لاہور میں جشن ِ صوفی تبسم!
صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کا نام اردو ادب کے مشاہیر کی صف میں نمایاں ہے، وہ1899ء کو پیدا ہوئے۔یوں یہ سال اُن کی 125 سالہ ولادت کا ہے،اِسی مناسبت سے صوفی تبسم اکیڈمی نے لاہور میں دو روزہ جشن ِ صوفی تبسم کا انعقاد کیا،جس میں اُن کی شخصیت و فن کے حوالے سے مختلف پروگرام ترتیب دیئے گئے تھے۔اِسی سلسلے کی نمایاں تقریب الحمراء لاہور میں 14ستمبر کو منعقد کی گئی۔ یہ جشن ِ صوفی تبسم کی افتتاحی تقریب تھی،جس کا مقصد نہ صرف ایک عظیم شاعر کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا،بلکہ اربابِ اختیار کی توجہ اس نکتے پر بھی مبذول کرانی تھی کہ صوفی تبسم، جنہوں نے لاہور میں رہ کر علم و ادب کے شعبے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں،اُن کے نام پر کوئی ادارہ بنایا گیا اور نہ ہی کسی آرٹ و فن کے بڑے ادارے کو اُن سے منسوب کیا گیا،اُن کا قیمتی ورثہ صوفی تبسم اکیڈمی سنبھالے ہوئے ہے،جسے ایک میوزیم بنا کر محفوظ کیا جا سکتا ہے،اس تقریب کی صدارت جناب مجیب الرحمن شامی نے کی۔ اُنہوں نے کسی دوسری تقریب میں جلد پہنچنا تھا اِس لئے اصرار کرتے رہے کہ اُنہیں صدارت نہ سونپی جائے کہ پھر آخر تک بیٹھنا پڑتا ہے تاہم میری درخواست پر اُنہوں نے یہ بار اُٹھانا قبول کیا اور تقریب میں آخر تک موجود رہے، اس تقریب میں شرکت کے لئے اکادمی ادبیات پاکستان کی چیئرپرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف خصوصی طور پر اسلام آباد سے آئیں اور سلمیٰ اعوان، جنہیں حال ہی میں ستارہئ امتیاز ملا ہے اور اس ایوارڈ پر سب خوش ہیں،دونوں اِس تقریب میں مہمانانِ خاص کے طور پر موجود تھیں۔طارق اللہ صوفی، ڈاکٹر مظفر عباس بھی سٹیج پر رونق افروز تھے،ہال میں ادیبوں، شاعروں اور اہل ِ علم کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، اس تقریب کی نظامت کا فریضہ میرے ذمہ تھا۔یوں یہ بارگراں میں نے سنبھل سنبھل کے ادا کیا۔حرفِ آغاز کے طور پر تقریب کی غرض و غائت بیان کرنے کے لئے صوفی تبسم اکیڈمی کی چیئرپرسن اور صوفی صاحب کی پوتی کو اظہارِ خیال کی دعوت دیتے ہوئے میں نے کہا صوفی تبسم کے پوتے،پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے،لیکن اُن کے ادبی و علمی ورثے کو سنبھالنے کی سعادت ڈاکٹر فوزیہ تبسم کے حصے میں آئی ہے،انہوں نے گزشتہ بیس برسوں سے صوفی تبسم اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے اس عظیم شاعر ومفکر کو نئی نسل تک پہنچانے کا محاذ سنبھال رکھا ہے۔خاص طور پر بچوں کے لئے اُن کی نظموں کو بچوں کی پرفارمنس کے ذریعے انہوں نے جس طرح ایک ثقافتی سرگرمی بنا دیا ہے، وہ بہت منفرد کام ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ تبسم نے اپنے مضمون میں صوفی تبسم کے حوالے سے اپنی یادوں کا دبستان کھولا،وہ اپنے دادا کے بہت قریب تھیں اور انہیں روز و شب دیکھتی تھیں،انہوں نے یہ بھی بتایا صوفی تبسم اکیڈمی کے پاس اُن کی وہ قیمتی اشیاء پڑی ہیں،جنہیں قومی ورثے کا درجہ ملنا چاہئے،اُن کی کتابیں،اُن کے ہاتھ سے لکھے ہوئے خطوط،اُن کی زندگی کے معمولات کا حصہ رہنے والے نوادرات ایک پوری داستان رکھتے ہیں، جنہیں حکومتی سطح پر صوفی تبسم میوزیم بنا کر محفوظ کیا جانا چاہئے۔اُن کا کہنا تھا صوفی تبسم ایک عہد کا نام ہے اور اس عہد کا ذکر کئے بغیر اردو ادب و ثقافت کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ڈاکٹر فوزیہ تبسم نے بجا طور پر ایسے نکات اٹھائے، جن کی طرف حکومت اور متعلقہ اداروں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میں نے نظامت کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ لاہور میں اب تک کسی سڑک یا انڈر پاس کا نام صوفی تبسم سے منسوب کیوں نہیں کیا گیا،جبکہ اُن سے جونیئر اور کم اہمیت کے حامل افراد کو مختلف وجوہات کے باعث لاہور کی شناخت بنایا گیا ہے،حالانکہ لاہور کی ایک بڑی شناخت صوفی غلام مصطفےٰ تبسم ہیں۔
معروف ادیبہ اور سفر نامہ نگار اور حال ہی میں ستارہئ امتیاز کا اعزاز پانی والی شخصیت سلمیٰ اعوان کو اظہارِ خیال کے لئے بلانے سے پہلے میں نے کہا اِس بار جو قومی اعزازات دیئے گئے ہیں،اُن میں حد درجہ اقربہ پروری اور بندر بانٹ نظر آئی ہے تاہم سلمیٰ اعوان کو ملنے والا ایوارڈ ایک ایسا تمغہ ہے، جس نے ایوارڈز کی آبرو بچا لی ہے، حالانکہ انہیں یہ اعزاز بہت پہلے ملنا چاہئے تھا۔سلمیٰ اعوان ایک بہت خوبصورت مضمون لکھ کر لائی تھیں،جس میں انہوں نے صوفی تبسم کے حوالے سے اپنی یادوں کو بھی تازہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ صوفی تبسم کی شاعری کس طرح ہماری شناخت کا ذریعہ بنی ہوئی ہے اور اس کا خمیر اپنی مٹی سے اٹھا ہے۔ اکادمی ادبیات کی چیئرپرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف جو بہت نپے تلے انداز میں منطق و دلیل سے گفتگو کرتی ہیں انہوں نے ایک شاندار خطاب کیا۔اُن کا کہنا تھا صوفی تبسم جیسے عظیم لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں انہوں نے ادب کی مختلف اصناف میں حیران کن کام کیا ہے۔صوفی تبسم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے بچوں کے لئے جو شاعری کی اُن کے بعد اردو شاعری کو اس حوالے سے کوئی بڑا شاعر نہیں مل سکا،اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ جب ہم بڑے ہو جاتے ہیں تو ہمارے لئے بچوں کی سطح پر آ کر سوچنا ممکن نہیں رہتا،لیکن صوفی تبسم نے نہ صرف بچوں کی سطح پر آ کر سوچا، بلکہ اُنہی کی زبان میں شاعری بھی کی، یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری آج بھی بچوں کے لئے ایک مانوس اور پُرلطف شاعری ہے۔
تقریب کے صدر اردو صحافت کے میر کارواں جناب مجیب الرحمن شامی کو خطاب کے لئے بلانے کی خاطر ابھی میں تمہیدی جملے ادا ہی کر رہا تھا کہ وہ اپنی نشست سے اُٹھ کر ڈائس پر آ گئے۔ بہرحال میں نے یہ جملہ اُن کی موجودگی میں کہا کہ ہر عہد کا ایک استعارہ ہوتا ہے اور آج کے عہد کا استعارہ مجیب الرحمن شامی ہیں۔شامی صاحب نے اپنی تقریر کے آغاز میں جب یہ جملہ کہا نسیم شاہد ملتان کے زندہ ولی تھے،اب لاہور کے بھی بن گئے ہیں تو ہال میں زوردار تالیاں بجائی گئیں۔اصل میں شامی صاحب جب کسی کی حوصلہ افزائی کرنے پر آتے ہیں تو کسی قسم کے بخل یا تعصب کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔انہوں نے صوفی تبسم کے لئے دو روزہ جشن کے انعقاد پر ڈاکٹر فوزیہ تبسم اور آغا شاہد علی خان کو مبارکباد دی۔اُن کا کہنا تھا صوفی تبسم کے لاہور پر بہت احسانات ہیں لاہور کا یہ الحمراء جس میں تقریب منعقد ہو رہی ہے انہی کی کوششوں سے بنا،مگر حیرت ہے یہاں اُن کے نام کی کوئی تختی موجود نہیں،کم ازکم ایک ہال تو اُن کے نام سے منسوب ہونا چاہئے۔اربابِ اقتدار کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہئے تاکہ صوفی تبسم کا لاہور پر جو قرض ہے، اُسے اتارا جا سکے۔مجیب الرحمن شامی نے کہا صوفی تبسم ایک شاعر ہی نہیں ایک مجاہد بھی تھے۔انہوں نے جو ترانے لکھے ہیں،وہ آج بھی ہمارا لہو گرما دیتے ہیں۔انہوں نے اردو، فارسی،پنجابی کے ساتھ ساتھ ترجمے کے میدان میں جو کام کیا ہے،اُس کی مثال نہیں ملتی۔ پھر وہ علامہ اقبالؒ کے عاشق تھے اور اٹھارہ برس تک اُن کے قریب رہے، اُن کی اقبال کی شخصیت اور شاعری پر کتابیں اقبالیات کا گراں قدر اثاثہ ہیں، اس موقع پر انوشے شاہد کی جو صوفی تبسم کی پڑپوتی ہیں صوفی تبسم پر ایک بہت معلوماتی،بامعنی اور دلچسپ ڈاکو مینٹری دکھائی گئی جسے ہال میں موجود خواتین و حضرات نے بہت سراہا۔یہ تقریب اختتام کو پہنچی تو مجیب الرحمن شامی صاحب نے کہا کسی تقریب کی صدارت واقعی ایک مشکل کام ہے اور آپ نے آج مجھے اِس مشکل میں ڈال دیا۔اس پر ایک قہقہہ لگا اور وہ روانہ ہو گئے۔