حالات کا دھارا

آپ کسی بچے کو کمرے میں بند کردیں گے تو خوف سے اسکی حالت ہی غیر ہو جائے گی اگر چند ہی منٹوں میں اسے کمرے سے نکالا نہ جائے تو بہت ممکن ہے رورو کر وہ جان دے دے میں غزہ کے ان ہزاروں معصوم بچوں کی بابت سوچتاہوں جو اسرائیلی بموں سے ملبے تلے دب گئے اور انہیں کوئی نکال نہ سکا بالآخر قبر نما گڑھوں میں ان بچوں نے تڑپ تڑپ کر کیسے جان دی ہوگی یہ وہی جانتے ہیں جب بھی کوئی غزہ پر ڈھائے جانے والے یہودی مظالم کا ویڈیوکلپ ہم تک پہنچتا ہے تو آنکھیں گھائل ہوجاتی ہیں دل میں ایک ساتھ کئی تیر سے پیوست ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔ایک بم کسی جگہ گرتا ہے تو اسکی دھمک دور تک جاتی ہے زلزلہ سا محسوس ہوتا ہے بعض اوقات اسکی دھمک سے کوئی جان سے جا سکتا ہے اور جہاں ایک سال کچھ ماہ سے مسلسل ایک ایک روز میں کئی بم گرائے جارہے ہوں تو وہاں کا عالم کیا ہوگا؟ جو مناظر فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے چشم فلک نے دیکھے ہیں آسمان کا سینہ بھی اس دکھ کی آگ سے دہکتا ہوگا۔ جنت مکیں ان بچوں پر جو گذری کیا مسلم حکمرانوں سے پوچھا نہ جائے گا؟ ان بچوں کے والدین جس کرب میں مبتلا ہوئے اسکا ہی کچھ حساب نہیں ہمارے پنجاب کی مائیں اپنے بچے کی کسی معمولی تکلیف پر (ماں مر جائے)کہہ اٹھتی ہیں کہ ماؤں سے اپنے بچوں کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی وہ اس معمولی سی تکلیف کے دیکھے جانے سے خود کے مرجانے کو ترجیح دیتی ہیں اور جن ماؤں کے چھلنی جگر گوشوں نے انکی گود میں دم توڑا ہو انکا عالم کیا ہوگا یہ کوئی اور نہیں جان سکتا اسرائیل نے غزہ کو تباہ کرکے ایک کھنڈر بنا دیا ہے لبنان کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے لبنان میں حسن نصر اللہ کی شہادت اور پیجر دھماکوں کی ہلاکت انگیزیوں تک کیا کیادہشت نہیں پھیلائی گئی اور دنیا کے ٹھیکیدار پھر بھی خاموش رہے بلکہ یہ ٹھیکیدار اسرائیل کے معاون و مددگار ہوئے اب شام کی پہاڑیوں اور کئی علاقوں پر اسرائیلی قبضے سے یوں سمجھئے اسرائیل نے مسلمانوں کی گردن دبوچ لی ہے شام کہ جہاں سے ایران۔اسرائیل کے خلاف مزاحمتی تنظیموں کو اسلحہ یا دوسری امداد ملتی تھی اسرائیل کے آجانے سے اب یہ ممکن نہیں رہا دوسری جانب جہاں مسلمانوں کو اسرائیل سے خطرہ ہے وہاں اس سے بھی زیادہ مسلمانوں کی آپس کی تقسیم خطرناک ثابت ہو رہی ہے عرب کے حکمران اسرائیل کی زبانی کلامی مذمت تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ حماس اور حزب اللہ کی فتح سے بھی خوفزدہ ہیں عرب کے حکمران سمجھتے ہیں کہ شاید حماس یا حزب اللہ اسرائیل کو شکست دے کر انہیں بھی مرعوب رکھیں گے مسلمانوں کی یہی کمزوری غیر مسلموں کی سب سے بڑی طاقت ہے ذرا سوچئے کہ دنیا کے جدید ترین اسلحے کے استعمال کے باوجود اسرائیل حماس سے اپنے قیدی بازیاب نہ کروا سکا ایک تنظیم حماس کہ جس نے دنیا کے طاقتور ممالک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اگر عالم اسلام حقیقی معنوں میں حماس کا ساتھ دیتا تو آج حالات کچھ اور ہوتے مسلمانوں کے دلوں میں اپنے اقتدار کو استحکام دینے کی خواہش نے بہت نقصان پہنچایا ہے دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے منظر نامے پر مسلمان ایک کمزور امت کے طور پر سامنے آئے ہیں آج اگرچہ دنیا میں غیر مسلم قوتوں کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت کچھ جذبہ جہاد سے سرشار مسلمانوں کے دلوں میں مچلتی ہوگی لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ دنیا میں کوئی مسلم قوت ایسی نہیں جو امریکہ یا اسرائیل سے ٹکرا جائے حماس نے جن جذبوں سے کام لیتے ہوئے اسرائیل کے دانت کھٹے کیے ہیں اگر حقیقی طور پر ہمارے ہر طرح کے وسائل سے مالا مال مسلم حکمران اس تنظیم کا ساتھ دیتے تو مسلمانوں کی دنیا میں حیثیت ہی کچھ اور ہوتی باطل قوتوں نے مسلمان حکمرانوں کے دلوں میں اپنا خوف اس قدر راسخ کر دیا ہے کہ اب مسلمان حکمران مذمتوں سے آگے نہیں بڑھتے اسرائیل دمشق سے ہوتا ہوا ایران پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے اسرائیل نے شام کے مختلف ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر اسے خستہ کر دیا ہے اسرائیل ایران کے قریب پہنچ چکا ہے یوں سمجھیے کہ ایک چھوٹے سے اسرائیل نے وسیع و عریض سلطنتوں کے مالک با اثر مسلمان حکمرانوں کو جیسے دبوچ لیا ہے اب اسرائیل کے سامنے مسلمانوں کے پاس ہاتھ باندھنے منتیں کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں مسلمانوں کو دنیا میں اپنا وقار بحال کرنے کیلئے اب یاتو صدیوں کا انتظار کرنا ہوگا یا اب بھی کچھ وقت باقی ہے کہ عالم اسلام اسرائیل کے سامنے کھڑا ہو جائے تو حالات کا دھارا بدل سکتا ہے-
اب امام احمد رضا خان بریلوی کی نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ اشعار سے حظ اٹھائیے
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
ان کے ایما سے دونوں باگوں پر
خیلِ لیل و نہار پھرتے ہیں
ہر چراغِ مزار پر قدسی
کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں
جان ہیں، جان کیا نظر آئے
کیوں عدو گردِ غار پھرتے ہیں
لاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پر
لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں
وردیاں بولتے ہیں ہرکارے
پہرہ دیتے سوار پھرتے ہیں
رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم
مَول کے عیب دار پھرتے ہیں
بائیں رستے نہ جا مسافر سْن
مال ہے راہ مار پھرتے ہیں
جاگ سنسان بن ہے، رات آئی
گرگ بہرِ شکار پھرتے ہیں
نفس یہ کوئی چال ہے ظالم
کیسے خاصے بِجار پھرتے ہیں