ایک دن جماعت اسلامی کی تربیت گاہ میں
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے جب اصلاحِ اُمت کامشن شروع کیاتھاتوا ن کے سامنے اس کی ایک مثال قدیم خانقاہی نظام کی تھی۔ و ہ اس کی افادیت کے قائل تھے۔ اس نظام میں اصلاح کاطالب دنیا کے بکھیڑوں سے نکل کرکسی روحانی شخصیت کی رہنما ئی میں کچھ وقت کے لئے مجاہدات میں مشغول ہو جاتا تھا۔ نتیجہ کے طور پر ایک طرف اس فرد کواستحکامِ ذات ملتاتو دوسری طرف اس کا اپنے خالق ومالک سے رشتہ مضبوط ہو جاتا تھا لیکن وہ طریقہ کارانفرادی اصلاح کا تھا۔ مولانامودودیؒ کودورجدیدمیں اس نظام کی من وعن پیروی ناممکن نظرآئی توانہوں نے تربیت کاایک نیاانداز اختیارکیا انہوں نے پہلے تو مدلل اورآسان پیرائے میں اقامت دین کافریضہ یاد دلایاپھرجولوگ قائل ہوگئے اوردین اسلام کے غلبے کے لئے سردھڑکی بازی لگانے پرتیار ہوگئے توانہیں مستقل ایک جماعت کی صورت دے دی۔ اس جماعت کے کارکنان کے لئے تزکیہ باطن اور تعمیر اخلاق کاباقاعدہ ایک تربیتی نظام ترتیب دیا۔ تربیت پانے والے افراد کی درجہ بندی بھی کی،ہرشخص اپنے اخلاص،محنت اورسوجھ بوجھ کی بناپرآگے بڑھ سکتاتھا۔انہیں کارکنوں کی درجہ بندی کاخیال کیسے آیا،اس بارے میں نہ خود انہوں نے کبھی کچھ بتایانہ کبھی اس حوالے سے کسی نے ان سے سوال کیا۔ممکن ہے انہوں نے یہ تصورکمیونسٹ پارٹی سے لیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ان کے اپنے ذہن کی اختراع ہو بہرحال وہ تربیت کاایک مناسب نظام بنانے میں کامیاب ضرور ہو گئے۔
میٹر ک کاامتحان دینے کے بعد میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگیابعد کے زمانہ طالب علمی (1968-81)میں مجھے بے شمارتربیت گاہوں میں شرکت کاموقع ملاوہاں جماعت اسلامی کے بعض سینئراصحاب علم و دانش ایسے لیکچردیتے جن کی وجہ سے ایک تودین سے لگاؤ بڑھتا،دوسرے غلبہ اسلام کے لئے جدوجہد کاعزم پختہ ہوتا۔ ان پروگراموں کے دوران کارکنوں کے باہمی تعلقات استوار ہوتے جواکثروبیشتربعد کی عملی زندگی میں بھی قائم رہتے۔ تربیت کے ضمن میں لٹریچرکا مطالعہ بھی بہت بنیادی کردار ادا کرتا تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی شروع کی تو قدم قدم پر احساس ہونے لگا کہ ہمارا معاشرتی معاشی اور سیاسی نظام ہماری آئیڈیالوجی سے کلی طور پر مختلف ہے خواہ کوئی ذاتی کاروبار شروع کرے یا سرکاری یا غیر سرکاری ملازمت اختیار کر لے اسے بڑے تلخ حالات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔مجھے احساس ہوتا کہ اگر دورِ طالبعلمی کے دوران تربیتی نظام کے ذریعے ہمیں عملی زندگی کی کٹھنائیوں سے شناسائی مل جاتی توکتنا اچھا ہوتا!
یونیورسٹی کی تدریس کے دوران میرا جماعت اور جمعیت سے رابطہ منقطع رہا البتہ مطالعہ کاسفر برابر جاری رہا خاص طور پر سقوط مشرقی پاکستان کے المیہ نے میرے قلب و ذہن پر ایسی زبردست چوٹ لگائی تھی جس نے مجھے اس کے اسباب وعلل پر سوچتے سوچتے پورے ریاستی نظام سے متعارف کرا دیا، پتہ چلاکہ نظام میں کونسی ایسی بڑی بڑی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے جمہوری عمل بار بار ٹوٹتااورغیرجمہوری قوتوں کو من مانیاں کرنے کاموقع ملتاہے، کس طبقے کے کیا مفادات ہیں اوروہ اپنی طاقت اورحیثیت کے مطابق اپنے مفادات سمیٹنے کے لئے کیا کیا حربے استعمال کرتا ہے جاگیرداروں اور نئے سرمایہ دار طبقے نے باہمی گٹھ جوڑ کر کے کیسے درمیانے اور غریب طبقات کو پارلیمنٹ تک پہنچنے سے روک رکھا ہے غربت، بیماریوں اور جہالت نے کیسے عوام کی زندگیاں عذاب بنا رکھی ہیں سوال یہ ہے کہ عوام کی خون پسینے کی کمائی آخرکون کھاجاتاہے ہماری حکومتیں ملکی بجٹ میں سے تعلیم اور صحت کے لئے کیوں زیادہ حصہ نہیں لے سکتیں ہماری بھارت سے اب تک تین چار جنگیں ہوئی ہیں ان کے حقیقی اسباب و محرکات کیا تھے،غلط فیصلے اور غلط پالیسیاں بنانے والوں کاہم اب تک محاسبہ کیوں نہیں کر سکے۔ ہم معاشی طور پر اپنے پیرو ں پرکھڑے کیوں نہیں ہوسکے ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کی محتاجی کیوں کرنا پڑتی ہے کرپشن کیوں پورے دھڑلے سے جاری ہے معاملات عدالتوں تک پہنچتے ہیں تو انصاف کیوں نہیں ہوتامجرم کیوں قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں آج ہماری خاندانی زندگیاں اگرطرح طرح کے مصائب سے دوچار ہیں اور رشتوں کا تقدس بھی بُری طرح پامال ہو گیا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پاکستان بیرونی دنیا میں کیوں اپنا وقار اور احترام کھو بیٹھا ہے۔میں ایسے سوالات پر غور و خوض کرتا اور جو سمجھ میں آتا اس پر کچھ نہ کچھ خامہ فرسائی بھی کرتا رہا کبھی کبھی خیال آتا رہا کہ دیکھوں جماعت مسائل و مصائب کے اس گرداب سے نکلنے کے لئے اپنے کارکنوں کوکیا شعور فراہم کرتی ہے۔
گزشتہ ماہ پتہ چلا کہ 10 سے 13ستمبر تک جماعت اسلامی کی منصورہ میں ایک تربیت گاہ منعقد ہو رہی ہے،میں نے اس میں شمولیت کے لئے جناب امیرالعظیم (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان) کے سامنے اشتیاق ظاہرکیا تو انہوں نے بڑی محبت سے مجھے شرکت کی اجازت دے دی۔ میں پہلے دن صبح سوا نو بجے تربیت گاہ میں پہنچ گیا مجھے سٹیج سے سامعین کی پہلی لائن میں بیٹھنے کے لئے دعوت دی گئی۔ میں تربیت گاہ کے منتظمین کاشکرگزاررہوں کہ انہوں نے مجھے موجودہ تربیتی نظام کوقریب سے دیکھنے کافراخدلی سے موقع فراہم کیا۔
پروگرام کاشیڈو ل دیکھاتومعلوم ہواکہ روزانہ صبح کی نشست کاآغاز اذکار مسنونہ اور درس قرآن سے ہوگااس کے علاوہ جوتربیتی لیکچر ز رکھے گئے ان کے عنوانات مندرجہ ذیل تھے:
٭محبت رسولﷺ کے حقیقی تقاضے ٭توازن زندگی قرآن وحدیث کی روشنی میں ٭اسلا م کی سربلندی کے لئے سید مودودی کی خدمات ٭ہم اورہماری ذمہ داریاں ٭سیرت رسولﷺ کی روشنی میں اپنے معاملات کاجائزہ ٭ موجودہ حالات میں نوجوانوں کی ذمہ داریاں ٭اقامت دین کی جدوجہد میں ہماراکردار ٭ دعوت بذریعہ ذاتی کردار ٭اسلام کاتصورحکومت اورجماعت اسلامی ٭اسلامی تحریکوں کی حقیقی منزل اور اس کے حصول کاراستہ٭اطاعت نظم کے تقاضے قرآن وحدیث کی روشنی میں ٭بچوں کی تربیت میں والدین کاکردار۔
ان عنوانات میں سے کسی کابھی آج کی زندگی کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ شیڈول میں تربیت گاہ کے تین مقاصد بتائے گئے تھے: (1) فکر آخرت (2) احیائے تہذیب اسلامی کے لئے تڑپ پیدا کرنا اور(3) فریضہ اقامت دین کی ادائیگی کے لئے آمادگی پیدا کرنا اور رفتارِ کار۔
اندازہ ہواکہ جماعت اسلامی اپنی پرانی ڈگرہی پرپوری یکسوئی سے قائم ہے اس کے تربیتی پروگراموں کامقصد یہ ہے کہ کارکن جماعتی نظریاتی لٹریچر کامطالعہ کرتے رہیں نماز روز ہ کی پابندی کریں اورسمع واطاعت کے نظام سے پور ی طرح جڑے رہیں ان کی تربیت کے لئے یہی کافی ہے میں پہلا پورا دن تربیت گاہ میں موجودرہا، باقی تین دن وہاں بیٹھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔علامہ اقبال نے ٹھیک کہاہے:
آئین نو سے ڈرنا،طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قومو ں کی زندگی میں