مثبت فیصلوں کے اثرات و برکات، رویہ برقرار رکھیں!

 مثبت فیصلوں کے اثرات و برکات، رویہ برقرار رکھیں!
 مثبت فیصلوں کے اثرات و برکات، رویہ برقرار رکھیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی وجہ سے سیاسی امن کی جو صورت بنی ہے اسے برقرار رکھا جائے، اس کے لئے ضروری ہے کہ بیان بازی کا سلسلہ روک دیا جائے کہ اکثر اوقات بولنے ہی کی وجہ سے ماحول میں تلخی پیدا ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے 15اکتوبر کو ڈی چوک پر احتجاج کا جو اعلان کیا گیا، اس کی وجہ سے برسراقتدار اتحاد کی مجبوری تھی کہ وہ ایسے انتظامات کرے جن کی وجہ سے اس احتجاج سے کانفرنس متاثر نہ ہو کہ یہ کانفرنس پاکستان کے موجودہ حالات میں نعمت سمجھی جا رہی تھی کہ عرصہ دراز بعد کوئی بین الاقوامی ایونٹ پاکستان میں ہو رہا ہے۔ اس کی کامیابی سے دنیا میں ملک کا مثبت چہرہ نظر آنے کی توقع لگائی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے اس فیصلے کی توثیق خود جماعت کی اپنی صفوں میں سے نہیں ہو رہی تھی اور جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے تو وہ صورت حال سے متاثر تھے اور تحریک انصاف کے اس فیصلے کی تائید نہیں ہو رہی تھی، اس کے باوجود تحریک انصاف کے رہنما مصر تھے اور دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ ڈی چوک جا کر پرامن احتجاج کے ذریعے دنیا پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی جماعت کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے،تاہم مولانا فضل الرحمن سے لے کر تمام سیاسی لیڈرشپ احتجاج موثر کرنے کے لئے کہہ رہی تھی، اس سے یہ تاثر بن رہا تھا کہ تحریک انصاف یہ احتجاج موخر کر دے گی اور ایسا ہی ہو اکہ ایک عام سی شرط کے ساتھ احتجاج موخر کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا اور باہمی طور پر طے پانے والے معاملے کی وجہ سے پمز کے ڈاکٹروں نے جیل میں عمران خان کا معائنہ کیا اور باہر آکر استفسار پر بتایا کہ کپتان کی صحت بہتر ہے اور انہوں نے ایک گھنٹے ورزش بھی کی ہے۔

تحریک انصاف نے احتجاج موخر کر دیا، بہت اچھا کیا اور اس کی تعریف بھی کی جا رہی ہے تاہم اگر یہ فیصلہ تکرار کے بغیر پہلے ہی کر لیا جاتا تو سخت قسم کی بیان بازی نہ ہوتی اور حکومت کو احتجاج کے پیش نظر ایسے انتظامات نہ کرنا پڑتے جو اب ہوئے اور اسلام آباد ایک قسم کا نوگوایریا بن گیا، اس عمل سے کانفرنس تو سکون سے ہوئی تاہم شہر میں ہوکا عالم تھا، مہمانوں پر اس کا کچھ بہتر تاثر نہیں ہوا ہوگا کہ اسلام آباد کی خوبصورتی میں تو سجاوٹ نے بڑا اضافہ کیا لیکن سروسز اور بازار بند رہنے سے ہوکاعالم تھا جو یقینا کوئی اچھے تاثر کا سبب نہ بنا ہوگا، بہرحال اس سب کے باوجود احتجاج موخر کر دینے سے کانفرنس اطمینان سے ہوگئی اور کسی بدمزگی کا تاثر نہیں ابھرا، جو ہوا اسے غنیمت جانیں اور اس رابطے کو آگے بڑھائیں، اب تک قریباً تمام سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ تحریک انصاف کو سیاست دانوں سے مذاکرات سے گریز کی راہ نہیں اختیار کرنا چاہیے اور مقتدرہ سے براہ راست مذاکرات سے گریز کرنا چاہیے کہ جب سیاسی اتفاق رائے ہو تو بڑے سے بڑے مسائل حل ہو جاتے ہیں اور پھر مقتدر قوتوں کی حمائت بھی مل جاتی ہے، کیا میں اب یہ یقین پیدا کرلوں کہ جوش پر ہوش غالب آئے گا اب ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، آئینی ترامیم کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی میں شرکت ایک اچھا فیصلہ تھا، تاہم یہ موقع بھی مفید ثابت نہ ہوا کہ تحریک انصاف کی موجودہ لیڈرشپ شاید خول سے باہر آنے کو تیارنہیں اور اپنے بانی جماعت کے مزاج کے مطابق عمل کرنے پر حصہ ہے تحریک انصاف نے رویہ برقرار رکھا اور پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی، لیکن پھر بھی اس سے زیادہ بہتر رویہ اپنایا جا سکتا تھا اور ہو سکتا ہے کہ نرم دم گفتار تو کئی پہاڑ سر کرلیتی ہے۔ میں آج کسی کو کچھ نہیں کہوں گا۔ یہی درخواست ہے کہ مل بیٹھنے کا موقع ہے تو مل بیٹھنا چاہیے۔ بات چیت ہو تو مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں۔ طبی معائنہ عمران خان کا حق ہے۔ افسوس ہے کہ یہ ایک شرط کے ساتھ ہوا اور ان کے اپنے ڈاکٹر کو موقع نہیں ملا، حالانکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، شاید ایسا اس خدشے کے پیش نظر کیا گیا ہوکہ محترم کپتان اپنے مزاج کے مطابق رنگ میں بھنگ ڈالنے والا کوئی پیغام ہی جاری نہ فرما دیں۔ میرے خیال میں اس خدشے کے باوجود اجازت دے دینا چاہیے تھی کہ فیصلہ تو ہوہی چکا تھا اور تحریک انصاف خود بھی احتجاج پر تقسیم تھی حتیٰ کہ علی امین گنڈا پور اور حماد اظہر پسر میاں محمد اظہر کی تکرار کی خبر بھی باہر آ چکی ہے۔ بہرحال رموز مملکت جو ہوا بہتر ہوا،اللہ کرے آئندہ بھی ایسا ہو۔

میں نے آئینی ترامیم کا ذکر کیا تو مولانا فضل الرحمن کو داددینے کو جی چاہتا ہے کہ انہوں نے مختصر سی تعداد کے ساتھ میدان مار لیا اور حقیقتاً فیصل آباد کے گھنٹہ گھر ہی بن گئے اور اب تو انہوں نے کراچی میں احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کر دیا کہ ترامیم کا ”کبوتر“ انہوں نے پکڑ لیا اور وہ کوئی انارکلی نہیں ہیں کہ کسی کے کہنے پر اسے چھوڑ دیں گے ان کا یہ دعویٰ کچھ بے جا بھی نہیں کہ حزب اقتدار اور حزب اقتدارسب ان کی تعریف کرنے میں بازی لے جانے کی فکرمیں ہیں۔ مان گئے مولانا آپ کو کہ آپ نے سب کو جھکنے پر مجبور کر دیا اور اب یہ دعویٰ کہ جو مسودہ منظور ہوتا ہے وہ انہی کے تحفظات دور کرکے جمعیت کی تجاویزکے مطابق ہوگا۔ یوں بھی ترامیم کے داعی بلاول بھٹو زرداری بھی مطمئن ہیں اور رات کو ہونے والی ملاقات کو بہت مثبت قرار دیا گیا ہے۔ ادھر حکومت نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے الگ الگ اجلاس بلا لئے جو 17اکتوبر کو ہوں گے کہ آج (17اکتوبر) شنگھائی تعاون تنظیم کی 23ویں کانفرنس ختم ہو چکی  اور وفود کی واپسی معمول کے مطابق جاری ہے، وفاقی دارالحکومت والے کہہ رہے ہیں کہ یہ سب انتظام 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے ہے اور دو دنوں میں یہ مرحلہ عبور کرلیا جائے گا لیکن میرے خیال میں کپ اور لب کے درمیان کئی رکاوٹیں ہیں اور ممکن ہے کہ سب دھرے کا دھرا رہ جائے، اگرچہ حکومتی اتحاد بہت مطمئن ہے اور ان کو یقین ہے کہ بعض آزاد اراکین بھی ترامیم کو پسند کرتے اور ووٹ دیں گے کہ تاحال وہ آزاد ہیں کہ الیکشن کمیشن نے حتمی فیصلہ لٹکا کر رکھا ہوا ہے، دیکھئے کیا گزرتی ہے قطرے پر گہرے ہونے تک۔

مزید :

رائے -کالم -