی ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کر کے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا جس طرح اس خوش نصیب کے لئے حکومت پنجاب اور سرمایہ داروں نے انعامات کے انبار لگائے اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی کس قدر اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں میں تہہ دل سے ارشد ندیم اور اس کے ساتھ ان تمام افراد کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، جنہوں نے ارشد کی حوصلہ افزائی کے لئے پلاٹ، گھر گاڑی اور نقدی کے ڈھیر لگا دیے،بالخصوص میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کو جنہوں نے ارشد کے لئے 15 کروڑ روپے نقد ایک سڑک ان کے نام سے منسوب اورہلال امتیاز کے لیے نامزد کیا اور وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز کو بھی جو خود ان کے گھر تشریف لے گئیں،اُنہیں دس کروڑ روپے کی خطیر رقم اور ایک گاڑی تحفہ میں دی جس نے ساری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ حالات بے شک مشکل ہی صحیح، لیکن پاکستان میں وطن سے محبت کرنے والوں کی کمی نہیں۔
جس طرح رات گئے ارشد ندیم کے جہاز نے لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کیا واٹر کینن سے انہیں سلامی پیش کی، اس کے ساتھ ان کے استقبال کے لئے حکومتی وزراء انتظامیہ اور عام لوگوں کی بڑی تعداد ایئرپورٹ پہنچی ساری دنیا سمیت ہمارے دوسرے کھلاڑیوں جن میں کرکٹ، ہاکی،فٹبال اور دیگر کھیلیں شامل ہیں کے لیے کھلا پیغام ہے کہ کل اگر آپ بھی کوئی بڑا مقابلہ جیت کر آ تے ہیں تو آپ کو بھی قوم اسی طرح عزت سے نوازے گی اس استقبال کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ارشد ندیم کا یہ حق تھا کہ انہیں اس عزت افزائی سے نوازا جاتا دوسرا یہ کہ یہ استقبال انشاء اللہ تمام دوسرے کھلاڑیوں میں مقابلے کی فضا قائم کرے گا جس کا فائدہ وطن عزیز کو ہوگا۔
دوسری طرف ایسا طبقہ بھی تھا جو ارشد کی اس کامیابی کو کسی بھی طرح اپنی سیاسی جماعت کے ساتھ جوڑنے کی ناکام کوشش کرتا نظر آیا ان کا بس نہیں چل رہا ورنہ وہ اسے پارٹی کا مفلر اور سر پر جھنڈا لپیٹنے سے بھی گریز نہ کرتے ان کے ساتھ ایک اور طبقہ بھی سرگرم نظر آیا جو انہیں زبردستی ملک، جٹ، گجر، راجپوت ثابت کرنے کے لئے سرگرم تھا میں ان احباب سے گزارش کروں گا کہ برائے کرم ارشد کوایک محب وطن پاکستانی کے طور پر قبول فرما لیں یہ انفرادی جدوجہد سے کامیاب ہوئے ہیں پھر ایک اور طبقہ سوشل میڈیا پر نمودار ہوا جو انہیں ایک انتہائی غریب بے بس لاچار شخص ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا نظر آیا ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ارشد کی یہ پہلی کامیابی یا میڈل نہیں ہے اس سے قبل وہ گورنمنٹ کے اخراجات پر ساؤتھ ایشین گیمز، ویتنام، باکو آسٹریلیا،جکارتہ،اور قطر میں مختلف مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں اور دنیا کے مہنگے ترین کوچز سے ٹریننگ حاصل کر چکے ہیں اور یہ سب کچھ انفرادی حیثیت میں ناممکن تھا۔
خدا جانے کیوں ہماری قوم کرشماتی افراد کی متلاشی رہتی ہے پہلے بھی ایک کرشماتی لیڈر آ یا تھا، جس نے ریاست کو وہ نقصان پہنچایا کہ جس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں ہم ارشد کو مختلف ذاتوں سے جوڑ کر کرشماتی کھلاڑی یا کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن کاش کہ ہم پاکستانی بھی ہوتے اور ارشد کو پاکستانی ہیرو کے طور پر قبول کر لیتے۔
ارشد کی اس شاندار فتح نے بہت سے نئے باب کھولے ہیں جس میں حکومت کو اپنی توجہ کا دائرہ کار وسیع کر کے انفرادی حیثیت میں کھیلی جانے والی کھیلوں اور کھلاڑیوں پر توجہ دینی ہوگی ہمارے کھیل کے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ کرکٹ پر خرچ کر دیا جاتا ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے زوال کا شکار ہے ہماری ہاکی ٹیم تو جہاز کی ٹکٹوں پر خرچ کی گئی رقم کا بھی حق ادا نہیں کرتی ساری دنیا میں فٹبال بھیجنے والے ملک کی اپنی ٹیم کبھی کسی ایونٹ میں نمایاں کارکردگی دکھاتی نظر نہیں آئی اس اولمپکس نے ہمارے بہت سے کھلاڑیوں اور ان میں تبدیلیوں پر نظر ڈلوائی ہے اس لئے ضروری ہو چکا ہے کہ پاکستان میں تمام کھلاڑیوں کو از سر نو چنا جائے جس میں میرٹ کی سو فیصد پاسداری کی جائے کسی سفارشی کھلاڑی کو ٹیم میں شامل ہونے کا موقع نہ دیا جائے اور جو کھلاڑی پانچ میچوں میں اچھی کارکردگی نہ دکھا سکیں انہیں رخصت کر دیا جائے پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے اضلاع سے ٹیلنٹ ہنٹنگ کے لئے کیمپ لگائے جائیں اور جب ٹیم بن جائے تو انہیں ماہر کو چز سے ٹریننگ دلوائی جائے اور اس کے ساتھ ان کی کونسلنگ کی جائے تاکہ جب یہ کسی بھی ملک میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے اتریں تو ان کے قول و فعل سے وطن کی محبت نظر آ رہی ہو۔
حکومت کو چاہیے کہ جن افراد کا تعلق کھیلوں سے نہیں انہیں چیئرمین ڈائریکٹر یا پھر کسی بھی عہدے پر تعینات نہ کر ے، یہاں تک کہ سپورٹس کا منسٹر بھی کھلاڑی ہونا چاہیے کسی ریٹائرڈ جج،جرنیل، ایم پی اے یا ایم این اے کو پی سی بی کا چیئرمین نہ بنایا جائے۔
پاکستان میں ہمارے سابقہ کھلاڑیوں سے ہی کوچز کا چناؤ کیا جائے کسی انٹرنیشنل کوچ کو بلانا آخری آ پشن ہو ہمارے پاس وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، محمد یوسف، یونس خان، شاہد آفریدی، محمد عامر، شعیب ملک سمیت بہت سے ایسے کھلاڑی موجود ہیں جنہیں کوچ کے طور پر رکھا جا سکتا ہے پی سی بی کی مینجمنٹ بھی انہی لوگوں پر مشتمل ہو انفرادی کھیلوں کے کھلاڑیوں کی ٹریننگ پر بھی اتنی ہی توجہ دی جائے جتنی کرکٹ پر دی جاتی ہے،اگر ان تجاویز پر عمل کر لیا جائے تو ممکن نہیں کہ ہم آئندہ ہونے والے مقابلوں میں بہت سے میڈل نہ جیت سکیں۔
چین اور امریکہ نے اس بار سو سے زیادہ میڈل جیتے ہیں انہی کھیلوں کو پاکستان میں بھی شروع کیا جا سکتا ہے پاکستان میں سب سے زیادہ بجٹ استعمال کرنے والی کرکٹ ٹیم کے حالات اس وقت ایسے ہیں کہ وہ کوئی بڑا مقابلہ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، بہرحال کھیلوں اور کھلاڑیوں پر فوری توجہ کی ضرورت ہے اور پاکستانی عوام سے اپیل ہے کہ کھلاڑیوں کو کھلاڑی رہنے دیں انہیں پارٹی یا قوم ذات میں تقسیم نہ کریں۔