ہماری سیاست کے انداز، ٹرمپ کی جیت اور؟
ہماری سیاست کے رنگ ڈھنگ نرالے ہیں، بلکہ اس کا حساب بھی اونٹ کا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی کون سی کل سیدھی، دنیا بھر کی جمہوریتوں میں بھی اتار چڑھاؤ ہوتے ہیں، جیسے اب امریکہ میں ہوا کہ مسٹرٹرمپ جو صدر ہوتے ہوئے گزشتہ صدارتی الیکشن ہار گئے اور جوبائیڈن نے میدان مار لیا اور حالیہ انتخابات تک وہی صدر تھے اور چارج دیتے وقت تک بھی رہیں گے اور مکمل اختیارات کے بھی حامل ہوں گے جبکہ ٹرمپ جیت گئے اور عہدہ جنوری میں سنبھالیں گے تاہم امریکی نظام حکومت کے تحت جیتنے والا صدر کرسی صدارت سنبھالنے تک اپنے لئے ساتھیوں (کابینہ وغیرہ) کی نامزدگیاں پہلے ہی سے شروع کر دیتا ہے اور ٹرمپ نے یہ سلسلہ شروع کر دیا اور دنیا کے لئے حیرت کا سامان بھی کر رہے ہیں کہ بعض متوقع امیدوار منہ دیکھتے رہ گئے اور نئے لوگ میدان میں آ گئے ہیں، ٹرمپ کی طرف سے نامزدگیوں سے جوبڑا تاثر ملا ہے وہ تو یہی ہے کہ وہ انپے تاجرانہ ذہن کے مطابق امریکی معیشت پر زیادہ توجہ دیں گے اور اس لئے چونکہ امن اور استحکام ضروری ہے اس لئے وہ کم از کم دنیا میں جنگ بندی کے حوالے سے ضرور اقدام کریں گے، اس کا اندازہ ایلون مسک کا اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر سے بھی ملنا ہے جبکہ گزشتہ دنوں جرمن چانسلر اور روس کے صدر پیوٹن کی ملاقات بھی ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ میں یہ تبدیلی ہے، جو دنیا میں امن کے لئے مثبت بن جائے اور نو منتخب امریکی صدر اپنے اعلانات کے مطابق نہ صرف یوکرین اور روس میں جنگ بندی کرائیں بلکہ غزہ اور لبنان پر اسرائیلی حملوں کو بھی رکوا لیں اور اس خطے میں بھی مذاکرات کی داغ بیل ڈال دی جائے، اسے میری خواہش جان لیں یا پھر عملی میدان کی مجبوریاں سمجھیں کہ ٹرمپ اگر امریکہ کے اندرونی مسائل کو اپنے اعلان کردہ منشور کے مطابق ہی درست کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان کے لئے دھوئیں میں اڑائے جانے والے ڈالروں کو بچانا ہوگا جو اسرائیلی بربریت میں معاونت کررہے ہیں اور ایک خبر یہ بھی ہے کہ جوبائیڈن جاتے جاتے بھی اسرائیل کو کروڑوں ڈالر اور مزید اسلحہ دے جایں گے، اس لئے امریکی خوشحالی کے لئے بھی بچت ضرورت ہے جو امن ہی سے ممکن ہے اور یوں یہ ٹرمپ کی مجبوری بھی ہوگی کہ بارود کا جلانا اور پھٹنا بند ہوجائے۔
بات جمہوریت سے شروع کی لیکن کدھر سے کدھر چلی گئی، بہرحال اس کا تعلق بھی حکومتوں کی تبدیلی اور عمل ہی سے ہے، جمہوریت ہی میں یہ عمل بھی موجود ہے کہ اکثر واحد اکثریت والی جماعتوں کو بحیثیت جماعت ایوان کی اکثریت نہ ملے تو وہ دوسری جماعتوں سے مل کر حکومت بناتی ہیں۔ پاکستان میں یہ تجربہ کئی بار ہو چکا اور اب بھی وفاق میں اتحادی حکومت ہے لیکن ہمارے جمہوری کلچر میں توازن کی حامل چھوٹی جماعتیں اتحاد کے باعث مزے میں رہتی ہیں اور اپنے وزن کے حوالے سے اکثریتی جماعت کو بلیک میل کرنے سے بھی نہیں چوکتیں، ہمارے ملک میں اتحادی حکومت کا تجربہ کچھ خوشگوار نہیں کہ یہاں مطالبات ہی مطالبات ہیں حقوق نہیں ہوتے چنانچہ سربراہ حکومت مشکل ہی سے دوچار رہتی اور مطالبات ماننے پر مجبور ہوتی ہے، اگرچہ اس سلسلے میں تعریف تو ایم کیو ایم کی ہو رہی ہے جو خود تو اقتدار میں آنے جتنی نشستیں نہیں رکھتی، لیکن اس کے ممبران کی تعداد جب بھی معقول ہو اس کے مطالبات ہی نہیں تھمتے اور اب بھی ایسا ہی ہے لیکن اب جو بات بلاول بھٹو زرداری نے کی ہے اس نے نئی ہلچل مچا دی ہے کہ نوجوان رہنما نے یکایک شکوؤں کا دروازہ ہی کھول دیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہی کہ سیاست عزت کے لئے کی جاتی ہے لیکن اتحادی حکومت میں ان کو عزت نہیں ملی، اس سلسلے میں انہوں نے بعض شکایات ظاہر بھی کر دی ہیں، ان کی باتوں کا مثبت جواب خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ کی طرف سے آ گیا ہے کہ ان کی شکایات کا ازالہ کیا جانا چاہیے، یوں پھر سے یہ امکان ہے کہ وزیراعظم اور ان کی ایک اور ملاقات ہو اور ان امور پر غور ہو جس کے بعد اطلاع ملے کہ سب اچھا ہے، یوں بھی بلاول نے شکائت کی کوئی دھمکی نہیں دی اور نہ ہی بلیک میلنگ کا انداز اختیار کیا، دیکھا جائے تو یہ بھی جمہوری طریقہ ہی ہے کہ بات کی گئی اور جواب مثبت آیا، اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ اگر یہ شکوہ بھی اتحاد کے اندر بیٹھ کر کیا جاتا تو بہت ہی بہتر تھا، کم از کم ہم جیسے حضرات کو تو اپنی ”ہنرمندی“ دکھانے کا موقع تو نہ ملتا۔
گزشتہ روز (جمعہ) میرے چھوٹے بھائیوں جیسے دوست ڈاکٹر جہانگیر بدر کی آٹھویں برسی تھی، ان کے صاحبزادوں ذوالفقار علی بدر اور جہاں زیب بدر نے معمول کے مطابق دعائے مغفرت کا اہتمام کیا تھا، میں دفتری امور کی وجہ سے بروقت پہنچنے سے قاصر رہا، تاہم علی بدر سے بات کے بعد تاخیر ہی سے سہی،پہنچ گیاتو دعائے مغفرت کے بعد ابھی احباب موجود تھے، چنانچہ جہانگیر کے بڑے بھائی جمیل بدر صاحب اور برادرنسبتی پروفیسر تنویر اور متعدد رہنماؤں سے ملاقات اور بات چیت بھی ہو گئی، میں نے تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے مناسب نہ جانا کہ نمایاں شخصیتوں میں سے اور کون کون آئے اور دعائے خیرکے بعد چلے گئے ہیں، البتہ گھر کے ڈرائنگ روم میں موجود جیالوں کی باتیں سننے کا موقع مل گیا جو جہانگیر بدر کی جماعت کے لئے خدمات کا ذکر کر رہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت متحرک رہنما تھے جنہوں نے پنجاب کے سیکرٹری جنرل اور پھر صدر کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دیں اور جماعت کو متحرک رکھا، تاثر یہی تھا کہ پنجاب کے لئے اب بھی کسی ایسے ہی رہنما کی ضرورت ہے، میں نے بات چیت میں خود حصہ نہ لیا سنتا ضرور رہا لیکن میرا ہی نہیں جماعت کے بہت سے سینئر رہنماؤں کا خیال ہے کہ جہانگیر بدر (مرحوم) نے واقعی جماعت کو مشکل اوقات میں سنبھالا اور تقویت دی کہ وہ خود کو کارکن جان کر کام کرتے تھے بلکہ شاید وہ واحد لیڈر تھے جن کو پارٹی کے کارکنوں اور عہدیداروں کے نام ازبر تھے اور ملتے وقت ان کے نام ہی سے ملتے اور بات کرے تھے۔
اسی سلسلے میں بلاول کا ذکر ہوا تو بتایا گیا کہ ووٹر کے لئے 18سال کی عمر شہید بے نظیر بھٹو کا عزم تھا اور انہوں نے ہی ایسا کیا، ان کا ویژن تھا کہ دور جدید نوجوانوں کا ہے اور نوجوانوں کو ہی آگے بڑھنا چاہیے لیکن پیپلزپارٹی اس سے فائدہ نہ اٹھا سکی، ممبر شپ کا دروازہ انہوں نے کھولا لیکن نوجوان تحریک انصاف کی طرف مائل ہو گئے یہ خود پیپلزپارٹی کے جوانوں کی غفلت تھی کہ نئے ووٹرز کو اپنے ساتھ نہ رکھ سکے اور یوں پیپلزپارٹی کو زیادہ فائدہ نہیں ملا، کارکنوں اور مقامی رہنماؤں نے بلاول بھٹو سے بہت سے توقعات وابستہ کررکھی ہیں اور جب بھی ان کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے تو نوجوان بلاول ہی کو آگے لانا چاہتے ہیں لیکن نہ معلوم وہ کیسے اور کون سے حالات ہیں جو ان (بلاول) کو آگے نہیں بڑھنے دیتے، آصف علی زرداری تو اس سلسلے میں چپ سے ہیں، حتیٰ کہ راجہ پرویز اشرف سینئر کارکنوں کی موجودگی میں عملی طور پر کام نہیں کر رہے اور ان کی جگہ سینئر نائب صدر نے سنبھال رکھی ہے جو یقینا بہت بہادر اور متحرک سینئر جیالے ہیں لیکن اس عارضی نظام ہی سے کام نہیں چل رہادوسری طرف بلاول کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ والدہ کی تربیت کا مظاہرہ کر گزرتے ہیں اس کا مظاہرہ حال ہی میں ہوا کہ صدر آصف علی زرداری کی علالت کے باعث جو متحرک کردار ادا کیا ہے اس نے بڑی داد لی، لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ نوجوان کو پھر والد بزرگوار کی طرف سے خاموشی بہترہے کا سگنل مل جائے گا۔