والد کی عظمت!
”والد“ عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ چار لفظوںسے مرکب ہے۔”و“ سے ولایت ووَفا والا۔ ”الف “ سے اعلیٰ مقام اور ایثاروا±لفت والا۔”ل“ سے لطف وکرم والا۔ اور ”د“ سے دانائی اور دست گیری کرنے والا....اور جب ایسی صفات وخصائل کی حامل شخصیت ہمارے سامنے آتی ہے تو اسے والد (باپ)کا نام دیاجاتاہے۔اسی طرح ”باپ“ اردو زبان کا لفظ ہے اور یہ تین لفظوں کا مجموعہ ہے، یعنی ”ب“سے برکت وبزرگی والا … ”الف“ سے اساس واصل اورآبیاری والا…اور ”پ“ سے پیار و محبت و الفت کے مجموعے کا نا م ”باپ“ہے۔اگر باپ کی عظمت کا پاس کرتے ہوئے اس کی اطاعت ،فرمان برداری ،خدمت اورتعظیم کرکے اس کی رضاحاصل کی جائے تو اللہ پاک کی طرف سے ہمیں دین ودنیا کی کامیابیاں ، سعادتیں اورجنت ایسی نعمتیں مل سکتی ہیں کہ جس کا انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ماں باپ جیسی نعمت کوئی نہیں ہے۔
والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں، اگر کسی کویہ نعمت حاصل ہے اوروہ ا±ن کی خدمت واطاعت کررہاہے تو وہ بڑا سعادت مند اوراللہ کا محبوب بندہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ماں کا مقام ومرتبہ تو ہرلحاظ سے اجاگر کیا جاتا ہے، لیکن باپ کا مقام کسی حدتک نظرانداز کردیا جاتا ہے، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ قرآنِ پاک کے احکامات اور فرامینِ رسول میں والدین کی خدمت واطاعت کا حکم دیاگیا ہے اور ظاہر ہے کہ والدین میں باپ درجہ اوّل کا حامل ہے۔والد انسان کو عدم سے وجود میں لانے والی ذات ہے ،یعنی اس کی پیدائش کا سبب ہے۔ اس گلشن ِانسانیت کی ابتدا باپ (حضرت آدم علیہ السلام) سے ہوئی اور ان ہی سے عورت (حضرت حوا ؑ) کا وجود تیار کیا گیا۔
فاردرز ڈے ....پاکستان میں ہر سال ماہ جون کی تیسری اتوار کو منایا جاتا ہے۔ مختلف ممالک میں اس دن کے منائے جانے کی تاریخیں مختلف ہیں جو اپریل سے لے کر جولائی کے مہینے تک آتی ہیں۔ اس دن کو منائے جانے کا آغاز بھی بیسویں صدی کے اوائل میں امریکہ سے ہوتا ہے۔ شروع شروع میں اس دن کی طرف توجہ نہیں دی گئی، لیکن ماﺅں کے عالمی دن کی تقریبات چونکہ زور پکڑ رہی تھیں اس لئے کاروباری اذہان نے اس دن کو بھی کثیر مالی منفعت کا ایک ذریعہ جانتے ہوئے اس کی خوب تشہیر کی اور اس دن کا تعلق سینٹ جوزف سے جوڑ دیا۔ تب سے اب تک یہ دن ان تہواری ایام کی اس لڑی کا حصہ بن گیا جس میں ماﺅں کا عالمی دن، والدین کا دن، بچوں کا دن اور دادا دادی، نانا نانی کا دن پروئے ہوئے ہیں۔ اس دن بچے اپنے والد کو تہنیتی کارڈ، کیک اور تحفے تحائف بالخصوص نئے کپڑے تحفہ میں دیتے ہیں اور باپ کی پدرانہ ذمہ داریوں اور اوصاف کو سراہتے ہیں۔ باپ کی اہمیت اور قدرومنزلت کے باوصف اس دن کے بارے میں ایک مختلف پہلو کی بات کرتے ہیں....
اس دن کا منایا جانا امریکہ سے شروع ہوتا ہے اور وہ بھی بیسویں صدی کے آغاز میں جب سرمایہ داری نظام اپنے عروج پر تھا۔ روس کے ساتھ سردجنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی سونا چاندی اور ڈالر دیوتاﺅں کے مترادف تھے۔ پیسہ بنانے کے نت نئے طریقے اور حربے ظہور میں آ رہے تھے۔ یورپ کے شاطر یہودیوں نے امریکہ میں روزمرہ کے کاروبار کو اپنی گرفت میں پوری طرح دبوچ رکھا تھا۔ صحافت طاقت پکڑ رہی تھی اور اشتہاری ادارے مٹی کو سونا ثابت کرنے میں کامیاب ہو رہے تھے۔ اس طرح کے دور اور اس قسم کے ماحول میں ہر وہ دن یادگار بن جاتا تھا جسے بنانے والے بنانا چاہتے تھے....کمرشل ازم کی جیت یہی تھی!
ٹوٹتے بکھرتے سماجی رویوں اور معاشرتی اقدار کو تلپٹ کر دینے والے ممالک میں ماﺅں کے عالمی دن نے اپنے کثیر الجہات فوائد عیاں کئے تو باپوں کے عالمی دن کو مقبول بنانے کے لئے تشہیری اور کاروباری اداروں نے میدان سجا لئے جس میں ”بھیڑوں کی قوم“ (Nation of Sheep) حسب ِ توقع اچھل کود کرنے لگی، جبکہ ان کی دیکھا دیکھی دنیا کے باقی نقل بازوں نے بھی ان سے زیادہ اونچی چھلانگیں لگانا شروع کر دیں۔
پاکستان سمیت ایشیائی ممالک میں یہ دن اگرچہ مغرب جیسی شدت اور جوش و خروش سے نہیں منایا جاتا ؛تاہم رفتہ رفتہ اب یہ دن مقبول عام ہو رہا ہے۔بچے اس دن والدوں کے لئے محبت بھرے پیغامات والے کارڈ خریدتے ہیں، کیک کاٹتے ہیں اور ان کو تحفے تحائف پیش کرتے ہیں۔ اس روز والد کی رعب داب سے بے نیاز وہ اپنی محبت اور اُنس کا کھلے دِل سے اظہار کرتے ہیں اور یوں وہ درحقیقت اس بندھن کو مضبوط کرتے ہیں جس میں دونوں فریق ازل سے بندھے ہوئے ہیں۔
تعلیمات، مشرق کی ہوں یا مغرب کی، باپ کا رتبہ اور مقام ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مغرب میں رفتہ رفتہ شکست و ریخت سے دوچار سماج کی وجہ سے اس میں اگرچہ کمی واقع ہو رہی ہے؛ تاہم ایشیا میں باپ ابھی تک اسی مرتبے پر فائز ہے جس پر وہ صدیوں سے فائز چلا آ رہا ہے۔ مغرب و مشرق دونوں والد کی حیثیت و اہمیت سے آگاہ ہیں۔ اس حقیقت سے دونوں دُنیاﺅں میں بسنے والے باخبر ہیں کہ باپ نے بیٹے کو قربان ہونے کے لئے کہا اور بیٹے نے بنا کسی حیل و حجت کے اپنا سر باپ کے ہاتھ میں پکڑی چھری کے نیچے رکھ دیا۔
باپ خاندان کا سربراہ ہوتا ہے۔ گھر کے چولہے کی حدت کو برقرار رکھنا اور بچوں کے سامنے، ان کے بچپن سے لے کر بلوغت تک قابلِ تقلید امثال قائم کرنا اس کا فریضہ ہے۔ وہ اپنے مشاہدات اور تجربات سے اپنے گھر اور اپنے اردگرد کے ماحول کو جس کا وہ خود بھی حصہ ہوتا ہے، بہتر سے بہتر بناتا ہے۔ وہ اس کڑی کو مضبوطی سے پورے سماج کی اس فولادی زنجیر سے پیوست رکھتا ہے جو اس کی ذات کی کٹھالی میں ڈھلتی ہے۔
باپ کی شخصیت کی پہچان اور اس کا احترام صرف ایک دن کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ جب تک وہ زندہ ہے، اس کی تعظیم و توقیر اس کے بچوں پر واجب ہے۔ باپ بوڑھا ہو جائے، سٹھیا جائے یا مفلوج ہوجائے تو وہ پھر بھی باپ ہے۔ وہ جب تک موجود رہتا ہے، اس کے وجود کی اہمیت کا مکمل ادراک نہیں ہوتا، لیکن اس کے جانے کے بعد جو خلاءپیدا ہوتا ہے وہ عمر بھر کی تڑپ کو جنم دیتا ہے اور کبھی پورا نہیں ہوتا.... بیٹے کو باپ کی قدرو منزلت کا تب اندازہ ہوتا ہے جب وہ خود باپ بنتا ہے۔
ہمارے دین میں ماں باپ کی عزت و توقیر کے حوالے سے بطور ِخاص تاکید ہے اور تاکید بھی ایسی کہ ان کی کسی بات پر انہیں ”اُف“تک نہ کہنے کا حکم ہے!
اولادکی تعلیم وتربیت میں والد کا کردار ضروری ہوتا ہے، جبکہ اس کے برعکس ماں کی حد سے زیادہ نرمی اور لاڈ پیارسے اولاد نڈراور بے باک ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی تعلیم ،تربیت اورکردار پر ب±را اثر پڑتا ہے،جبکہ والد کی سختی،نگہداشت اورآنکھوں کی تیزی سے اولاد کو من مانیاں کرنے کا موقع نہیں ملتا۔شایدیہی وجہ ہے کہ اولاد باپ سے زیادہ ماں سے قریب ہوتی ہے، لیکن اولادیہ نہیں جانتی کہ اس کے والد کو گھر چلانے اور تعلیم وتربیت کا مناسب اہتمام کرنے کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔باپ ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل وعیال اور اولادکو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کریا روکھی سوکھی کھاکرگزارہ کرتا ہے، لیکن پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کو اچھاکھانا، پینا،تعلیم اور تربیت میسرہو۔ اسلام میں والدین کابہت بڑا مقام اور مرتبہ ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”اورجب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہدلیاکہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔رشتہ داروں ، یتیموں، مسکینوں اور لوگوں سے (ہمیشہ)اچھی بات کہو “....
(سورة البقرہ)
اسی طرح سورہ بنی اسرائیل میںاللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے.... پروردگار کافرمان ہے کہ اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کیاکرو،اگر تمہارے سامنے اِن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”ا±ف“تک نہ کہواور نہ انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو اور اپنے بازو نہایت عاجزی اورنیازمندی سے ان کے سامنے جھکادو اور( ان کے لئے یوں دعائے رحمت کرو).... اے میرے پروردگار!تواِن پر(اس طرح) رحم فرما، جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں(رحمت وشفقت سے) پالا تھا“....(سورہ بنی اسرائیل)
اللہ تعالیٰ نے ان آیاتِ مبارکہ میںاپنی عبادت کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ نیکی اور حسن ِسلوک کا حکم فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت واطاعت انتہائی ضروری ہے، حتیٰ کہ والدین اولاد پر ظلم وزیادتی بھی کریں تب بھی اولاد کو انہیں جواب دینے کی اجازت نہیں،جھڑکناتو درکنار ،ا±ن کے سامنے ’ا±ف‘ تک کہنے کی بھی اجازت نہیں۔سورة لقمان میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ” میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو،(تم سب کو )میری ہی طرف لوٹنا ہے اور اگر وہ ت±جھ پر دباﺅ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک ٹھہرا جس کا ت±جھے کچھ علم نہیں تو(اس مطالبہ¿ معصیت میں )ان کی اطاعت ہر گز نہ کرو، (لیکن اس کے باوجود ) د±نیا میں ان سے حسنِ سلوک کرتے رہو “....(سورة لقمان)
اولاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول کی نافرمانی کے سوا والدین کے ہر حکم کی تعمیل کریں۔ ا±ن کی رائے کو ترجیح دیں۔ خاص طور پر جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو پھر ان کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے ان سے محبت و احترام سے پیش آئیں ، اپنی مصروفیات میں سے مناسب و قت ا±ن کے لیے خاص کردیں۔ا±ن کی بھر پور خدمت کریں اور ان کی وفات کے بعدان کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت ورحمت کرتے رہیں ، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشادِباری تعالیٰ ہے: ”اور(ان کے حق میں یوں دعائے رحمت کرو ) اے ہمارے رب!ان دونوں پر رحم فرما، جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں(رحمت وشفقت سے) پالا“....(سورة بنی اسرائیل)
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لیے، اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کے لیے مغفرت وبخشش کی دعامانگتے ہیں،جس کاقرآنِ پاک نے اس طرح ذکرکیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو (بخش دے)اور سب مسلمانوں کو(بخش دے)، جس دن حساب قائم ہوگا“....(سورئہ ابراہیم)
ماں باپ کے انتقال کے بعدبھی ان کے ساتھ حسن ِسلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جس کی کئی صورتوں میں سے ایک دعائے مغفرت کرنابھی شامل ہے۔ جس سے ان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میںبلند فرما دیتا ہے تو وہ بندہ عرض کرتا ہے کہ” اے میرے رب! یہ درجہ مجھے کہاں سے ملا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے کہ ،”تیری اولاد کی دعائے مغفرت کی بدولت (ت±جھے یہ بلند درجہ دیا گیا ہے)۔“(مسائل اربعین)
ایک اورحدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ماں باپ کے لیے دعائے مغفرت کرناان کے لیے صدقہ¿ جاریہ ہے۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں ”رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے تمام اعمال کاسلسلہ ختم ہو جاتا ہے،لیکن تین چیزوں کا نفع اس کو(مرنے کے بعدبھی) پہنچتا رہتا ہے۔(1) صدقہ ¿جاریہ (2)ایسا علم جس سے لوگ نفع حاصل کرتے ہوں(3)نیک اولاد جو اس کے لیے دعائے مغفرت ورحمت کرتی ہو۔حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”جو نیک اولاد اپنے ماں باپ کے چہرے کی طرف رحمت (اورمحبت) سے ایک نظر دیکھ لے تو اللہ تعالیٰ (اس کے نامہ¿ اعمال میں ) ایک حج مقبول کا ثواب لکھ دیتا ہے۔صحابہ کرام نے عرض کیا ،اگر وہ ہر روز سو بار دیکھے تو؟ آپ نے فرمایا ، اللہ سب سے بڑا ہے اور(اس کی ذات ) بہت پاک ہے ،(یعنی اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں،وہ سوحج کاثواب بھی عطافرمائے گا۔“....(مشکوٰة ،البیہقی فی الشعب)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ :” جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز کرے اور اس کے رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن ِسلوک کرے اور (اپنے رشتہ داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کرے“ ....
(الحدیث)
ایک اور اہم بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اپنے بیوی بچوں کی طرح اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت و کفالت اور ان کی ضروریاتِ زندگی (کھاناپینا،لباس، علاج )کو پورا کرنا بھی اولادپر فرض ہے ،اس کے ساتھ ا±ن کی ضروریات کے مطابق مخصوص رقم ہرمہینے ا±ن کوپیش کی جائے تا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کر سکیں۔ حضور سید ِعالم نے والدین کی خدمت و اطاعت کو جہاد ایسی عظیم عبادت وسعادت پر بھی ترجیح دی ہے۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسولِ اکرم کے پاس جہاد میں شریک ہونے کی غرض سے حاضر ہواتو نبی کریم نے اس سے پوچھا کہ” کیا تمہارے ماں با پ زندہ ہیں؟ “اس نے کہا ،” جی ہاں، زندہ ہیں۔ “آپ نے فرمایا: ”جاﺅ اور اپنے والدین کی خدمت کرو، یہی تمھارا جہاد ہے۔“ (سنن ابن ماجہ،مشکوٰہ المصابیح)۔
اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ،اچھائی اور نیکی کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو۔ والدین کے حقوق ادا کرنادر حقیقت اللہ کی تابعداری ہے۔ پس اس لحاظ سے ان کی خدمت اللہ تعالیٰ کی خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خوش نودی باپ کی خوش نودی میں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں مضمر ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کے ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ :”وہ شخص ذلیل ورسوا ہوا ،وہ شخص ذلیل ورسوا ہوا ،وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا ،عرض کیا،کون یارسول اللہ ؟آپ نے فرمایا: ”جس نے اپنے ماں باپ میں دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور پھر (ا±ن کی خدمت نہ کر کے) دخولِ جنت کا حق دار نہ بن سکا “۔(مسلم، مشکوٰة)
ماں باپ کی خدمت کاثواب جہاد سے بھی بڑھ کر ہے اوراس کااجروثواب حج اور عمرے کے برابر ہے۔ ماں باپ کے قدموں میں رہنا جنت کی طرف پہنچاتا ہے، اس سے عمراوررزق میںاضافہ ہوتا ہے، عبادات اور دعائیں اللہ پاک کی بارگاہ میں ضرورقبول ہوتی ہیں۔ماں باپ کی نافرمانی کرنایا ا±نہیں اَذیت وتکلیف دینا گناہِ کبیرہ اور بہت بڑی محرومی ہے۔ ماںباپ کے نافرمان کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا اور موت سے پہلے ہی ا±سے دنیا میں ذلت و رسوائی اور اپنے کئے کی سزاملتی ہے۔والدین کے حقوق کی ادائیگی کواس طرح ممکن بنایاجاسکتاہے کہ والدین کے ہر نیک حکم کی تعمیل کی جائے، ا±ن کے سامنے اونچی آواز میںبات نہ کی جائے، ا±ن کے آرام وسکون اور خوشیوں کا خیال رکھا جائے، والدین کا تذکرہ ہمیشہ اچھے الفاظ میںکیاجائے، والدین کے رشتہ داروں اور دوستوں کااحترام کیاجائے، والدین کی وفات کے بعد ان کے لیے دعائے مغفرت ورحمت کرتا رہے اور ایصالِ ثواب کا تحفہ بھیجتا رہے تا کہ وصال کے بعدبھی ان کے اعمال میں نیکیوں کا اضافہ ہوتا رہے۔رسول اللہ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ :” بہترین نیکی یہ (بھی ) ہے کہ ماں باپ کے تعلق داروں کے ساتھ اچھا اور نیک سلوک کیا جائے“۔ والدین کی دعائیں اولاد کے حق میں ضرور قبول ہوتی ہیں۔پس یہ ہمارا انسانی، اخلاقی اور دینی فرض ہے کہ ہم اپنے والدین کی دل وجان سے خدمت واطاعت کریں کہ اسی میں ہمارے لیے دین ودنیا کی کامیابی،سعادت اور فلاح ونجات ہے۔
بہرحال والد کے عالمی دن کے موقع پر تو ان بچوں کو بھی اپنے والد کی یاد ضرور آنی چاہئے جو ان سے دور ہیں۔ یہ ایک دن قربت پدر و پسر کا دن قرار دیا جا سکتا ہے۔دلوں کے میلے کچیلے داغوں کو دور کرنے کے لئے یہ دن بہترین ”سرف“ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ دن خون کے رشتوں کی گِرہ کو مضبوط کرنے کا دن بھی ہو سکتا ہے....بس اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔
مغربی دُنیا میں ”فادرز ڈے“ کا سال میں ایک بار منایا جانا اس لحاظ سے بھی بہتر ہے کہ اس روز وہاں اولاد جس طرح اپنے والد سے اپنائیت کا اظہار کرتی ہے وہ ہم لوگوں کو جو مغرب کے چھینکنے کے انداز پر بھی فدا ہو جاتے ہیں، تقلید کی خوب ترغیب دیتی ہے۔آج مغرب ہی ہمیں ہماری اس متاعِ گم گشتہ کی خبر دیتا ہے اور اس ہستی کی جانب ہماری توجہ مبذول کراتا ہے، جس کی محبت ہمارے دلوں کا سرور، جس کی شفقت ہماری کامرانیوں کی ضمانت اور جس کی دعائیں ہماری زندگی کی شاہراہ پر پھیلی روشنی ہیں۔ اس روز لازم ہے کہ ہم خود سے وعدہ کریں کہ ہر سال جون کی تیسری اتوار کو ہی فادرز ڈے نہیں منائیںگے بلکہ ہمارا ہر دن بزرگوں کی تعظیم اور ان کے ہر حکم کی تعمیل کے لئے وقف ہوگا۔ رب العزت ہمیں صحیح راستہ دکھائے، ہمارے لئے آسانیاں پیدا فرمائے اور ہمیں زندگی کے صحیح شعور اور فہم سے بہرہ ور رکھے۔(آمین)
٭٭٭