پنجاب اسمبلی کے دو اجلاس، آئینی حیثیت کیا ہے؟

پنجاب اسمبلی کے دو اجلاس، آئینی حیثیت کیا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:سعید چودھری 

    پنجاب اسمبلی کے گزشتہ روز دو اجلاس ہوئے،ایک اجلاس ایوان اقبال میں ہواجس کی صدارت ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے کی،اس اجلاس میں بجٹ پیش کردیاگیاجبکہ دوسرا اجلاس صوبائی اسمبلی کی عمارت میں ہواجس کی صدارت سپیکر پرویز الہٰی نے کی،دونوں اجلاسوں اور ان کی کارروائی کی آئینی حیثیت کیاہے؟کیا گورنر کو اجلاس برخاست کرکے دوبارہ اجلاس طلب کرنے کااختیارحاصل ہے؟دریں اثناء یہ سوال بھی پیدا ہوگیاہے کہ کابینہ کی سفارش پرگورنر کی طرف سے جاری کیا گیاآرڈیننس کس حد تک جائز ہے جس میں تین قوانین تحلیل کردیئے گئے ہیں،آئین کے آرٹیکل 109میں واضح طور پر صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کااختیار گورنر کو دیا گیاہے،اس آرٹیکل کے تحت گورنر کو کسی بھی جگہ پر اجلاس طلب کرنے کااختیارحاصل ہے،اسی طرح 109(بی)کے تحت گورنر کو اجلاس برخاست کرنے کااختیاربھی حاصل ہے،گورنر نے اس آئینی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کا 40واں اجلاس جو بجٹ پیش کرنے کے لئے طلب کیا گیا تھا برخاست کیا اور نیا اجلاس ایوان اقبال میں طلب کیا،بظاہر ایوان اقبال میں ہونے والا اجلاس ہی آئینی تصور ہوگا جبکہ پنجاب اسمبلی میں ہونے والے اجلاس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں،پنجاب اسمبلی میں ہونے والے اجلاس کی کارروائی بھی زبانی جمع تفریق کے سوا او رکچھ نہیں،اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپیکر کی موجودگی میں ڈپٹی سپیکر کیسے اجلاس کی صدارت کرسکتا ہے؟اس حوالے سے حکومتی عہدیداروں کا کہناہے کہ سپیکر خود ہی ایوان اقبال نہیں آئے اور ان کی عدم موجودگی میں یہ ڈپٹی سپیکر کا اختیار ہے کہ وہ اجلاس جاری رکھیں۔
اس کیس میں کچھ واقعاتی معاملات بھی ملوث ہیں،اپوزیشن کا کہناہے کہ سپیکر نے 14جون کو 15جون تک اجلاس ملتوی کیا تھا اور اویس لغاری کو بجٹ پیش کرنے کے لئے تین مرتبہ کہا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گورنر نے اجلاس پہلے برخاست کردیاتھا جس سے اجلاس کے دوران سپیکر کو باقاعدہ آگاہ بھی کیا گیا لیکن سپیکر نے گورنر کا حکم ماننے سے انکارکرتے ہوئے کارروائی ملتوی کی،گورنر کے حکم کے بعد سپیکر کو یہ اختیار حاصل نہیں تھاتاہم اپوزیشن نے معاملہ عدالت میں لے جانے کا اعلان کیا ہے،عدالت معاملہ کے آئینی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد جو فیصلہ جاری کرے گی وہی فائق ہوگا۔
دوسرا یہ کہ گورنر نے جو تین آرڈیننس جاری کئے ہیں ان کے تحت پنجاب اسمبلی کا خودمختارسیکرٹریٹ قائم کرنے کا 2019ء کا قانون ختم کرکے پرانا قانون بحال کردیاگیا ہے جس کے تحت پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ محکمہ قانون کا سپیشل ونگ قراردیاگیاہے اور اسمبلی کے سیکرٹری کی خودمختاری اور نوٹیفکیشن جاری کرنے کے اختیارات ختم ہوگئے اور یہ اختیارات دوبارہ سیکرٹری قانون کو منتقل کردیئے گئے،حکومت کا خیال ہے کہ سیکرٹری اسمبلی محمد خان بھٹی اسمبلی اجلاسوں میں پارٹی بنے ہوئے ہیں جس کے باعث معاملات درست سمت میں نہیں چل رہے تھے،دوسرے جو دو قوانین ختم کئے گئے ہیں وہ ارکان اسمبلی کے استحقاق سے متعلق ہیں،ان قوانین کے تحت سپیکر کو انتظامی افسروں حتیٰ کہ بعض معاملات میں صحافیوں کو بھی سزا دینے کا اختیاردیاگیاہے،آئین کے آرٹیکل128کے تحت اسمبلی اجلاس کے دوران آرڈیننس جاری نہیں کیا جاسکتا، حکومت کا کہناہے کہ جس وقت آرڈیننس جاری کئے گئے اس وقت اسمبلی کا اجلاس برخاست کیا جاچکاتھا۔آرڈیننس جاری ہونے کے بعد اسمبلی کا 41واں اجلاس طلب کیا گیا،ایسی صورت میں یہ آرڈیننس آئین کے عین مطابق اور مکمل طور پر نافذ العمل ہے جبکہ اپوزیشن کا کہناہے کہ یہ آرڈیننس اسمبلی اجلاس کے دوران جاری ہوئے اور صوبائی اسمبلی کی عمارت میں ہونے والے اجلاس میں اس آرڈیننس کردیاگیا،آئینی طور پر صوبائی اسمبلی کی عمارت میں ہونے والے اجلاس کی اپنی حیثیت غیر آئینی ہے تو پھر اس کی کارروائی بھی غیر آئینی ہی تصور کی جائے گی، یہ بھی واقعاتی شہادت کا معاملہ ہے اگر اپوزیشن عدالت میں جاتی ہے تو اسے اسمبلی اجلاس جاری ہونے کے حوالے سے ٹھوس شہادتیں دینا ہوں گی جبکہ آئین کے آرٹیکل199کے تحت ہائی کورٹس رٹ جیورسڈکشن میں ایسے معاملات پردائر کی گئی درخواستوں پر کارروائی سے اجتناب کرتی ہیں جو شہادتوں کے متقاضی ہوں،اس آرٹیکل کے تحت صرف قانون کی عمل داری یقینی بنانے جیسے احکامات ہی جاری کئے جاسکتے ہیں۔
تجزیہ:سعید چودھری 

مزید :

تجزیہ -