دو قومی نظریہ اور نظریہ¿ پاکستان

دو قومی نظریہ اور نظریہ¿ پاکستان
دو قومی نظریہ اور نظریہ¿ پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                            کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دو قومی نظریہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کا محض ایک شاخسانہ تھا۔ نظریہ¿ پاکستان نام کی کوئی چیز نہیں ہے، کیونکہ تحریک پاکستان کی ابتدا میں اس کا کہیں تذکرہ نہیں ہے اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محض ایک نعرہ ہے، اس کا بھی تحریک پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ، جن لوگوں کو لا الہ الا اللہ سے وحشت ہوتی ہے، اُن کے لئے تو حضرت علامہ اقبال ؒ کا یہی فرمان کافی ہے:
قبائے لا الہ رنگیں قبا است
کہ بر بالائے نامرداں دراز است
البتہ نئی نسل کو اس سے ضرور الجھن پیدا ہوتی ہے کہ اگر یہ سچ ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران نظریہ¿ پاکستان کا کہیں ذکر نہیں آیا، تو پھر آج ”نظریہ¿ پاکستان“ کیونکر نمودار ہو گیا ہے؟.... ہماری نئی نسل ہم سے بہت آگے ہے، یہ حساس ہے اور بہت سمجھ دار ہے، اس لئے مَیں نے اس تحریر میں نئی نسل کا مخمصہ دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ”نظریہ¿ پاکستان“ کی بنیاد دو قومی نظریہ ہے.... چونکنے کی ضرورت نہیں، یہ عین اسی طرح ہے، جس طرح آج کوئی یہ کہے کہ جمہوریت کی بنیاد بالغ رائے دہی ہے۔ طویل تاریخی پس منظر میں جائے بغیر اتنا کہنا کافی ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ہمیشہ سے یہ ادراک تھا کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرنے کی وجہ سے ایک الگ قوم ہیں۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ہزاروں سال کی پختون، پنجابی، کشمیری، گجراتی، ہندوستانی قومیت کو چودہ سو سال کے اسلام پر اسی طرح کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے، جیسے صدیوں کی جہالت کو ایک لمحے کے علم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔
 سر سید احمد خان کو اس کا ادراک اردو ہندی کے حوالے سے حاصل ہوا تو علامہ اقبال نے ہندوستان کے آئینی مسائل کا حل دو قومی نظریئے پر استوار کیا۔ ان دونوں مسلم رہنماﺅں نے دو قومی نظریہ تخلیق نہیں کیا۔ یہ نظریہ تخلیق آدم سے موجود رہا ہے۔ سر سید احمد خان کو احساس ہو گیا کہ اردو ہندی تو محض ایک بہانہ ہے، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرنے والے اور انکار کرنے والے ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ علامہ اقبال ؒ نے خطبہ ¿ الٰہ آباد میں اس کا حل پیش کر دیا کہ انہیں الگ الگ کر دیا جائے۔ بعد میں مسلم لیگ اور قائداعظم محمد علی جناح ؒ پر ذاتی تجربے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہندو بہترین رعایا چاپلوس غلام اور بدترین حاکم ہیں، اس لئے ان سے کسی خیر کی توقع رکھنا فضول ہے، اس لئے ”دو قومی نظریئے“ کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
دو قومی نظریہ تخلیق آدم علیہ السلام سے کیسے شروع ہوا؟.... ابلیس نے اللہ کے حکم سے سرتابی کی اور اللہ نے اسے مردود قرار دے کر بھگا دیا۔ گویا ابلیس کو اللہ کے فرماں برداروں سے الگ شناخت دے دی گئی۔ ابلیس کی یہ شناخت اور بے دخلی اس کے رنگ، اس کی نسل، زبان وغیرہ کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے نظریاتی اختلاف پر اسی وقت اسے سزا نہیں دی، لیکن اس کی شناخت دوسروں سے الگ کر دی، اس طرح نظریئے کی بنیاد پر دو نظریات یا دو قومی نظریہ وجود میں آیا، پھر تمام پیغمبروں نے اس تقسیم کو برقرار رکھا، اسے مزید واضح کیا اور اس کی بنیاد پر فیصلے کئے۔ آج کے بعض بزرجمہر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرعون کو دعوت الی اللہ کو فرعون کے مطلق العنان اقتدار کو چیلنج کرنے کے متراف قرار دیتے اور اسے کسی سوشلسٹ یا کمیونسٹ انقلاب سے مماثل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ تمام آسمانی کتب اور اللہ عزو جل کی آخری کتاب قرآن کریم ہمیں خبر دیتی ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے اقتدار کو ہر گز چیلنج نہیں کیا، نہ فرعون سے تخت و تاج سے دست برداری کا مطالبہ کیا، نہ بنی اسرائیل کے لئے مراعات طلب کیں، نہ غلاموں کے معاوضے بڑھانے کا کوئی مطالبہ فرعون کے سامنے رکھا، نہ فرعون کے ہاتھوں کئی سال تک بنی اسرائیل کے معصوم بچوں کے قتل کا حساب مانگا۔
موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو صرف اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے کی دعوت دی۔ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو ماننے والے آل موسیٰ کہلائے، فرعون کی خدائی کو ماننے اور اللہ تعالیٰ کی خدائی کا انکار کرنے والے آل فرعون کہلائے۔ گویا سب لوگ دو قوموں میںشامل ہو گئے۔ قبطی اگر فرعون کے طرفدار تھے تو وہ آل فرعون میں سے ہو گئے، اگر وہ مرسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے تو آل موسیٰ میں شامل ہوگئے۔گویا تقسیم قبطی، بنی اسرائیلی، مصری، افریقی کی بنیاد پر نہیں تھی، اقرار اور انکار کی بنیاد پر تھی اور اقرار انکار کا یہی نظریہ دو قومی نظریہ ہے.... عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی یہی ہوا، انہیں ماننے والے بھی رومی تھے، انکار کرنے والے بھی رومی تھے، لیکن تقسیم رومی یہودی کی بنیاد پر ہوئی۔ عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کی بنیاد پر ہوئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام یہودی اور نصرانی نہیں تھے، وہ اسلام کے پیرو اور مسلمان تھے۔ مقصد یہ ہے کہ آج جو کچھ اسلام اور پیغمبر اسلام بتا رہے ہیں، وہ یہی بتاتے ہیں اور اس پر عمل پیرا تھے وگرنہ اس زمانے میں نہ تو اسلام کا کہیں کوئی نام تھا ،نہ مسلمان کا کوئی عنوان تھا۔ اس دور کی زبان ہی ارانی یا سریانی تھی، جبکہ اسلام اور مسلمان عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ آگے چل کر اس کی وضاحت ہو گی کہ کس طرح پرانے دور کے نظریات یا واقعات پر آج کے دور کی اصطلاحات کا اطلاق ہو سکتا ہے۔

خاتم الانبیاﷺ کے عہد مبارک میں دو قومی نظریئے کو علمی اور عملی اعتبار سے پایہ¿ تکمیل تک پہنچا دیا گیا۔ انہوں نے اہل مکہ کو جو پیغام دیا، اس میں اقرار اور انکار کے علاوہ کسی تیسری صورت کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اقرار کرنے والے الگ ہو گئے، انکار کرنے والے الگ قرار پائے۔ نبی کریمﷺ نے اس نظریے کو یوں تقویت پہنچائی کہ انکار کرنے والے عزیزوں کو چھوڑ کر اقرار کرنے والے غیروں کے ساتھ یثرب میں جا بسے۔ یہ دو قومی نظریئے کا ایک بہت بڑا انقلابی واقعہ ہے۔ اگرچہ ہجرت میں اور بھی بہت سی حکمتیں پوشیدہ اور ظاہر ہیں، لیکن یہ دو قومی نظریئے کی ایک بین دلیل ہے۔ اس کے بعد معرکہ ¿ بدر ہے، جس میں حق کا اقرار کرنے والے بطور ایک قوم ایک طرف تو حق کا انکار کرنے والے بطور دوسری قوم کے دوسری طرف صف آرا ہو گئے۔ اِس طرف والوں کی رشتہ داریاں اُس طرف والوں سے تھیں، لیکن انہیں کوئی اہمیت نہیںدی گئی، کیونکہ یہ جنگ خون کے رشتوں کے باعث نہیں تھی۔ یہ عرب دستور کے مطابق قبائل کی جنگ بھی نہیں تھی، ایک جیسی زبان، ایک جیسے لباس، ایک ہی کلچر والے دو الگ الگ قومیں بن کر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے۔ ان کے مابین کسی خطہ ¿ زمین پر قبضے کا بھی کوئی قضیہ نہیں تھا۔ یہ بس دو قومیں تھیں، حق کو ماننے والی اور حق کا انکار کرنے والی.... اس جنگ نے اس فرق کو اس قدر واضح کر دیا کہ بعد میں معرکہ ¿ بدر کو یوم فرقان کا نام دیا گیا۔کیا یہ کوئی حسن ِ اتفاق تھا یا اللہ تعا لیٰ کی غالب مشیت کی کوئی حکمت کہ جس مبارک ماہ میں یوم الفرقان کا واقعہ ہوا اور دو واضح قوموں کی تقسیم سامنے آئی، اُسی مہینے میں دو قومی نظریئے کی بنیاد پر ایک ملک پاکستان وجود میں آیا۔
اب آیئے مسئلے کے دوسرے حصے کی طرف کہ آیا کسی تاریخی واقعے کو بعد میں کوئی نام دیا جا سکتاہے یا نہیں.... یہ معمول کی بات ہے یا کوئی غلط روایت؟ ابھی ابھی یوم الفرقان کا ذکر گزرا ہے۔ جب یہ جنگ ہونے جا رہی تھی، تو کسی نے نہیں کہا کہ یہ جنگ الفرقان ہے، بعد میں اس کے نتائج کے حوالے سے اسے یوم الفرقان اور الفرقان قرار یا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے دور سے لے کر نبی آخر الزمانﷺ تک اسے مختلف حوالوں سے پکارا ہے، کبھی حق و باطل کہا ہے، کبھی کفر اور اسلام کا نام دیا ہے، کبھی ہدایت اور گمراہی سے اس کی پہچان کرائی ہے تو کبھی اسے نور و ظلمت سے واضح کیا ہے، کہیں اسے الگ الگ دین قرار دے کر وضاحت فرما دی.... ”لکم دینکم ولی دین“....تمہارے لئے تمہارا دین، ہمارے لئے ہمارا دین۔ ہندوستان میں ازل سے واضح یہی دو قومیں ہندو اور مسلمان کی صورت میں سامنے آئیں اور اس کے لئے لفظ دو قومی نظریہ جب بھی کبھی تراشا گیا، اس سے مراد یہی روز ازل کی تقسیم ہی تھی۔
1857ءکی جنگ آزادی میں اپنے آغاز سے اختتام تک کبھی لفظ جنگ ِ آزادی استعمال نہیں ہوا۔ سور کی چربی اور گائے کی چربی لگے ہوئے کارتوسوں کے خلاف جو ردعمل ہوا، وہ بخت خان، جھانسی کی رانی اور بہادر شاہ ظفر تک پہنچتے پہنچتے انگریز سے آزادی کی خواہش میں ڈھل گیا ، لیکن پھر بھی کسی نے اسے جنگ ِ آزادی کا نام نہیں دیا۔ انگریز نے اسے بغاوت اور غداری قرار دیا اور ہمارے بزرگ بھی اسے اسی نام سے پکارتے رہے.... (غدر کے افسانے اور اسباب بغاوت ہند ِ معروف تصانیف ہیں) ....بہت بعد میں محسوس کیا گیا کہ یہ جنگ ِ آزادی تھی، نہ غدر تھا، نہ بغاوت تھی اور اب یہ تاریخ کے صفحات میں جنگ ِ آزادی یا1857ءکی جنگ ِ آزادی کہلاتی ہے۔ تحریک پاکستان میں نظریہ¿ پاکستان اور پاکستان کا مطلب تلاش کرنے والے کیا1857ءکی جنگ ِ آزادی کو آج بھی غدر اور بغاوت ہی سمجھتے ہیں، کیونکہ یہ نام تو اسے بہت بعد میں دیا گیا ہے ۔
انقلاب فرانس کو کس نے انقلاب فرانس کے نام سے شروع کیا تھا؟ عرب بہار کو کب کسی نے روز اول سے یہی نام دیا تھا۔ جدوجہد کرنے والے اور مرنے والے کوئی اور تھے، عرب بہارArab Spring کا نام دینے والے کوئی اور تھے۔ امریکہ نے7جولائی1776ءکو آزادی کا اعلان کیا، لیکن برطانوی فوجوں سے اس کی جنگ1775ءسے1783ءتک جاری رہی۔ آج اس جنگ ِ آزادی کو امریکی انقلاب کہا جاتا ہے، حالانکہ اس وقت آزادی کی جنگ لڑنے والے محب وطن، باغی اور Whigs کہلاتے تھے۔ پہلی بار ٹامس پین نے 1778ءمیں بنجامن فرینکلن کے نام اپنے خط میں امریکن ریولیوشن کے الفاظ استعمال کئے، حالانکہ ژیل یونیورسٹی(کنکٹی کٹ) کے ایک محقق کے مطابق 1792ءتک انگلش ڈکشنری میں ریولیوشن کے وہ معنی نہیں تھے جو آج لئے جاتے ہیں۔ یہ لفظ بحالی ”ری سٹرکچر“ کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ اس کے معنی سیاسی تبدیلی وغیرہ نہیں تھے، تو پھر امریکی جنگ آزادی کو آج ”امریکن ریولیوشن“ کہنا درست ہے یا غلط؟
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور دو قومی نظریہ مترادف ہیں، اس لئے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کہا گیا ہے، لیکن اس نعرے سے خوفزدہ لوگوں نے ایک اور شوشہ چھوڑ کر لوگوں کے ذہن الجھانے کی کوشش کی۔ کہا گیا کہ کلمہ طیبہ کو آدھا کر دیا گیا، محمد رسول اللہ کے بغیر کلمہ نامکمل ہے، لیکن مسلسل یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ۔ گویا یہ محمد رسول اللہ کو نہیں مانتے۔ یہ بڑا فتنہ پرور الزام ہے۔ اس نعرے میں پورے کلمے کا کوئی مقام نہیں ہے، بلکہ لا الہ الا اللہ سے پورے کلمے کی طرف محض اشارہ ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے تو کبھی کبھی یہ اشارہ محض دو لفظوں لا الہ سے بھی دیا ہے:
زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
عربی میں سبحان اللہ پڑھنے کو تسبیح، الحمد اللہ پڑھنے کو تحمید اور اللہ اکبر کو تکبیر، بسم اللہ الرحمن الرحیم کو تسمیہ اور ہم صرف بسم اللہ بھی کہتے ہیں، ہم سورہ¿ فاتحہ کی بجائے الحمد اللہ کہہ دیتے ہیں، جیسے کسی سے کہتے ہیں، الحمد اللہ سنا دو۔ سورہ¿ اخلاص کی بجائے کہتے ہیں قل ہو اللہ سناﺅ۔ اس کا مطلب مکمل سورة ہوتا ہے، نہ کہ صرف لفظ الحمد اللہ یا لفظ قل ھو اللہ۔ پھر پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ تو ایک نظم کا مصرعہ ہے، جس میں پورا کلمہ وزن میں نہیں آتا تھا، لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ کلمے کے دوسرے حصے کا نعوذ با اللہ انکار کر دیا گیا ہے۔   ٭

مزید :

کالم -