جو آیا، اس نے جانا ہے، صدمہ اپنی جگہ، میرا ملک اپنی جگہ!
گزشتہ روز دفتر میں معمول کے فرائض میں مصروف تھا، فون اُٹھا کر فیس بک پر نظر ڈالی تو برخوردران صحافت کی طرف سے دکھ والی خبر تھی کہ ودود مشتاق دھاریوال حرکت قلب بند ہونے سے دنیا فانی سے کوچ کر گئے، وہ لندن میں مقیم اور جیو، جنگ گروپ سے وابستہ تھے۔ودود ملنسار اور ہر وقت مسکرانے والا بندہ تھا،اُس کی شرافت اور میل ملاپ کا اندازہ سوشل میڈیا سے ہو جاتا ہے کہ وہ کتنا مقبول تھا۔اُس کے لئے دعائے مغفرت کرکے پھر سے کام شروع کر دیا کہ فرائض بھی تو نبھانا ہوتے ہیں، ظہر کی نماز کے بعد کافی حد تک کام ہو گیا کہ سہ پہر کے وقت فون بجا، سکرین پر عمر فاروق (پنڈی) نظر آیا، جواب میں ہیلو کے بعد پوچھا عمر خیریت ہے نا، عمر سسکتے ہوئے بولا! ماموں جان،ابو کاانتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھی اور دُکھ کا اظہار کیا۔ عمر فاروق کو بھی تسلی دی اور دریافت کیا تو اُس نے بتایا کہ آج صبح ہی اللہ نے بُلا لیا اور کل نمازِ جمعہ کے بعد نمازِ جنازہ ہو گی۔ برخوردار کو تسلی دی اور دِل میں سوچا کہ حاضر تو ہونا ہوگا۔
ڈاکٹر فاروق احمد چودھری کی طبیعت ناساز رہتی تھی لیکن یہ علم نہیں تھا کہ اُن کا وقت پورا ہونے کے قریب ہے وہ ویٹرنری ڈاکٹر تھے، تعلق فیصل آباد سے تھا۔اُن کی شادی میرے چچا چودھری علم دین (مرحوم)کی صاحبزادی سے ہوئی۔سرکاری ملازمت ہی کے حوالے سے وہ راولپنڈی منتقل ہوئے اور وہاں طویل وقت گزارا،وہ ہنس مکھ اور ملنسار تھے۔ سرکاری ملازمت کے بکھیڑے بھی ساتھ رہے، اِس حوالے سے اُنہیں صوبائی انتظامیہ کی ضرورت رہتی تو لاہور چلے آتے تھے۔ یہاں میں اُن کے ساتھ دفاتر کے چکر کاٹنے پر مجبور ہوتا۔بہرحال اچھے وقت تھے اور تب انسانیت بھی تھی لہٰذا وہ جب بھی آئے کامیاب ہوئے۔ مجھے بھی اسلام آباد جانا ہوتا تو میں اُن سے اور بچوں سے ملنے ضرور جاتا۔ اکثر قیام بھی ہوتا، ایک دو دن کے لئے وہ مجھے اپنی گاڑی بھی دے دیتے اور میں اپنے کام کاج سے واپس آ جاتا، اچھا وقت گزرا،اب آمد و رفت کم ہو گئی تھی کہ مرحوم تو ریٹائر ہو گئے اور نجی پریکٹس کر لیتے تھے۔ اِن کے صاحبزادے عمر فاروق بھی ڈاکٹر ہی ہیں اور ہومیو پیتھ کا کورس کئے ہوئے ہیں۔
میں دفتر سے اجازت لے چکا لیکن صفحے کا پیٹ بھرنا بھی لازم ہے اور کالم جانا ہے چنانچہ روانگی سے قبل یہ فرض بھی ادا کرکے جا رہا ہوں۔ میں نے اپنے بیٹے عاصم چودھری کا تعاون حاصل کیا، جنہوں نے انٹرنیٹ کے تعاون سے بسوں کی آمد و رفت کے اوقات کے علاوہ ریلوے سے بھی معلومات حاصل کیں،حیرت انگیز طورپر کرائے مہنگے ہونے کے باوجود بکنگ مشکل ہو گئی،اگر نشست مل رہی تھی تو وقت مناسب نہیں تھا کہ مجھے تو نمازِ جمعہ سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ادا کرنا اور نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا تھی۔ریلوے کے دوست اعجاز شاہ صاحب سے رابطہ کیا تو ریل کار کے اوقات آمد و رفت کے لئے مناسب تھے، جب ایپ پر جا کر نشست کی کوشش کی تو یہاں بھی بکنگ مکمل تھی، کافی دیر کی تلاش کے بعد بالآخر عاصم چودھری نے اپنا دن بھی وقف کر دیا اور اب وہ مجھے کار پر لے کر جا رہا ہے،روانگی سے قبل یہ تحریر دفتر بھیج کر ہی جانا ہو گا۔ دعا کے لئے درخواست ہے۔
خیال تھا کہ آج ملکی احوال ہی کے حوالے سے بات ہوگی اور کچھ اپنی معلومات کا ذکر کروں گا لیکن ہماری روایات کے مطابق حالات میں تیزی آ گئی اور اِس کے ساتھ ہی قیاس آرائیاں اور سیاست بھی تیز ہو گئی ہے، مجھے ہمیشہ اچھے کی توقع رہتی ہے اور اِسی لئے زیادہ تیزی سے گریز کرتا ہوں اور بعض معلومات کو بھی محفوظ رکھ لیتا ہوں، مجھے مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری اور محمد نوازشریف سے بہت سی توقعات تھیں اور ہیں لیکن عجب بات ہے کہ سب اپنے اپنے نظریئے پر قائم ہیں اور دوسری طرف تحریک انصاف میں بھی کوئی لچک نظر نہیں آ رہی اور حالات معمول پر آتے دکھائی نہیں دیتے، مہنگائی نے ناک میں دم کر دیا، بھوک سر پر ناچ رہی ہے اور ہمارے سیاسی اکابرین اپنے اپنے سکور برابر کرنے میں لگے ہوئے ہیں، اِسی دوران جنرل فیض حمید والا مسئلہ سامنے آ گیا،میری معلومات کے مطابق فیض حمید کے مقتدرہ سے تعلقات ٹھیک نہیں تھے لیکن اس کے باوجود وہ بھی اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھا رہے تھے، یہ بھی یاد آیا کہ جب برادرم حامد میر نے اپنی تقریر میں خاتون خانہ کی طرف سے شوہر کو گولی مار کرزخمی کرنے کی بات کی تو وہ زیر عتاب بھی آ گئے تھے، پھر محترم فیض حمید کی اپنی عزیزداری کا بھی علم تھا کہ سابق بیورو کریٹ محمد عالم میرے دوستوں میں سے تھے،اُنہوں نے بطور وکیل چودھری برکت علی سلیمی کے چیمبر سے پریکٹس شروع کی تھی جو میرے بڑے بھائیوں جیسے تھے۔ معلومات ہونے کے باوجود حیرت تھی کہ مقتدرہ کی طرف سے خاموشی ہے تاہم 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کی کوریج کے دوران پاسداران وطن سے جو تعلقات بنے اِن کی بناء پر حکمت عملی کے پہلو جانتا ہوں، اِس لئے خیال یہی تھا کہ کچا ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا چنانچہ جب عمل کا وقت آیا تو اب معلومات کے خزانے بھی نظر آنے لگے ہیں۔ اِس سب کے باوجود میری دلی تمنا ہے کہ میرے ملک کے دشمنوں کے منہ میں خاک۔ میرا وطن سلامت ہے اور سلامت رہے اِس کے لئے میں گزشتہ روز کے کالم میں گزارش کر چکا کہ اگر سب سیاستدان حضرات کو شکوے اور تحفظات ایک ہی طرف سے ہیں تو کیا یہ بہتر نہیں کہ یہ سب آپس میں بیٹھ کر ملکی استحکام کی خاطر متحدہ طور پر اِن شکایات کے ازالے کے لئے مقتدرہ سے بات کرلیں۔
میں اپنے طور پر جتنے ممالک جا سکا، میں نے اپنے ہم پیشہ دوستوں کو ہمیشہ محب وطن پایا، وہ اپنے ملک میں بہتری کے لئے تنقید ضرور کرتے ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کے خلاف جنگ کریں اور بیرون ملک جا کر تنقید کریں،یہ تو ہم پاکستانی ہیں کہ مفاد بھی اسی ملک سے اُٹھاتے اور ملک سے باہر جا کر ملک ہی پر تیر بھی برساتے ہیں، اِسی طرح ہم اپنے ملک میں سیاست کے لئے بیرونی طاقتوں کی طرف دیکھتے ہیں، میں نے اپنی عمر بھر کی صحافت میں بڑے بڑے جگادری رہنماؤں کے قول و فعل میں فرق دیکھا ہے اور اب تو حالات یہ ہیں کہ قوم تو تقسیم ہوئی سو ہوئی، ادارے بھی اِس کی زد میں ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہم پر رحم فرمائے اور مشکلات آسان فرما دے، ورنہ جو بھی اللہ کی طرف سے آیا،اُسے واپس بھی جانا ہے، دنیا ختم ہو گی،اللہ کی ذات برکات ہی رہے گی۔ اب بھی سمجھ جائیں تو برکات سے مستفید ہو سکتے ہیں، توبہ لازم ہے۔