ڈاکٹر شاہنواز قتل کیس کے ملزمان ضمانت پر رہا

ڈاکٹر شاہنواز قتل کیس کے ملزمان ضمانت پر رہا
ڈاکٹر شاہنواز قتل کیس کے ملزمان ضمانت پر رہا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عمرکوٹ (ویب ڈیسک) انسداد دہشت گردی کی عدالت میرپورخاص نے توہین مذہب کے ملزم ڈاکٹر شاہنواز قتل کیس میں نامزد 9 ملزمان کو ضمانت پر رہا کردیا۔

تفصیلات کے مطابق عدالت میں عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے 9 ملزمان پیش ہوئے تمام ملزمان ڈاکٹر شاہنواز واقعہ میں نامزد تھے جن کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے رہا کردیا گیا۔رہائی پانے والے ملزمان میں بلال، صدام، شکیل، محمد شاہد، محمد ساحل، الطاف حسین، بلاول، محمد ایان اور وہاج شامل ہیں جو کہ عمرکوٹ میں جلاؤ گھیراو کے مقدمات میں نامزد تھے۔

اس پیش رفت سے قبل توہین مذہب کے مبینہ الزام میں ڈاکٹر شاہنواز کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کا معاملے پر اہم پیشرفت سامنے آئی۔

ڈاکٹر شاہنواز کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرانے کیلئے قبر کشائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سول جج جوڈیشل مجسٹریٹ ون عامرراجپوت کی زیرنگرانی قبر کشائی ہوئی۔

میڈیکل بورڈ میں لمس یونیورسٹی جامشورو کے ایف ایم اور پیتھالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ شامل تھے۔ ڈاکٹر شاہ نواز کی قبر کشائی کے بعد ڈاکٹروں نےضروری اجزا بھی حاصل کرلیا ہے۔

عمرکوٹ پولیس نے مقتول ڈاکٹر شاہنواز کی قبر اور قریبی جگہ سے میڈیا کودور رکھا۔

خیال رہے کہ 20 ستمبر 2024 کو سندھ کے علاقے عمر کوٹ میں پولیس نے توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے ایک ڈاکٹر کو مبینہ پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ ایک ہفتے کے دوران اس نوعیت کے ماورائے عدالت کا دوسرا واقعہ تھا، جس کی انسانی حقوق کے گرپوں نے شدید مذمت کی تھی۔

پولیس نے مقتول کی شناخت ڈاکٹر شاہ نواز کے نام سے کی، جو مارے جانے سے دو روز قبل مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام کے بعد روپوش ہو گئے تھے۔

مقامی پولیس کے سربراہ نیاز کھوسو نے بتایا تھا کہ بدھ کی رات پولیس افسران نے موٹر سائیکل پر سوار دو افراد کو رکنے کا اشارہ کیا تو انہوں نے رکنے کے بجائے پولیس پر فائرنگ کی اور فرار ہونے کی کوشش کی، جس کے بعد پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے ملزم شاہ نواز کو موقع پر ہلاک کر دیا، جبکہ ملزمان میں سے ایک موٹر سائیکل پر فرار ہو گیا۔

نیاز کھوسو نے دعویٰ کیا تھا کہ فائرنگ کے تبادلے کے بعد ہی افسران کو معلوم ہوا کہ مقتول وہ ڈاکٹر تھا، جسے مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں ڈھونڈا جا رہا تھا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں مقامی علماء کو پولیس پر گلاب کی پتیاں نچھاور کرتے اور توہین رسالت کے ملزم کو ہلاک کرنے پر افسران کی تعریف کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ ملزم کی ہلاکت کن حالات میں ہوئی اس بارے میں سندھ حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی وضاحت نہیں کی گئی اور تحقیقات کا اعلان کردیا گیا۔