پاکستان پر چھاتے ہوئے تاریک سائے

پاکستان پر چھاتے ہوئے تاریک سائے
 پاکستان پر چھاتے ہوئے تاریک سائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 1989 ءمیں افغانستان سے سوویت یونین کا انخلا ہماری دفاعی اسٹبلشمنٹ کے لئے ایک بڑی کامیابی تھی۔ آئی ایس آئی اور ضیا ءالحق حکومت، اگرچہ اس فتح میںکچھ دیگر عوامل بھی کارفرما تھے، نے یہ معرکہ سر کرنے میں اہم کردار ادا کیا، تاہم افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا، جو اب شروع ہو چکا ہے اور تقریباً ایک سال میں ختم ہو جائے گا، کو کسی بھی حوالے سے فتح یا کوئی بڑی کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ یہ اس خطے کے لئے ایک تباہی ، جس کے لئے ہم تیار نہیںہیں، کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ 1989ء میں افغانستان میں سادہ سی صورت ِ حال پائی جاتی تھی ۔تمام معاملات اتنے واضح تھے کہ کسی کو بھی کوئی ابہام نہ تھانہ ہی لڑنے والوں کو اور نہ لڑانے والوں کو، اور نہ ہی شکست کھانے والوں کو، تاہم آج 2013ء کا افغانستان بے حد پیچیدہ اور خطرناک صورت ِ حال کا حامل ہے ۔ اس خطرے کی زد میں صرف افغان معاشرہ ہی نہیں، ہم بھی ہیں۔اس خطرناک صورت ِ حال کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ماضی میں افغانستان ایک ملک ، جو اپنی سرحدوں تک ہی محدود تھا، کا نام تھا، لیکن آج ، بدقسمتی سے، یہ جغرافیائی سرحدوں میں سمائی نہیں رکھتا۔ اس خطرے کی تفہیم کے لئے خود سے چند سوالات پوچھیںکیا فاٹا میں مقیم طالبان ملا عمر کے وفادار ہیں یا ریاست ِ پاکستان کے؟کیا شمالی وزیرستان، حقیقی معنوں میں، پاکستان کا حصہ ہے یا افغانستان کا؟جب ایک مرتبہ امریکی یہاںسے روانہ ہوگئے تو یہ سوالات نہایت دہشت ناک ناگ بن کر سر اٹھالیںگے۔ کیا کوئی یہ سمجھنے کی حماقت کر رہا ہے کہ شمالی وزیرستان کی (تقریباً) آزاد اور (مکمل) خودمختاراسلامی ریاست کے امیر حکیم اﷲ محسود پہاڑوں سے اس دھرتی پر نزول فرماتے ہوئے بھاگے بھاگے راولپنڈی جا کر دفاعی قیادت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی سعادت حاصل کریںگے؟1989 ءمیں افغان مجاہدین کو ناز تھا کہ اُنہوںنے ایک سپرپاور (سوویت یونین) کو شکست سے دوچار کیا ہے، لیکن آج ، امریکہ اور پچاس سے زائد ممالک کی افواج کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد، اُن کے فخر اور اعتماد کا کیا ٹھکانہ ہو گا!اس دوران کیا کوئی سادہ دل یہ سوچ رہا ہے کہ جب امریکی شکست کا طوق گلے میں لٹکائے یہاںسے نکلیںگے تو اس کامیابی کے بعد افغان طالبان کے پاکستانی ہم منصب نہایت عجز و انکسار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاست ِ پاکستان اور اس کے لاچار نمائندوںکے سامنے اپنی سرکشی (جو ہم سمجھتے ہیں کہ صرف ڈرون حملوں کی وجہ سے ہے )پر معذرت کرتے ہوئے سچے دل سے تائب ہوجائیںگے؟ ہم بھی کس دلفریب دنیا کے باسی ہیں؟ ہم ایک پرانے محاورے میں اپنے حالات کے مطابق ترمیم کرتے ہوئے ( کم از کم اس کام کے ماہر ہو چکے ہیں)اسے اس طرح ڈھال سکتے ہیں”نہیں محتا ج دشمن کا ،ہو جس کا دوست امریکہ“۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ 2001 ءمیں امریکیوںکی آمد نے ہمارے لئے مشکلات پیدا کیں، لیکن اب جب وہ اپنا ”کام “ادھورا چھوڑ کر یہاںسے جائیںگے توہماری راہوں میں بہت سے کانٹے بکھیر چکے ہوں گے اور ان کو چننے میں شاید ہمارے ہاتھ لہولہان ، پاﺅں چھلنی اور زندگیاں تمام ہو جائیں گی۔ ان کی آمد سے پہلے طالبان صرف افغانستان تک محدود تھے اب یہ ماضی کا ناقابل ِ اعتبار مفروضہ لگتا ہے ،لیکن امریکی دوستوں کا شکریہ کہ اُن کی ”کاوش“ نے طالبان کی فروغ پاتی ہوئی ذہنیت کو ”دہری شہریت “ دلا دی اب پاکستانی سرزمین بھی اس زہرناک فصل کے لئے کشت ِ سازگار ہے۔ ہمارے پاس وقت کے پیمانے سمٹ رہے ہیں اور ہمیں یہ فصل عشروں بعد نہیں، بلکہ ابھی،ایک سال بعد، کاٹنی ہے۔ جب صدر اوباما نے پہلی مرتبہ کہا تھا کہ 2014 ءمیں امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیںگی تو اُس وقت اس میں کافی دیر لگتی تھی، لیکن تیز رفتار اشہب ِ زمانہ اس طرح سرپٹ ہوا کہ ہمیں سنبھلنے کی مہلت بھی نہ ملی کہ انخلا کا وقت آپہنچا اور جب ایک عشرہ پہلے یہ جنگ شروع ہوئی تو خیال آتا ہے کہ کیا”یہ دن ہے جس کا وعدہ تھا“؟ہم نے شتر مرغ کی طرح ریت میں سردیا ہوا ہے، جبکہ اجتماعی ”قومی شعور“ یہ کہہ رہا ہے کہ ہمیں طالبان سے پُر امن مذاکرات کرنے چاہئیں۔  تھوڑی دیر کے لئے مجوزہ پُر امن مذاکرات کے طریق ِ کار اور مقام کی اہمیت سے صرف ِ نظر کر لیں کہ کیا یہ شمال میں واقع ”مقدس پہاڑوں “ پر ہوں گے یا دوحہ یا کہیں اور، صرف ایک سوال پر غور کریں کہ کیا ہمارے ”امن کے داعی“ طالبان کے سامنے کچھ شرائط رکھیں گے اور بڑے آرام سے امن معاہدہ طے پاجائے گا؟ہمیں اس معاملے میں کچھ وضاحت درکار ہے، کیونکہ یہ اتنا بھی سادہ نہیں ہے، جتنا اخباری بیانات میں نظر آتا ہے، چنانچہ بہتر ہے کہ ہم امن کا نام نہاد پرچم نہ لہرائیں اور فاٹا میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمارا تحفظ کرنے والے جوانوں کو الجھن میں نہ ڈالیں۔عمران خان طالبان کے لئے سب سے زیادہ نرم گوشہ رکھتے ہیں، لیکن طالبان نے اُن کو بھی لانگ مارچ لے کر شمالی وزیرستان جانے کی اجازت نہیں دی۔ مولانا فضل الرحمان خود کو طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے ثالث سمجھتے ہیں، لیکن طالبان اُن کو بھی خاطرمیں نہیں لاتے۔ 
کیا ہم طالبان کو معصوم لڑکے سمجھتے ہیں ، جو روٹھے ہوئے ہیں اور بس پیار سے پچکارنے پر مان جائیںگے یا کسی ٹافی سے بہل جائیں گے؟ نہیں جناب ! وہ پاکستان کی بری افواج اور فضائیہ کا کئی سال سے مقابلہ کر رہے ہیں اور یہ محاورتاً بچوں کا اور حقیقتاً اوسط جوان انسانوں کا بھی کھیل نہیںہے۔ کیا وہ اتنا عرصہ دنیا کی عظیم افواج میں سے ایک کے ساتھ لڑتے ہوئے اب کچھ امن کی باتیں سن کر پہاڑوں سے اتر کر پیار سے ہاتھ ملا کر اپنے اپنے گھروں کو خیر وعافیت سے رخصت ہوجائیںگے جبکہ ان کے امیر ملا عمر دنیا کی مہیب ترین فوجی قوت کو شکست سے دوچار کر چکے ہوں؟کیا یہ فتح اِن کے جذبے کو مہمیز نہیں دے گی؟ اور پھر صرف جذبات ہی نہیں، امریکیوںکی روانگی کے بعد ان کو مزید کارروائیوں کے لئے ”افرادی قوت “ بھی میسر ہوگی۔ مذاکرات کی دھائی دینے والے ایک بات کا جواب دیں کہ کیا ہم اُن سے اپنی شرائط منوانے کی پوزیشن میں ہیں؟فوجی طاقت کو ایک طرف رکھیں، کیا ہمارے ہاں، جبکہ ہم ایک حرب آزما دشمن سے بات کرنے جارہے ہیں، داخلی طور پر اتفاق ِ رائے پیدا ہو چکا ہے ؟کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ اگر پاکستانی معاشرے میں طالبان کے نظریات کی مخالفت کرنے والے موجود ہیں تو اُن کے حامیوں کی تعداد بھی کم نہیںہے۔ بات یہ ہے کہ اس نازک موقع پرہمارا معاشرہ فکری انتشار کا شکار ہے، جبکہ دوسری طرف طالبان کو نظریاتی طور پر مکمل یکسوئی حاصل ہے۔ اس ضمن میں ہمیں طالبان کے ترجمان احسان اﷲ احسان کی ویڈیوز دیکھنے کی ضرورت نہیںکہ طالبان اپنے مقصد، جو کہ ریاست ِ پاکستان کو اپنے تشریح کردہ اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کے سوا اور کیا ہے، کے حصول کے لئے پُرعزم ہی نہیں، متحد بھی ہیں۔ اس کا مطلب کیا یہ نہیں ہے کہ پاکستان بھی ویسا ہی بن جائے گا جیسا مولانا فضل اﷲ کے دور میں سوات تھا، یاشمالی وزیرستان حکیم اﷲ محسود اور افغانستان ملاعمر کے دورِ ثانی میں بننے جارہا ہے؟اس بات کو فراموش نہ کیا جائے کہ طالبان اب صرف ایک بیرونی طاقت ہی نہیں، بلکہ ملک بھر میں ان کے نظریاتی حامیوںکے مدارس کا نہایت منظم جال پھیلا ہوا ہے۔ اب ہو سکتا ہے کہ ایم کیو ایم نے خود پر لگنے والے بہت سے الزامات کا ابھی جواب دینا ہو، لیکن ان کی یہ بات بالکل درست ہے کہ کراچی کے کچھ علاقے ”وزیرستان “ بن چکے ہیں، جہاں طالبان کا اپنا ”نظام ِ عدل “ قائم ہو چکا ہے۔ اس الزام میں بھی کچھ صداقت ہے کہ طالبان اے این پی کی آڑ میں کراچی میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی کمزور جماعت نہیںہے، لیکن وہ ان جنگ آزما جہادیوں کے مقابلے کی بہرحال نہیں ہے۔ 
چنانچہ ان حالات میں جبکہ قوم کے فکری خدوخال تبدیل ہورہے ہیں، ہم امن کی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے سابقہ خبط ”اسٹریٹیجک گہرائی “ کے پیمانے بھی بدل رہے ہیں، کیونکہ ماضی میں اس کے سوتے افغانستان سے پھوٹتے تھے، لیکن اب ہماری مقامی مذہبی جماعتیں اور طالبان کے مسلح جتھے ہمیں ”غیر ملکی امداد “سے نجات دلا چکے ہیں اسے کہتے ہیں، خودانحصاری۔ کیا یہ التباساتی خوف ہے؟ یاد رکھیں 2001ءمیںکوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ شمالی وزیرستان پاک فوج کے لئے ہی ”نو گو ایریا“ اور افغانستان امریکہ کے لئے ویت نام بن جائے گا۔ افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ غیر ملکی حملہ آوروں کے لئے قبرستان ثابت ہوا ہے، لیکن ہمیں کس نے مشورہ دیا تھا کہ اس مصیبت کو اپنے سرلے لیں؟اس آتش فشاں سے ہمارے ہی درو دیوار جل رہے ہیں۔ ہم نے اپنی حماقت سے دو سو سال پرانی تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے کی کوشش کی ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کے بہت سے شمالی علاقے، خاص طور پر پشاور، کابل کا حصہ تھے، لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ نے انہیں فتح کیا اور اپنی سلطنت میں شامل کیا۔مہاراجہ کی وفات کے بعد اُس کی سلطنت بھی ختم ہوگئی اور پھر یہ علاقہ انگریزوںکے قبضے میںچلا گیا۔ اب یہ علاقہ پاکستان میں شامل ہے اور ہم یہاں ایک طرح سے انگریزیوں ، اور اُن سے پہلے رنجیت سنگھ ، کے جانشین ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اُس وقت یہ ایک سیکولر ریاست تھی، تاہم اب یہ وقت اس بحث کو چھیڑنے کا نہیںہے۔ اُ س وقت مہاراجہ نے افغانوں کو پیچھے دھکیلے رکھا ۔ ہم اُس کی وضع کردہ ”افغان پالیسی “ کو جاری نہ رکھ سکے۔ اب ہمارے فوجی کمانڈر افغان دستوں کو تربیت دینے کی باتیںکرتے ہیں، جبکہ ہمارا اپنا گھر ہی افراتفری کا شکار ہے۔ اب جبکہ امریکی جارہے ہیں، ہمیں ان کے احمقانہ بیانات پر کان دھرے بغیر ان کی لگائی ہوئی آگ سے اپنے گھر کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیںہونی چاہیے کہ امریکہ یہاں اپنی فوج چھوڑ جاتا ہے یا نہیں؟ ہماری اصل فکر اس حقیقت پر مبنی ہونی چاہیے کہ روپیہ اپنی قدر تیزی سے کھو رہا ہے، جبکہ طالبان کی سوچ ملک پر اپنے پنجے مضبوط کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سال ہمارے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سال ہم نے انتخابات کے مرحلے سے بھی گزرنا ہے اور طالبان ، جن کی امریکہ کی روانگی کے بعد تمام پاکستان کو اپنی مرضی کی ” اسلامی جمہوریہ “ بنانے کی آرزو کی بجاآوری کے دن بھی قریب آرہے ہیں، سے بھی نبر د آزما ہونا ہے۔ 
مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔

مزید :

کالم -