کیا علی ترین گنے کے کاشتکاروں کی نفرت کا نشانہ بنے؟
ان دنوں لودھراں کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ میڈیا میں موضوع سخن ھے۔کچھ تجزیہ کار اسے نواز شریف کی نا اھلیت کے بعد ان کے موقف مجھے کیوں نکالا کی عوامی پذیرائی سے تعبیر کررھے ھیں تو دوسری جانب چند اھل دانش ن لیگ کی کامیابی کو تحریک انصاف کے اندر دھڑے بندی عمران خان کی جانب سے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے اور ان کی شادی کے حوالے سے منفی خبروں کی وجہ سے ووٹرز میں تحریک انصاف کی ساکھ متاثر ہونے سے تعبیر کررھے ھیں۔
کچھ تبصرہ نگار اس امر پر مایوسی کا اظہار کر رھے ھیں کہ علی ترین جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کے مقابلے میں ایک نیم خواندہ ن لیگ کا امیدوار کیسے کامیاب ہوگیا۔اور کچھ کی رائے میں موروثیت کی سیاست علی ترین کی ناکامی کا سبب ھے۔
ان تمام تجزیہ کاروں کی اکثریت میں ایک قدر مشترک ھے اور وہ یہ کہ ان میں سے اکثریت کبھی زندگی میں لودھراں نہیں گئی ٹی وی سکرین پر تبصرے کرنا۔ اور براہ راست مشاھدہ کرکے عوامی رائے جانچنے کا کوئی نعم البدل نہیں۔
اسی لئے میں نے سوچا کہ اپنے میاں چنوں میں مقیم دوست میاں عامر ساھو کے ھمراہ لودھراں جایا جائے۔ میاں عامر خود بھی پیشے کے لحاظ سے زمیندار ھیں، گنے کے کاشتکار ھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یوں تو ہر سال گنے کا کرشنگ سیزن بحران کو جنم دیتا ھے لیکن اس سال کا کرشنگ سیزن گنے کے کاشتکاروں کے لئے بد ترین تھا۔ گنے کے کاشتکاروں کے معاشی استحصال پر احتجاج کے نتیجے میں حکومت نے گنے کی قیمت ایک سو اسی روپے من مقرر کی۔
لیکن شوگر ملز مالکان اور ضعلی انتظامیہ کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے کوئی بھی مل مالک ایک سو تیس روپے من سے زائد قیمت ادا کرنے پر تیار نہ تھا۔
یاد رھے کہ شوگر ملز مالکان کی جانب سے گنے کی خریداری کے لئے شوگر پرمٹ جاری کیا جاتا ھے۔گنے کا وزن کیا جاتا ھے اور پھر اس حساب سے ادائیگی کا وعدہ جو کہ کم ھی وفا ھوتا ھے۔
جہانگیر ترین کی بحثیت کاشتکار شہرت مثبت ھے۔ انہوں نے لودھراں میں بہت سے رفاعی منصوبے شروع کئے۔ان کا شمار بھی شوگر ملز مالکان میں سے ھوتا ھے لیکن وہ ان معدودے چند مالکان میں سے ھیں جو مقرر کردہ سرکاری ریٹ پر گنا خریدتے ھیں لہزا کاشتکار ان سے خوش دکھائی دیتے ھیں۔
تقریباً دو سال قبل جہانگیر ترین نے لودھراں میاں چنوں کے بارڈر پر چوہدری پرویز الٰہی کی قائم کردہ شوگر مل جو کہ انہوں نے فیصل مختار کو بیچ دی تھی خریدی۔ یہ مل ایک چھوٹی شوگر مل ھے جس کی گنے کی کرشنگ صلاحیت چار ھزار ٹن ھے جبکہ بڑی شوگر مل کی کرشنگ صلاحیت چالیس ھزار ٹن ہوتی ھے۔
جہانگیر ترین نے شوگر مل خریدنے کے بعد نہ صرف کاشتکاروں کے پچھلے واجبات ادا کئے بلکہ موجودہ کرشنگ سیزن میں سرکاری ریٹ کے مطابق ایک سو اسی روپے من ادائیگی دینا شروع کردی۔ میاں چنوں کے علاو?ہ لودھراں اور دیگر اضلاع سے کسان اپنا گنا لاد کر مل پہنچنا شروع ہو گئے۔
لودھراں کے ناراض گنے کے کاشتکاروں نے ضمنی انتخاب میں ووٹ کے ذریعے اپنا احتجاج کیا۔
جبکہ جہانگیر ترین کی مل اپنی محدود استعداد کے باعث گنا خریدنے کے شوگر پرمٹ جاری کرنے سے قاصر تھی۔ ایک عام متوسط درجے کی شوگر مل چالیس ھزار ٹن گنے کی کرشنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لودھراں کے کسان مایوس ہو کر واپس لوٹنا شروع ہوگئے۔
وہ گلہ مند ھیں کہ جہانگیر ترین نے ان کا گنا نہیں خریدا اور یوں ان کا معاشی استحصال کیا گیا۔ لودھراں کے ناراض گنے کے کاشتکاروں نے ضمنی انتخاب میں ووٹ کے ذریعے اپنا احتجاج کیا۔
یوں تو انتخابی سیاست میں کسی ایک امیدوار کی فتح اور شکست میں بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں یقیناً علی ترین کی شکست میں بھی تحریک انصاف کی علاقائی دھڑہ بندیوں مسلم لیگی دھڑوں کا متحد ہو جانے کا بھی کردار ہوگا۔لیکن جہاں اس ضمننی انتخاب کا تجزیہ کیا جا رھا ھے وھاں گنے کے کاشتکاروں کے انتخابی ترجیحات کو یکسر نظر انداز کیا جارھا ھے۔
لودھراں کے ضمنی انتخاب کے کئی اسباق ہیں۔جن میں سے ایک یہ ھے کہ ا?نے والے قومی انتخابات میں جن حلقوں میں شوگر ملیں واقع ھیں اور شوگر مل مالکان مقامی سیاست میں بطور امیدوار حصہ لیتے ہیں وھاں کسان اپنے معاشی استحصال کے خلاف ردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔ اور با اثر شوگر ملز مالکان ہر سیاسی جماعت کی صف اول کی قیادت میں شمار کئے جاتے ہیں۔
اآکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر عدیل ملک کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے پچاس کے قریب سیاسی خاندان شوگر انڈسٹری کی نمائندگی کرتے ہیں۔
دوسرا سبق حکمران ن لیگ کے لئے ھے کہ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کے آخری ایام میں شاہ محمود قریشی کی نشست پیپلز پارٹی نے جیت لی لیکن چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں وزیراعظم گیلانی اپنی خاندانی نشست پر کامیاب نہ ہوسکے اور تیسرا سبق پیپلز پارٹی کے لئے ہے کہ جس کی قیادت اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ محض بڑے جلسے کر لینے اور الیکٹبلز کو پارٹی میں شامل کرکے پنجاب میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔
اور اس کی قیادت اس خوش فہمی کا شکار دکھائی دیتی ھے کہ جنوبی پنجاب کے ووٹر پیپلز پارٹی کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں اور آنے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب سے بہتر رزلٹ دکھائے گی۔ لودھراں کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہو جانا اس دعوی کی نفی کرتا دکھائی دے رھا ھے۔