صدارتی ریفرنس پر رائے، عدالتی فیصلے کی طرح نافذ العمل ہوگی
تجزیہ:سعید چودھری
سپریم کورٹ نے اپنے مشاورتی دائرہ اختیارکے تحت صدارتی ریفرنس پر رائے جاری کردی ہے،5رکنی بنچ کے دو فاضل ارکان نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیاہے،آئین کے آرٹیکل 186کے تحت صدر کواختیارحاصل ہے کہ وہ کسی بھی آئینی مسئلہ پر سپریم کورٹ سے رائے طلب کرسکتے ہیں،آئین کی تشریح کی بابت اس رائے کی اسی طرح پابندی لازم ہے جس طرح دیگر عدالتی فیصلوں پر عمل کیا جاتاہے، چیف جسٹس پاکستان مسٹرجسٹس عمر عطاء بندیال،مسٹرجسٹس اعجاز الاحسن اورمسٹرجسٹس منیب اختر نے آئین کے آرٹیکل 63(اے) کی تشریح کرتے ہوئے قراردیاہے کہ منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا،انہوں نے اس بابت متعدد توجیہات پیش کی ہیں،دوسری طرف مسٹرجسٹس مظہر عالم خان اور مسٹرجسٹس جمال خان مندوخیل کی رائے میں منحرف رکن ڈی سیٹ ہوسکتا ہے تاہم اس کا ووٹ شمار کرنے سے نہیں روکا جاسکتاجبکہ اکثریت نے رائے دی ہے کہ نااہلی کے معاملے پر پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنی چاہیے،اس فیصلے کے بعد وفاق اور پنجاب میں نئی حکومتوں پر کیا اثر پڑے گا؟
وفاق میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور میاں شہبا زشریف کے بطور وزیراعظم انتخاب کے سلسلے میں پی ٹی آئی کے ارکان سے مدد نہیں لی گئی تھی،اس لئے اس فیصلے کا وفاق کی حد تک فوری اثر نہیں ہوتا تاہم نئی صورت حال کے پیش نظر صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ میاں شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے کہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو میاں شہباز شریف کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتاہے،انہیں اس بابت 172ووٹ درکارہوں گے جبکہ وزارت عظمیٰ کے الیکشن میں انہوں نے 174ووٹ حاصل کئے،3ووٹ ادھر ادھر ہوگئے تو وہ اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کرسکیں گے۔
دوسری طرف پنجاب میں حمزہ شہباز شریف نے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں 197ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ انہیں ارکان کی کل رکنیت کے نصف سے زیادہ ارکان کی حمایت کی ضرورت تھی جو 186بنتی ہے،پی ٹی آئی کے 25ارکان اسمبلی پر اعتراض ہے کہ انہوں نے آئین کے آرٹیکل63(اے)کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پارٹی پالیسی کے برعکس حمزہ شہبازشریف کو ووٹ دیا،اگران منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہ کئے جائیں تو حمزہ شہباز شریف کے حق میں استعمال ہونے والے ووٹوں کی تعداد 172رہ جاتی ہے جو 186سے کم ہے،ایسی صورت میں حمزہ شہباز شریف کا 16اپریل کو ہونے والا وزارت اعلیٰ کا الیکشن نئی صورت اختیار کرلے گا اور وہ غیر منتخب وزیراعلیٰ تصور کئے جائیں گے،آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کی اس رائے کی روشنی میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کا انتخاب غیر موثر ہوگیا ہے اور یہ الیکشن نئے سرے سے کروانا پڑے گاتاہم نئے الیکشن میں انہیں صورتحال تبدیل نہ ہوئی تو172کے قریب ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہوگی جو مطلوبہ تعداد 186سے کم ہے تاہم آئین کے تحت اگر کوئی امیدوار بھی نصف سے زائد یعنی 186ووٹ حاصل نہ کرسکے تو پھر دوبارہ الیکشن ہو گا اور اس شخص کومنتخب قراردیاجائے گا جو حاضر ارکان کی اکثریت حاصل کرلے گا،دوسرے لفظوں میں 186سے کم ووٹ لے کر بھی وزیراعلیٰ منتخب ہوسکتا ہے،اس پیچیدہ صورتحال کوکنٹرول کرنے کے لئے وفاق کے پاس ایک اختیارہے کہ وہ گورنر راج نافذ کرسکتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ گورنر صوبہ میں آئین کے مطابق حکومت نہ چلنے کی بابت رپورٹ وفاق کو بھیجے جس کی روشنی میں وزیراعظم صدر کو گورنر راج کی ایڈوائس دے سکتا ہے لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ صدر وزیراعظم کی ایڈوائس کو التواء میں رکھنے کے اپنے اختیار کو مسلسل استعمال کررہے ہیں اس لئے وزیراعظم کی ایڈوائس پر گورنر راج ممکن نظر نہیں آرہا، عدالت نے قراردیاہے کہ آئین کے کو اکیلا نہیں پڑھا جاسکتا،فاضل بنچ کا تمام فیصلہ سیاسی جماعتوں کے استحکام کے نکتہ کے گرد گھوم رہا ہے جبکہ وزیراعظم کے انتخاب اور عدم اعتماد سے متعلقہ آئینی آرٹیکلز 91اورآرٹیکل 95غیرموثر ہوکررہ گئے ہیں،اسی طرح وزیراعلیٰ کے انتخاب اور عدم اعتماد کے آرٹیکلز بھی غیر موثر ہوگئے ہیں،ایک شخص جس کی پارٹی سادہ اکثریت رکھتی ہو اور وہ وزیراعظم منتخب ہوجائے تو پھر مذکورہ آئینی تشریح کی روشنی میں اس کے خلاف کبھی تحریک عدم اعتماد منظور ہی نہیں ہوسکتی،یہ صورت حال شاید اتنی گھمبیر نہ ہوتی اگر صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر فوری عمل کررہے ہوتے یا پھر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی مرضی کا گورنر تعینات ہوچکا ہوتا،اب سپیکر صوبائی اسمبلی چودھری پرویز الہٰی قائم مقام گورنر ہیں اور وہ مسلم لیگ (ن) کو زچ کرنے کے لئے جو کرتے آرہے ہیں اس کے بعد ان سے کسی مہربانی کی توقع رکھنا عبث ہے۔
سعید چودھری