سرکاری افسر، دباؤ کا شکار

سرکاری افسر، دباؤ کا شکار
سرکاری افسر، دباؤ کا شکار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ دنیا میں ہونے والے تمام کورسز میں ایم بی بی ایس سب سے پیچیدہ ترین کورس ہے۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد اسپیشلسٹ بننے کی تگ ودو کے 5سال میں دن رات نان سٹاپ ڈیوٹیز اور مشکل ترین فائنل امتحانات کے بعد نوکری کے لالے ایسا لمبا سفر ہے،جو اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے ڈاکٹروں کے علاوہ کوئی بھی تو نہیں کرتا۔
اکثر ڈاکٹر شکوہ کرتے ہیں جتنی محنت ہم نے کی اتنا ہمیں انعام نہیں ملا وہ ہر مسئلے کا مدعا بیوروکریسی پر ڈال دیتے ہیں مانا کہ ڈاکٹر حضرات بڑی محنت کے بعد کسی مقام پر پہنچتے ہیں اور ڈاکٹروں کی اکثریت روپے پیسے میں نہیں کھیلتی،چند ڈاکٹر ہی کروڑوں کے مالک بنتے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ مقابلہ کا امتحان و انٹرویو پاس کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔لوگ ڈاکٹروں کو معاشرے کی کریم قرار دیتے ہیں۔میرے خیال میں ذہانت اور آئی کیو کی معراج ہمارے قابل ترین بیورو کریٹ ہیں۔ ان کو کریم آف دا نیشن کا نام دیا جائے تو بہتر ہے۔ مجھے اس سے بھی انکار نہیں کہ ڈاکٹر اپنی جان پر کھیل کر بھرپور سٹریس میں سرجری کرکے مریض کی جان بچاتے ہیں اور کورونا کی اس وبا میں تو کتنے ڈاکٹر قربان ہو گئے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہماری انتظامیہ نے بھی دن رات کام کیا تبھی جاکر ہم کورونا کے خلاف اس جنگ میں اُس نقصان سے بچ گئے، جس کی دنیا توقع کر رہی تھی۔ بدقسمتی سے ہم کام کرنے والوں کی تعریف کرنے میں بڑی کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ منفی باتیں کرنا ہمارا وطیرہ ہے۔ بڑی اہم بات ہے کہ سول سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے افسران کا صبح سویرے دفتر آنا، رات گئے دفتر سے جانا، میٹنگز پر میٹنگز اور پورے صوبے سے آنے والے سائلوں کی بات سننا خالہ جی کا گھر تو نہیں۔ راقم نے اکثر سرکاری افسران کو بلڈ پریشر، شوگر اور دِل کا مریض اِس لئے پایا کہ اضطرابی کیفیت، سارا سارا دن بغیر آرام کے کام کرنا، ناشتہ، لنچ، ڈنر کا وقت پر نہ کرنا اور تو اور آئے روز کے تبادلوں سے فیملی کا ڈسٹرب ہونا، بچوں کی پڑھائی،فیملی و والدین سے دور رہ کر ڈیوٹی کرنا وہ مسائل ہیں، جن کے بارے آج تک کسی نے توجہ نہیں دی اور اوپر سے افسران کو او ایس ڈی بنانے سے  لے کر ایماندار آدمی کو کام نہ کرنے دینا اس شریف آدمی کو کھڈے لائن لگانا ہمارے سیاسی اکابرین کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔


خاکسار کو اچھی طرح یاد ہے جب ایک سیکرٹری تعلیم کو وزیراعلیٰ کے ساتھ میٹنگ میں ہارٹ اٹیک ہو گیا، جن کو فوری طبی امداد کے لئے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے جایا گیا ان کے علاوہ کئی افسران دوران ملازمت اگلے جہاں سدھار گئے صرف اس نگوڑی ٹینشن کی وجہ سے، لیکن ہم پھر بھی اپنے سرکاری افسران کو حوصلہ دینے، ان کے اچھے کاموں کی تعریف کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔اگر کسی افسر کے کرخت لہجہ و رویہ، سائلوں سے رشوت لینے بارے ٹھوس ثبوت و شکایت ہو اس کے لئے علیحدہ فورم پر شکایات کا ازالہ کرنا چاہئے،ویسے میرا دِل مانتا نہیں کہ مقابلہ کا امتحان پاس کرنے والے کرپٹ ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ اپنے منہ پر کالک ملتے ہوں، لیکن سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنا مناسب نہیں۔


حکومت کو چاہئے کہ سرکاری افسران کے لئے جیسے آج سے 40 سال پہلے آر آر لیو یعنی ریسٹ ریکرئیشن لیو،(آرام و تفریحی رخصت) ہوتی تھی اب دوبارہ اس کا اجرا کیا جائے، اس کا دورانیہ ہر 6ماہ بعد 10 دن ہو، جومع تنخواہ دی جائے تاکہ ہر سرکاری ملازم کسی پرفضا مقام پر سیر و سیاحت سے لطف اندوز ہو، اس طرح  روزانہ ایک ہی روٹین سے عاجز آنے والا بھی تبدیلی محسوس کرکے دوبارہ واپس آکر تازہ دم ہو کر کام کر سکے اور آئے دن کے میڈیکل کلیمز کے بل سے بھی بچت ہو سکے۔


اصل میں یہ ہیں کرنے کے کام، مگر یہاں مسئلہ یہ ہے ہمارے سیاسی اکابرین سرکاری ملازمین کو غلاموں سے زیادہ کا درجہ نہیں دیتے۔ ٹیکس بھی بیچارے یہی سرکاری ملازمین دیتے ہیں۔ تنخواہ ان کی نہیں بڑھتی۔ملکی معیشت کا رونا رو کر اس کا نزلہ بھی سرکاری ملازمین پر گرایا جاتا ہے۔اوپر سے الزام یہ دھر دیا جاتا ہے کہ فلاں سیکرٹری کی ہمدردیاں تو فلاں سیاسی پارٹی سے ہیں، حالانکہ سرکاری ملازم کی وفا تو اس کی نوکری اور اپنے آپ سے ہوتی ہے وہ کیونکر اپنے نام کے ساتھ کوئی خاص لیبل لگوانا چاہے گا۔
اس قسم کی فضول باتیں کر کے کام کرنے والوں کو بھی بد دل کیا جا رہا ہے۔ راقم تو یہ کہے گا بیورو کریسی کو بھی روبوٹ نہیں انسان سمجھا جائے۔ آئے روز قابل افسران کے خلاف نیب کا شکنجہ کسنے سے لے کر ان کی عزت نفس مجروح کرنے سے پرہیز کیا جائے، انہیں یہ احساس دلایا جائے آپ بھی ہمارے اپنے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -