جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر91
اس کے جسم پر بیش قیمت لباس اتنا مہین تھا کہ اس کا کندن بدن جھلک رہا تھا۔ محمد شریف نے یکدم آنکھیں جھکا لیں۔ قریب تھا کہ میں انجام سے بے خبر آگے بڑھ کر اس ملعون کو جان سے مار دیتا۔ اس کی آواز آئی۔
’’آہا۔۔۔مہاراج موہن آئے ہیں۔ پدھارئیے مہاراج۔۔۔پدھارئیے۔ ہمرے بھاگ، آج تو چیونٹی کے گھر نارائن آئے ہیں۔‘‘ وہ چہک کر بولا۔ میرے جسم میں چنگاریاں دوڑنے لگیں۔
’’تو۔۔۔؟ اچھا تو یہ تو تھا حرامزادے۔۔۔! میں سوچتا تھا کہ آواز جانی پہچانی لگتی ہے ۔ حرام کے جنے تیری اگرکوئی دشمنی تھی بھی تو مجھ سے ۔پھر تو نے میری معصوم بیوی کو کیوں اپنے ظلم کا نشانہ بنایا؟‘‘ میرے منہ سے جھاگ اڑنے لگا۔
’’کل یگ ہے ۔۔۔کل یگ (اندھیر ہے۔۔۔اندھیر) مہاراج! میں نے تو کوئی انیائے نہیں کیا۔ تم نے میری پریمیکا سے پریم کیا میں نے تمری پتنی سے اس میں انیائے کی کیا بات ہے؟ یہ تو سیدھا سادہ سودا ہے۔ تمہیں جس شے کی چاہ تھی تم نے لے لی۔ مجھے جس کی چاہ تھی میں نے۔ اب تم ہی کہو مہاراج! اس میں کوئی انیائے والی بات ہے؟‘‘ اس نے آخری فقرہ محمد شریف کی طرف دیکھ کر کہا۔جو آنکھیں جھکائے خاموش کھڑا تھا۔ پہلی نظر کے بعد اس نے صائمہ کی طرف دوبارہ نگاہ نہ ڈالی تھی۔
’’تم جو کوئی بھی ہو۔۔۔تم نے غیر شرعی فعل کیا ہے۔ اگر سلامتی چاہتے ہو تو صائمہ بن کر اس کے خاوند کے حوالے کر دو اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگو وہ بڑا غفور الرحیم ہے سب کو معاف کر دیتا ہے جن وانس سب کو۔۔۔اب تک جو گناہ تم سے سر زد ہوئے ہیں ان کی بخشش کے لئے اس کے سامنے جھک جاؤ۔ اسلام قبول کرلو اور ایک اللہ کی وحدانیت پر ایمان لے آؤ کہ وہی سب کا معبود برحق ہے اور کائنات کا مالک بھی۔ شرک کے اس راستے کو جس پر تم شیطان کے حکم کی اطاعت میں چل رہے ہو سیدھا تمہیں جہنم میں لے جائے گا۔ کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جن و انس سے ان کے گناہوں پر باز پرس کرے گا اور جس نے اطاعت قبول کرکے اللہ تبارک و تعالیٰ کو اپنا معبود مان لیا۔ حضرت محمد صلی اللہ وسلم کو آخری نبی مان لیا قیامت پر ایمان لے آیا وہ نجات پا گیا۔ ورنہ تو انسان و جن سے روز محشر ان کے اعمال کا حساب ہونا ہی ہے۔‘‘ محمد شریف نے نہایت تحمل سے اسے اسلام کی دعوت دی۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر90 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
’’بند کر اپنا یہ اپدیش۔۔۔تو نہیں جانتا اس سمے تو کسی شکتی کے سامنے کھڑا ہے؟یدی ایک پل میں تو یہاں سے باہر نہ گیا تو بھسم ہو جائے گا‘‘پرتاب حلق کے بل دھاڑا۔
ایک لمحے کے لئے محمد شریف کے چہرے پر جلال چھا گیا پھر وہ معمول پر آگیا۔ اس نے ایک بار پھر اس ملعون کو اسلام کی دعوت دی لیکن جواب میں وہ بکواس کرتا ہرا۔ اس نے اسلام کی تعلیمات کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ میں نے دیکھا غصے سے محمد شریف کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
’’تو نادان ہے۔۔۔میں نے بہت کوشش کی کہ تو راہ راست پر آجائے لیکن تیرے دل پر قفل لگاہوا ہے تو ہدایت پانے والوں میں سے نہیں ہے۔‘‘ محمد شریف کی قہر بار آواز آئی۔
’’بڑھ بڑھ کر باتیں نہ کر میں جانتا ہوں تو عام منشوں سے ہٹ کر ہے۔ میں تجھے شما کرکے جانے کا اوسر دیتا ہوں پرنتو اس ملیچھ کو ساتھ لے جانے کا نہ کہنا۔ میں نے مہاراج کالی داس کو وچن دیا ہے کہ اس کا بلیدان اوش کالی ماتا کے چرنوں میں ہوگا۔‘‘ پرتاب نے حقارت سے کہا۔
’’تو ایسے نہیں مانے گا‘‘ محمدشریف نے کہا۔
’’بھائی عبدالودود! میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ لیکن اس کی قسمت میں ایمان کی دولت نہیں لکھی۔ اب آپ جیسا حکم کریں‘‘ محمد شریف نے پرتاب کو جھڑک کر ایک طرف منہ کرکے کہا۔ اچانک عبدالودود ظاہر ہوگیا۔ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ پرتاب نے چونک کر عبدالودود کو دیکھا اور جلدی سے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ چوکنا دکھائی دے رہا تھا حالانکہ اس سے پہلے وہ بڑی بے پرواہی سے نیم دراز تھا۔
’’بھائی محمد شریف نے آپ کو اسلام کی دعوت دی میں بھی آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ شیطان کی پیروکاری چھوڑ کر ایک اللہ پر ایمان لے آئیں تاکہ آخرت میں آپ جہنم کے عذاب سے بچ جائیں۔ یہ دنیا محض چند روزہ کھیل تماشہ ہے دھوکہ ہے۔ا صل زندگی تو آخرت کے بعد شروع ہوگی۔ جہاں ہم سب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔ اس لئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ ہماری دعوت پر غور فرمائیں۔ اگر آپ کو کچھ مہلت چاہیے تو ہم دینے کے لئے تیار ہیں۔اس خاتون کو آزاد دیجئے اور ہماری ساتھ ایک نشست اختیار کیجئے۔ امید ہے اللہ کے حکم سے ہماری بات آپ کی سمجھ میں آجائے گی‘‘ عبدالودود نے نہایت تحمل سے اس خبیث کو سمجھایا۔ پرتاب کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ چھا گئی۔
’’تم مجھے شکتی پورک(طاقتور) جان پڑتے ہو۔ پرنتو تمرا یہ بھاشن میری بدھی میں نہیں سماتا۔ منش جاتی سے ہمیں کچھ پراپت ہونے والا نہیں۔ ان کی سنگت چھوڑ کر میرے متر بن جاؤ پھر دیکھو یہ سنسار تمرے واسطے سورگ بن جائے گا۔ ایک سے ایک سندر کنیا ہے کالی داس کے آشرم میں۔۔۔دیکھو گے تو اپسراؤں(پریوں) کو بھول جاؤ گے۔ میں تمہیں وچن دیتا ہوں کہ کچھ سمے بعد یہ سندرنازی بھی تمہیں دان کر دوں گا‘‘ پرتاب نے اوباشوں کے سے انداز میں صائمہ کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے ہونٹوں پر خباثت بھری مسکراہٹ رقصاں تھی۔ اس کی بات سن کر عبدالودود کا چہرہ طیش سے قندھاری انار جیسا ہوگیا۔ اسنے قہر ناک نظروں سے پرتاب کو دیکھا جس کے ہونٹوں پر تاؤ دلانے والی مسکراہٹ تھی۔
’’محمد شریف! آپ گواہ ہیں کہ میں نے بھی اپنا فرض ادا کردیا‘‘ اس نے محمد شریف کو مخاطب کیا۔
’’سن مورکھ! تو مجھے ان سے الگ جان پڑتا ہے اس کارن میں نے تجھ سے یہ بات کہی۔ پرنتو اس سے من میں یہ وچار نہ لانا کہ پرتاب تیری شکتی سے ڈر گیا ہے‘‘ وہ دوبارہ نیم دراز ہوتے ہوئے بولا۔
اس خبیث کو صائمہ کے ساتھ دیکھ کر میرے خون میں ابال گیا۔ میں مسہری کی پائنتنی کی طرف میرے ساتھ محمد شریف جبکہ مسہری کی دوسری جانب عبدالودود کھڑا تھا۔ ہم جس دروازے سے اندر داخل ہوئے تھے وہ میرے بائیں جانب تھا۔
’’پریم! میں آگئی ہوں چنتا مت کرنا‘‘ اچانک دروازے سے رادھا اندر داخل ہوئی۔ سب نے چونک کر دیکھا۔ رادھا کی نظر عبدالودود پر پڑی۔ اس نے چونک کر اسے دیکھا اور جلدی سے ساڑھی کا آنچل اپنے سرپر ڈال لیا۔ جیسا کہ ہماری خواتین کسی بزرگ کو دیکھ کر کرتی ہیںَ ۔آج اس نے لباس بھی اس قسم کا پہن رکھا تھا جس نے اس کے سارے جسم کو ڈھک دیا تھا جبکہ اس سے پہلے اس کی ساڑھی مہین اور بلاوز اتنا مختصر ہوا کرتا جو اس کے جسم کو ڈھکنے سے قاصرہوتا۔ ململ کی سارڑھی میں وہ بہت مقدس دکھائی دے رہی تھی۔ چہرہ سنگھار سے عاری اور گھنی زلفیں چٹیا کی صورت میں بندھی نظر آرہی تھی۔پھولوں کا زیور بھی غائب تھا جو اس کی شخصیت کا لازمی جز ہوا کرتا حتیٰ کہ اس کے ماتھے پر وہ تلک بھی نہ تھا جو ہمیشہ اسکی صبیح پیشانی پر چپکا ہوتا۔ وہ بڑے غور سے عبدالودود کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے دیکھا عبدالودود کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ وہ بھی دلچسپی سے رادھا کی جانب دیکھ رہا تھا لیکن اس کی شفاف آنکھوں میں کسی قسم کی آلودگی نہیں فقط دلچسپی تھی۔(جاری ہے)
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر92 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں